پاور سیکٹر کے گردشی قرضے پھر 287 ارب روپے تک پہنچ گئے

بزنس رپورٹر  بدھ 13 اگست 2014
این ٹی ڈی سی اور حکومت کو ادائیگی کے لیے دیے گئے نوٹسز کی قانونی مدت پوری ہوگئی۔ فوٹو: فائل

این ٹی ڈی سی اور حکومت کو ادائیگی کے لیے دیے گئے نوٹسز کی قانونی مدت پوری ہوگئی۔ فوٹو: فائل

کراچی: پاور سیکٹر کے گردشی قرضے ایک بار پھر 287.11 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

پاور کمپنیوں کی جانب سے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی ( این ٹی ڈی سی) اور وفاقی حکومت کو ادائیگی کے لیے دیے گئے نوٹسز اپنی قانونی مدت پوری کرچکے ہیں اور پاور کمپنیوں کے پاس وفاقی حکومت سے ساورن گارنٹی طلب کرنے کے لیے حتمی نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ پاور سیکٹر کے ذرائع کے مطابق پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں میں 1994کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کے 132 ارب 60 کروڑ روپے جبکہ 2002کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پلانٹس کے 154ارب 51کروڑ روپے کے واجبات شامل ہیں۔

نجی آئی پی پیز کی جانب سے این ٹی ڈی سی کو 17جون کو ادائیگیوں کے لیے حتمی نوٹس جاری کیا گیا تاہم نوٹس جاری کرنے کے باوجود این ٹی ڈی سی کی جانب سے ادائیگی نہ کرنے پر حکومت سے ادائیگیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو یکم جولائی کو نوٹس دیا گیا تاہم ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پاور کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو دیے گئے پہلے نوٹس کے ایک ماہ بعد ساورن گارنٹی انکیشمنٹ کے لیے ایک حتمی نوٹس دیا جا سکتا ہے جس کی مدت 10 روز ہوتی ہے، اس نوٹس کے ذریعے سرمایہ کار حکومت سے ساورن گارنٹی پوری کرتے ہوئے واجبات ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے ساورن گارنٹی طلب کیے جانے کے باوجود ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں حکومت کو ڈیفالٹ سمجھا جاتا ہے جس سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کا حکومت پر اعتماد کم ہوجاتا ہے۔

پاور سیکٹر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نجی آئی پی پیز کے لیے بھاری مالیت کے واجبات کی عدم ادائیگی کے باوجود بجلی کی پیداوار مشکل تر ہوگئی ہے تاہم ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے پاور کمپنیوں نے حکومت کو سارون گارنٹی انکیشمنٹ کا نوٹس کچھ دنوں کے لیے موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے البتہ سیاسی بحران ختم ہونے کے بعد حکومت کو ساورن گارنٹی کا حتمی نوٹس ارسال کیا جائے گا اور حکومت کے ڈیفالٹ ہونے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔