آج کیا ہوگا؟

نصرت جاوید  جمعرات 14 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

’’14اگست کو کیا ہوگا؟‘‘ والے سوال پر اپنا اور آپ کا وقت میں اس لیے ضایع نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میری ناقص رائے میں اس تاریخ کو تخت یا تختہ نہیں ہونا ہے۔ کھڑاک تو اس کے بعد ہونا ہے۔ کس کا؟ اس کے بارے میں فی الوقت میری رائے محفوظ ہے۔ ہماری حالیہ تاریخ میں احتجاجی تحریک کے ذریعے ایک حکومت ذوالفقار علی بھٹو والی 1977میں فارغ کروائی گئی تھی۔ اس تحریک کا آغاز 7مارچ 1977کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل 9جماعتوں نے ان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

ان دنوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی اسمبلی کے لیے پولنگ کے دو دن بعد ہوا کرتے تھے۔ اپوزیشن نے ان میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ ان کے اس فیصلے کا اثر لاہور، فیصل آباد، پشاور، کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں بھرپور طریقے سے نظر آیا۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب نے جب قومی اسمبلی کا اجلاس بلوایا تو اپوزیشن کی طرف سے منتخب ہوئے اراکین اس میں شریک ہی نہ ہوئے۔ انھوں نے اس اسمبلی کے بائیکاٹ کے بعد احتجاجی تحریک شروع کردی۔

بھٹو حکومت نے پولیس کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے جلسوں اور جلوسوں پر کچھ دنوں کے لیے قابو پالیا تو پہیہ جام تحریک شروع کردی گئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں کراچی سے پشاور تک پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ مکمل طورپر بند ہوگئی۔ پہیہ جام بھی حکومت کو گرا نہ پائے تو اپوزیشن اتحاد میں شامل ’’دینی جماعتوں‘‘ نے سڑکوں اور گلیوں کو دینی مدارس کے طلباء کے حوالے کردیا۔ بجائے نئے انتخابات کروانے کے ملک میں ’’نظامِ مصطفیٰؐ کے نفاذ‘‘ والا جذباتی نعرہ بلند کردیا گیا۔

اس جذباتی نعرے کی بدولت کئی نوجوان اپنے گریبان پھاڑ کر پولیس سے گولی کھاکر ’’شہادت‘‘ پانے کے تقاضے کرتے رہے۔ پولیس مکمل طورپر ناکام ہوگئی تو لاہور، حیدر آباد اور کراچی میں ’’منی مارشل لاء‘‘ لگا دیے گئے۔ وہ حربہ بھی کامیاب نہ ہوا تو سعودی سفیر کے ذریعے اپوزیشن کو حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کیا گیا۔ اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان ان مذاکرات کے کھلم کھلا مخالف رہے اور بالآخر بقول مولانا کوثر نیازی مرحوم ’’لائن کٹ گئی‘‘۔

1977 کی تاریخ دہراتے ہوئے یاد آپ کو بس اتنا دلانا ہے کہ احتجاجی تحریک کو پورے ملک میں پورے 5ماہ تک زندہ رکھتے ہوئے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی راہ بنائی گئی تھی۔ 14اگست کو منزل تو فی الوقت صرف اسلام آباد آکر دھرنا دینا ہے۔ اس حوالے سے لاہور اور پشاور سے آنے والے راستوں پر بڑی ہلچل نظر آئے گی۔ مگر باقی شہروں میں زندگی کے معمولات کسی نہ کسی صورت برقرار نظر آئیں گے۔ نواز شریف کا استعفیٰ لینے کے لیے ان شہروں میں بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کسی احتجاجی تحریک کی بدولت گھر نہیں بھیجی گئی تھی۔ اس وقت کے صدر کے پاس قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا۔ اس نے حکومت کو فارغ کیا۔ سپریم کورٹ نے اس فراغت کو جائز ٹھہرایا۔ قائم مقام حکومت نے 90دنوں میں انتخابات کروادیے۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف پہلی بار اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔

انھیں بھی غلام اسحاق خان نے 6اگست 1990 کے دن گھر بھیج دیا مگر جسٹس نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے اس کی تصدیق نہ کی۔ اسمبلی بحال ہوگئی۔ مگر گورنر پنجاب اپنی صوبائی اسمبلی کو بحال نہ کرنے کے معاملے پر ڈٹ گئے۔ فوج کی مداخلت ’’مجبوری‘‘ نظر آنے لگی۔ اسی لیے ’’کاکڑ فارمولا‘‘ ہوا۔ نواز شریف نے استعفیٰ ضرور دیا مگر اس کے بدلے غلام اسحاق خان سے بھی نجات پائی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت بھی کسی احتجاجی تحریک کی وجہ سے گھر نہیں گئی تھی۔ اسے پیپلز پارٹی کے بنائے صدر ’’فاروق بھائی‘‘ نے فارغ کیا تھا اور جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے اس اقدام کو آئینی اور قانونی طور پر درست ٹھہرایا۔ اس کے بعد جو انتخابات ہوئے ان کی بدولت میاں صاحب دوتہائی اکثریت والے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ ایک بار پھر اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لے لیا۔ سجاد علی شاہ سے سپریم کورٹ بھی خالی کروایا اور بالآخر جہانگیر کرامت سے استعفیٰ بھی لے لیا۔ ان کی حکومت فارغ ہوئی تو بنیادی وجہ وہ اختلافات تھے جو کارگل کی وجہ سے ان کے اور جنرل مشرف کے درمیان پیدا ہوئے۔ ان اختلافات کی شدت سے تنگ آ کر نواز شریف نے نیا آرمی چیف لگانا چاہا تو جوابی Coupہوگیا۔

14اگست کو اسلام آباد پہنچ کر عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے نواز شریف سے استعفیٰ لینا ہے۔ وہ دو تین لاکھ لوگوں کے ساتھ یہاں کئی دنوں تک بیٹھے بھی رہیں تو میاں صاحب استعفیٰ نہیں دیں گے۔ یہ استعفیٰ ’’کسی اور‘‘ کو لینا ہوگا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے چند مزید دن درکار ہوں گے اور ان چند دنوں میں احتجاجی تحریک کے کچھ شاندار جلوے لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہروں میں بھی دکھانا ہوں گے۔ فرض کرلیتے ہیں یہ سب کچھ ہو بھی جائے تو استعفیٰ صرف نواز شریف دیں گے۔

دریں اثناء یہ بات اب واضح ہونا شروع ہوگئی ہے کہ اگر عمران خان اور قادری اسلام آباد پہنچ کر قومی اسمبلی کو فارغ کروانے کے لیے بیٹھ گئے تو سندھ اور بلوچستان والے اپنی اپنی اسمبلیاں اور حکومتیں بچانے کے لیے میدانِ عمل میں آجائیں گے۔ ان کے میدانِ عمل میں آجانے کے بعد جو منظر بنے گا اس کی Dynamicsبالکل نئی ہوگی۔ وہ سامنے آئیں تو کوئی تجزیہ کرنے کی جرأت بھی کرے۔ اسی لیے تو میں اس بات پر بضد ہوں کہ ’’14اگست کو کیا ہوگا‘‘ والے سوال کو اس کالم میں نظر انداز کرتا رہوں۔ وہ تاریخ گزر جائے تو تجزیے ہی تجزیے۔ ہاں اس دوران بڑی شدت سے میں خود کو اس قابل بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوں کہ استاد محترم عبدالقادر حسن جیسی ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ لکھ سکوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔