آزادی کے 67 برس؟

مقتدا منصور  جمعرات 14 اگست 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میرے دوست کے دفتر میں بابائے قوم محمد علی جناح کی ایک تصویر آویزاں ہے۔ جس میں کلین شیوڈ قائد سرخ ٹائی کے ساتھ سفید سوٹ میں ملبوس منہ میں سگار دبائے بلیئرڈ کھیل رہے ہیں ۔ میں جب بھی اس کے دفتر جاتا  ہوں کافی دیر تک اس تصویر کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اس شخص کوجو اپنے طرز حیات میں اتنا ماڈرن، خوش لباس اورنفیس ہو۔جوفکری اعتبار سے اتناوسیع القلب اور روشن دماغ ہو کہ سروجنی نائیڈو اسے ہندومسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دینے پر مجبورہوجائے۔

وہ شخص جو لکھنو پیکٹ اور 14نکات کا محرک ہو ، بھلا کس طرح بنیاد پرست یا بنیاد پرستی کا داعی اور تنگ نظری کا وکیل ہوسکتا ہے ۔ وہ رہنماء جو متحدہ ہندوستان میں صوبائی خود مختاری کا حامی ہو کس طرح وحدانی حکومت کی حمایت کرسکتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ میرے حلق سے بعض حلقوں کی جانب سے پھیلایاگیا یہ جواز نہیں اتررہاکہ قائد اعظم نے یہ ملک تھیوکریسی کے لیے بنایاتھا ۔

المیہ یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اور سیاسی ومذہبی جماعتیں آگے بڑھنے اور ملک کو درپیش مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کے بجائے67برس سے ملک کے منطقی جواز کے بارے میں اپنی اپنی ڈفلیاں بجارہے ہیں ۔اس کی مثال یہ ہے کہ ابھی تین روز قبل (11اگست)دو اشتہار شایع ہوئے ہیں ۔اس اشتہارمیں قائد کی 11اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کے اقتباسات دیے گئے ہیں۔ اشتہار  میںقارئین سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا ہم قائد کے خوابوں کی تکمیل کے لیے مناسب طورپر کام کر رہے ہیں ؟دوسرا اشتہار جو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی قائم کردہ ’’تنظیم اسلامی ‘‘ کی جانب سے شایع کرایا گیا ۔

اس اشتہار کا عنوان ہے، ’’ قائد اعظم کا پاکستان …سیکولر یا اسلامک؟‘‘ اس اشتہارکے مطابق قائد کی11اگست کی جس تقریرکو آزاد خیال حلقے حوالے کے طور پر پیش کرتے ہیں،وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اشتہارکا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان صرف اسلامی نظام کے لیے وجود میں آیا ہے ۔ان اشتہارات کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 67برس سے ہم مسلسل ایک ہی لکیر کو پیٹے جارہے ہیں ۔ وہ فکری تضادات، جنھیں قیام پاکستان کے سال دو سال بعد ختم ہوجانا چاہیے تھا،آج بھی نہ صرف جاری ہیں بلکہ مسلسل بڑھ بھی رہے ہیں۔جس کی وجہ سے مختلف نوعیت کی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے درجن بھر سے زائد سقہ قسم کی مذہبی جماعتوںکونظرانداز کرتے ہوئے، جن میں جید علماء کی بھرمار تھی، ایک ماڈرن طرزحیات کے حامل رہنما کی قیادت میں بلاتخصیص فقہ، فرقہ اور مسلک کیوں متحد ہوگئے تھے۔ہمارے اکابرین یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ مسلمانوں کی اجتماعی دانش تھی کہ انھوں نے وسیع البنیاد مسلم ملک کے قیام کو ترجیح دی۔

اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مارچ1946 میں بابائے قوم نے لاہور میں سکھوں کے نمایندہ وفد سے ملاقات کی اور انھیں پاکستان میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے یقین دلایا تھاکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں انھیں زیادہ آزادیاں حاصل ہوں گی ۔ جس سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں اور بانیان کی اس خواہش کا اظہار ہوتا کہ وہ پاکستان کو تنگ نظر تھیوکریٹک ریاست کے بجائے وسیع البنیاد مسلم ریاست بنانے کے خواہشمند تھے ۔اسی طرح بانی پاکستان محمد علی جناح صوبائی خودمختاری اور وفاقیت کے بہت بڑے داعی تھے۔انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر کانگریس صوبائی خود مختاری پر آمادہ ہوجائے تووہ تقسیم ہند کے مطالبے سے دست بردار ہوسکتے ہیں ۔

مسلم لیگ کے دوسرے درجے کے بعض رہنما اور چوہدری محمد علی کے زیر اثر بیوروکریسی مذہب کا نام استعمال کرکے دراصل پاکستان کوایک وحدانی ریاست بنانے کے خواہشمند تھے۔ان کے عزائم قیام پاکستان سے تین روز قبل اس وقت سامنے آگئے ، جب سیکریٹری اطلاعات نے قائد کی 11اگست کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو سنسر کیا ۔اس کے بعد اسے متنازع بنانے کے لیے بعض مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا۔قائد کے انتقال کے بعد انھوں نے وہی کیا جو وہ چاہتے تھے۔

یعنی سب سے پہلے قرارداد مقاصد کی منظوری اورپھر 1953میں لاہور سمیت پنجاب کے بعض اضلاع میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات۔یہ فسادات دراصل وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو کمزور کرکے ختم کرنے کے لیے کروائے گئے تھے ۔مگر ان کے نتیجے میںدو سیاسی وسماجی برائیوں نے بالخصوص جنم لیا۔ اول،فوج کو اقتدار میں آنے کی شہ ملی۔دوئم،فرقہ واریت رفتہ رفتہ ایک انسٹیٹیوشنل شکل اختیار کرگئی۔

بزرگ سیاستدان اور سیاسی دانشور رسول بخش پلیجو کئی دہائیوں سے یہ دعویٰ کرتے چلے آرہے ہیں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم کوریاستی معاملات سے تقریباً بے دخل کردیا گیا تھا اور پورے نظام پر عملاًچوہدری محمد علی کی زیر قیادت بیوروکریٹس کا کنٹرول قائم ہوگیا تھا ۔ جنہوں نے ملک غلام محمد کو گورنر جنرل بنواکر اقتدار پر سول بیوروکریسی کی گرفت مضبوط کرلی تھی ۔لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ فکری تضاد جو قیام پاکستان سے تقریباً ایک برس قبل شروع ہوگیا تھا، وہ آج تک جاری ہے ۔

آج 67 برس بعد جب ہم اپنے نامہ اعمال پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ مقتدر اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) نے فکری تضاد کا جو بیج قیام پاکستان کے ساتھ بویا تھا وہ اب تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ ان رویوں کی وجہ سے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ایک طرف فوجی آمریتوں کی راہ ہموار کی اور دوسری طرف  مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کو فروغ دیا۔

اس عرصہ میں نئے اداروں کی تشکیل تو دور کی بات پہلے سے قائم اداروں کو بھی اپنے ہاتھوں تباہ کیا ۔ سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے میں سول و غیر سول بیوروکریسی کے ساتھ خود سیاسی جماعتوںکا بھی اہم کردار ہے۔دراصل سیاسی جماعتوں اوران کے قائدین کی Genes میں جمہوریت نہیں ہے ۔اس لیے ان میں فکری کثرتیت کے لیے قبولیت کا فقدان ہے ۔ وہ یا تو بہت ہی تابعدار قسم کے ماتحت ہیں یا پھر انتہائی بھونڈے آمر ۔ یہی روش و رجحان تاریخ کے ابواب اور اپنے ملک میں آمریت کے تلخ تجربات سے سیکھنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہوگا، خدشہ ہے کہ اسلام آباد میں قیامت کا رن پڑا ہوگا ۔ کون صحیح اور کون غلط یہ فیصلہ مشکل ہے ۔ایک طرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی جانب سے تبدیلی کے لیے جلسے جلوس اور دھرنے دینے پر تلی ہوئی ہیں ۔ دوسرے طرف مسلم لیگ(ن) انھیں بھڑاس نکالنے کا موقع نہیں دے  رہی ہے ۔نتیجہ ٹکرائو اور تباہی کے سوا کیا نکلے گا ؟

حالانکہ جو سیاسی جماعتیں حقیقی معنی میں پارلیمان کو فیصلہ سازی کا کلیدی ادارہ سمجھتی ہیں ، وہ تمامتر فیصلے اس ادارے میں کرنے کو ترجیح دیتی ہیں ۔ لیکن وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت ماورائے پارلیمان فیصلے کرنے کی عادی ہوچکی ہے ۔ ان میں شراکتی جمہوریت کے تصور کو سمجھنا اور عملاً اس کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت کا بھی فقدان ہے ۔اس لیے وہ جمہوری عمل کی نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

آج لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ اگر عمران خان اور علامہ قادری موجودہ حکومت کو ختم کرانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ وہ آئین میں تبدیلی کے لیے کون سا فورم استعمال کریں گے؟ کیا اس سلسلے میں فوج یا پھر سول بیوروکریسی سے مدد لیں گے؟یا اپنی جماعتوں کے بنائے ہوئے ضابطے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے؟اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بدترین آمریت ہوگی ۔ جمہوری فیصلے پارلیمان میں ہوتے ہیں ۔ملک کے انتخابی عمل اور الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بارے میں ان دونوں اکابرین کے تحفظات کے باوزن ہونے اور ان کی حقانیت پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے ۔ لیکن اس عمل اور اس ادارے کی تشکیل نو صرف اور صرف پارلیمان ہی سے ممکن ہے۔

اس لیے وفاقی دارالحکومت کو کار زار بنانے کے بجائے پارلیمان کو بحث و مباحثے اور تبدیلی کا فورم بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس لیے آج ملک مختلف نوعیت کے جن مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، ان کے حل کے لیے بصیرت ، دور اندیشی اور تحمل کے ساتھ سیاسی عزم کی  ضرورت ہے ۔ لہٰذا ریاست کے منطقی جواز کی بحث میں الجھنے یا اہم قومی فیصلے پارلیمان سے باہر سڑکوں پر کرنے سے گریز کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک جدید وفاقی جمہوریہ کے طور پر ہی قائم رہ سکتا ہے اور ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔