تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

رئیس فاطمہ  جمعرات 14 اگست 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج اس ملک کی 67 ویں سالگرہ ہے۔ جو بڑی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا۔ جس کی راہ میں ہزاروں سہاگنیں بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم ویسیر ہوئے تھے۔ لاتعداد دوشیزاؤں کے سروں سے عصمت کی چادریں انسانی بھیڑیوں نے نوچ لی تھیں۔ تب اس خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا کا درجہ دینے والوں نے ہجرت کے آگ کے دریا کو عبور کرکے یہاں ماتھا ٹیکا تھا۔ سجدوں سے دریائے اشک وجود میں آیا تھا۔ اس وطن کا نام ’’پاکستان‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔

لیکن آج میں یعنی محمد علی جناح اپنی قبر میں بہت بے چین ہوں۔ یہ بے چینی تو میں اپنے ساتھ لے کر اس مرقد میں آیا تھا۔ اور تب ہی سے کسی کروٹ چین نہیں ہے۔ کیا یہ ملک اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں ایک بھائی دوسرے کا گلا کاٹے؟ نفرتوں کی آبیاری کرے اور عبادت گاہوں کو مقتل میں تبدیل کردے؟ میرا پاکستان تو سب کا پاکستان تھا۔ یہ ملک صرف مسلمانوں کا نہیں تھا، بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا تھا۔ میں نے برملا کہا تھا کہ یہاں رہنے والی تمام اقلیتیں صرف اور صرف پاکستانی ہیں، وہ اپنے اپنے مذہبی عقائد اور عبادات میں آزاد ہیں۔ لیکن اس دن میری روح بری طرح مجروح ہوئی۔ جب میری اس تقریر میں سے یہ الفاظ نکال دیے گئے۔ کیونکہ میرے پیارے پاکستان پر انتہا پسندی کے جناتوں اور دیو نے قبضہ کرلیا تھا۔ ان خوں آشام درندوں کی جان جس طوطے میں تھی۔ آج وہ بہت طاقت ور ہوچکا ہے۔کاش داستانوں کی طرح کوئی باہمت نوجوان نکلے اور اس طوطے کی گردن مروڑ دے۔ جس کے وجود میں نفرت اور تعصب کا لہو بھرا ہوا ہے۔ لیکن ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سچ بولنے والی زبانیں تالو سے چپک گئی ہیں کہ زبان کھولی تو گولی حلق کے اندر۔ اے میرے خدا! میرے وطن میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ کہ انسان کم ہیں اور گولیاں زیادہ۔

آج 67 ویں یوم آزادی کے موقعے پر میرے مزار پہ آنے والے لیڈروں کو میں کیسے بتاؤں کہ میری روح کرچی کرچی ہے۔ جب میری نگاہیں واہگہ بارڈر پہ لگے ہوئے ان بل بورڈز پہ پڑتی ہے جن کا رخ بھارتی سرحد کی طرف ہے اور جس میں سکھوں اور ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پہ کیے گئے مظالم کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے؟ ان نفرت انگیز مناظر کی میں تاب نہ لاسکا۔

کاش! عقل کے اندھے، کانوں سے بہرے اور بصیرت سے محروم و معذور ایک لمحے کو یہ سوچنے کی زحمت تو گوارا کریں کہ اگر نفرت انگیز اور خون کھولا دینے والے بل بورڈز کا جواب اٹاری کی طرف سے بھی اسی طرح دیا جائے، جس میں لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی میں مسلمانوں کے ہاتھوں برباد، قتل اور زندہ درگور ہوجانے والے ہندوؤں کی تکلیف دہ تصاویر ہوں تو یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟ اس نفرت کا انجام کیا ہوگا؟ واہگہ بارڈر سے بھارت جانے والے مسلمان جب ویزا لے کر اٹاری پہنچیں گے تو ہندو اور سکھ افسران کے دلوں میں ان کے لیے کیا جذبات ہوں گے۔

بھارت میں ان بدنصیب مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوگا، جو اپنی اپنی جنم بھومی اور اپنے بزرگوں کی قبریں دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ شرانگیز بورڈز مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دیں گے۔ کیونکہ دوسری جانب بھی بدقسمتی سے مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے بعد انتہا پسند گروہوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ایسے میں پاکستان سے بھارت جانے والوں کے لیے کوئی بھی گلدستے راستے میں لے کر کھڑا نہیں ہوگا۔ افسوس کہ میری ناقابل علاج بیماری نے مجھے اتنا موقع ہی نہ دیا کہ وطن کی بنیادوں کو مضبوط کرسکتا۔ میں ہر پل بے چین رہتا ہوں کہ میرے وطن میں، میری جائے پیدائش کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟

میرے مدفن کو مقبرے کا نام دیا گیا۔ میرے آس پاس اور بھی پاکستان محبت کرنے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والی ہستیاں محو خواب ہیں۔ لیکن لوگو! تمہیں کیا پتا کہ میری اصل قبر کے اطراف کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اب پاکستانی قوم اور سرحدوں کے محافظوں سمیت تمام لیڈروں، صنعت کاروں،، جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، شاعروں اور ادیبوں سب کا مذہب صرف پیسہ ہے۔ دولت کے حصول کے لیے یہ خونی رشتوں کا بھی سودا کرلیتے ہیں۔

میرے مزار کے اطراف میں، اندر اور باہر کون لوگ سرگرم ہیں؟ اندر کیا ہو رہا ہے اور باہر کیا کاروبار ہے؟ سوچو تو غیرت مند انسان لرز جاتا ہے۔ ان مجرمانہ اور اخلاق باختہ سرگرمیوں کے لیے میرا ہی مزار ملا تھا؟ واہ میرے مولا واہ۔ ہر معاملے میں آج مرنے کے بعد بھی میرا مزار اور میری تصویر کام آرہی ہے؟ افسوس کہ مزار کے احاطے میں ہونے والی ناشائستہ حرکتوں کے عوض میری ہی تصویروں والے کرنسی نوٹ دیے جاتے ہیں۔

ہم سب نے بہت ساری قربانیاں دے کر ایک ’’مکان‘‘ بنایا تھا جس میں کئی کمرے تھے۔ میرے بعد لیاقت علی خان کو اگر زندہ رہنے دیا جاتا تو یہ ’’مکان‘‘ ۔ ’’گھر‘‘ بن سکتا تھا۔ لیکن ان طاغوتی قوتوں نے اسے گھر تو کیا بننے دینا تھا، اجاڑنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ پہلے اس ’’مکان‘‘ کے سب سے بڑے کمرے کی دیواروں کو توڑا اور اسے بنگلہ دیش بنا دیا جب کہ اسی کمرے کے باسیوں نے ’’گھر‘‘ بنانے کے لیے سب سے زیادہ ووٹ دیے تھے۔

کیسی تڑپتی ہوں گی مولوی فضل الحق، بیگم شائستہ اکرام اللہ، حسین شہید سہروردی کی روحیں؟ اس سے بھی ان طاغوتی طاقتوں کی تسلی نہ ہوئی تو ہر صورت میں ’’مکان‘‘ کے ’’گھر‘‘ بننے کے امکانات کو ختم کردیا۔ اب میرا پاکستان جسے میں گھر بنانا چاہتا تھا اس کی دیواریں گر رہی ہیں، بنیادوں میں عداوت کا پانی جمع ہوچکا ہے، چھتیں ٹپکنے لگی ہیں، صحن میں سیلاب کا پانی۔ اور بچانے والا کوئی نہیں۔اب یہاں تو ہندوؤں کی بالادستی نہیں ہے؟ سب بڑے باشرع مسلمان جن کی اولین ترجیح اقتدار اور دولت ملتے ہی سب سے پہلے کئی کئی شادیاں رچاتے ہیں، جائز و ناجائز کی کوئی حد نہیں۔

مشروبات کی بوتلوں میں اصل میں کون سا پسندیدہ مشروب ہوتا ہے۔ جب کوئٹہ سے کراچی لانے کے بعد ایک خراب ایمبولینس فراہم کی گئی اس شخص کے لیے جس نے اپنے کسی رشتے دار کو نہیں نوازا۔ اس کے ساتھ یہ سلوک؟ تب میری خوابیدہ آنکھوں نے ایک بھیانک خواب دیکھا کہ ایک سرسبز و شاداب میدان میں تخت شاہی پہ ایک کریہہ صورت بادشاہ نما شخص سو رہا ہے۔ اس کے تخت کے چاروں طرف چھوٹے اور بڑی جسامت کے جانور انسانی چہروں کے نقاب لگائے گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان کی زبانیں باہر نکلی ہوئی ہیں۔

بادشاہ کے پہرے داروں نے اپنے مالک کا اشارہ پاکر ان کے آگے ہڈیاں ڈالنی شروع کردیں۔ بڑے کے آگے بڑی اور چھوٹے کے آگے چھوٹی ہڈی۔ لیکن ان ہڈیوں پہ گوشت نہ تھا بلکہ زر و جواہر چپکے ہوئے تھے۔ جونہی جانوروں نے ان ہڈیوں کو دیکھا ان کی آنکھوں میں چمک اور تخت پہ لیٹے ہوئے شخص کے لیے اپنائیت امنڈ آئی۔ وہ اپنے اپنے حصے کی ہڈی لے کر خاموشی سے سر جھکا کر چلے گئے۔ اور تخت شاہی پہ لیٹا شخص کروٹ بدل کر سو گیا۔ ایسا ہی ایک بھیانک خواب میں نے جب بھی دیکھا تھا۔ جب میری بہن فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرایا گیا تھا۔ یہ خواب اکثر مجھے نظر آتا ہے۔

میں بہت افسردہ اور بے چین ہوں کہ میرے پیارے وطن میں اقلیتوں پہ زندگی حرام کردی گئی ہے۔ ہندو برادری کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کس کا ایجنڈا ہے؟ دہشت گرد اور مجرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ لیکن انھیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے والے صرف ظاہری حلیوں سے خود کو مسلمان ثابت کرنے پہ تلے ہیں۔ انھیں تو انسان کہنا بھی جائز نہیں۔

شیطان اور راکھشس کوئی بھی بھیس بدل سکتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ان کو پالنے والے اب خود ان کے یرغمالی بنے ہوئے ہیں۔ میرے وطن پاکستان کی بنیادوں کو مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے۔ انھیں ایک سازش کے تحت مذہبی بنیادوں پہ لڑایا جا رہا ہے۔ جب بنیادیں ہل جائیں تو دیواریں کیونکر برقرار رہ سکتی ہیں؟ یہ ملک جن کے ہاتھوں میں ہے وہ گرتی ہوئی دیواروں کو دھکا دینے کے ماہر ہیں۔ معجزے اب نہیں ہوتے۔ میرے وطن اور میری جنم بھومی کراچی کو بچانے والا کوئی نہیں۔

اقبال نے کہا تھا کہ:

وطن کی فکر کر ناداں‘ قیامت آنے والی ہے

لیکن میرے وطن پہ تو کئی قیامتیں گزر گئیں۔ اب تو بربادیوں کے مشورے ہو رہے ہیں۔ یہ سب گائے کھانے والے ہیں۔ گلہ گائے کو ’’گؤماتا‘‘ بنانے والوں سے تھا۔ اب یہاں کون اپنے ہی ہم مذہبوں کو دانے دانے کو محتاج کر رہا ہے اور اپنے خزانے بھر رہا ہے کاش! میرے پاکستان کا بھی کسی کو خیال آجائے۔ لیکن امید نظر نہیں آتی ۔دور دور تک غربت و افلاس کے دیو کا سایہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔