وہ‘ جو ہم نہیں ہیں…

ش۔ فرخ  جمعرات 14 اگست 2014

میں کوپن ہیگن کے علاقے کاسٹرپ کے ساحل پر آ بیٹھی تھی۔ دھوپ تیز تھی۔ لیکن سائے میں ہوا کے خوشگوار جھونکے گرمی کو درگزر کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ مرغابیوں کا جوڑا تیرتا ہوا سامنے سے گزرا۔ اتوار کا پہلا پہر تھا۔ کچھ فاصلے پر بادبانی اور میکانیکی کشتیوں کے ٹھٹھ لگے تھے۔

کچھ کشتیاں بہت آگے نکل گئی تھیں۔ ماں نے دو ٹوکریاں سنبھال رکھی تھیں۔ بیٹے نے تھیلے کندھے پر ڈالے۔ باپ نے کچھ اور سامان اٹھایا۔ اب وہ لکڑی کے تختے کے ذریعے اپنی کشتی پر سوار ہو گئے تھے۔ بہت روز بعد اپنے ملک سے باہر آنے کا موقع ملا تھا۔ خواہش تھی کہ اپنے قیام کا زیادہ سے زیادہ وقت ان لوگوں کے درمیان گزاروں جو مجھے بسوں، ٹرینوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ملتے تھے۔ عام لوگ جو اپنے ملک، اپنے تمدن کی گواہیاں ہوتے ہیں۔

اس روز میں کراچی ایئر پورٹ پر ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ ملتان کی فلائٹ کا آخری اعلان ہو چکا تھا۔4-3 مرد پریشان بیٹھے تھے۔ اتنے میں 3 عورتیں ہاتھوں میں تسبیحیں لیے نمودار ہوئیں۔ وہ جو جمعے کی نماز کی ادائیگی کا فرض ادا کر رہی تھیں۔ ایک مرد جھلا کر بولا۔ ’’ذرا چھوٹی نمازیں پڑھا کرو۔‘‘ عورتیں سر جھکائے اپنے آپ میں گھسی ہوئیں بہت بے چاری لگ رہی تھیں۔ وہ ایسی ہی بنائی گئی تھیں۔

شام کا وقت تھا۔ میں سڑک کنارے ایک بینچ پر بیٹھی تھی۔ کوپن ہیگن میں کسی سے بات کرنے سے پہلے کہنا پڑتا ’’انگلش؟‘‘ یعنی اگر تمہیں انگریزی آتی ہے تو بات کروں۔ اکثر بوڑھے مرد اور عورتیں نفی میں سر ہلا کر آگے بڑھ جاتے۔ البتہ نوجوان لڑکے لڑکیاں انگریزی جانتے ہیں کہ انھیں یہ زبان اسکول میں پڑھائی جاتی ہے اور وہ امریکی فلمیں دیکھتے ہیں ٹی وی پر بھی امریکی فلمیں چلتی ہیں جن کے مکالمے ڈینش میں لکھے ہوتے ہیں۔ مگر اس بوڑھے نے مجھے مہلت نہ دی۔ بس میرے قریب آ کر بولنے لگا۔ لہجہ شکایتی تھا۔ جب وہ بہت کچھ کہہ چکا تو میں نے کہا ’’انگلش‘‘ تو وہ سوری کہہ کر آگے بڑھ گیا۔

اسے مجھ پر اپنی کسی دوست مورین کا مغالطہ ہوا تھا۔ وہ سیکیورٹی والے دو نوجوان نہ جانے کہاں سے برآمد ہوئے تھے۔ پوچھا ’’امی گرینٹ‘‘ ۔۔۔۔۔’’نو، وزیٹر‘‘ مجھے کچھ لکھتا دیکھ کر مسکرائے اور غائب ہو گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ جو ہم میں نہیں ہیں۔ چند سال قبل کیے گئے ایک سروے کے مطابق ڈنمارک کے زیادہ تر لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے پڑوس میں کوئی امی گرینٹ رہتا ہو۔ یا ان کا کوئی لڑکا یا لڑکی ان میں سے کسی سے شادی کرے۔

تارکین وطن میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بوسنیا، لیبیا، صومالیہ اور پاکستانی شامل ہیں، کوپن ہیگن میں بس اور ٹرین میں سفر کے دوران اکثر جو عورتیں نظر آتی تھیں۔ ان کا زیادہ تر تعلق صومالیہ اور عرب ممالک سے ہوتا۔ بس میں میرے ساتھ ایک عورت آ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس کا تعلق گرین لینڈ سے تھا۔ وہ اپنے بیٹے سے ملنے کوپن ہیگن آئی تھی۔ بتانے لگی کہ اس کے ملک میں سڑکیں نہیں ہیں۔ وہ کشتی یا ہوائی سے سفر کرتے ہیں۔ میرے ایک سوال پر اس نے بتایا کہ وہاں ابھی بھی اسکیمو اور رینڈیئر ہیں جو برف پر بغیر پہیوں والی گاڑی (سلیج) کھینچتے ہیں۔

جاتے ہوئے وہ بڑے تپاک سے رخصت ہوئی۔ ڈین عوامی جگہوں پر اور سفر کے دوران کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ لیکن یہ۔۔۔۔؟ اردو کے جملے کانوں میں پڑ رہے تھے۔ ایک پاکستانی لڑکی فون پر مصروف گفتگو تھی۔ اس کی آواز پچھلی نشستوں تک پہنچ رہی تھی۔ سب مسافر بڑے صبر سے اس کی پٹر پٹر سنتے رہے۔ آخر بس ڈرائیور نے ٹوکا۔ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے اپنی بک بک وقت تک جاری رکھی جب تک کہ اس کا اسٹاپ نہ آ گیا۔ میرے وطن کے ایسے لوگ دوسروں کو آزردہ خاطر کر کے اپنی آزادی مناتے ہیں اور اگر کوئی ردعمل آئے تو شدید احتجاج کرتے ہیں اور خود کو مظلوم قرار دیتے ہیں۔

ڈنمارک میں برسوں تک گھروں میں ٹائلٹ نہیں ہوتے تھے۔ رفع حاجت کے لیے پبلک ٹائلٹ جانا پڑتا۔ جب یہ سہولت میسر آئی تو اچھی حکمرانی اور قانون کے نفاذ نے عوام کو اس کا پابند کر دیا کہ اپارٹمنٹس میں رہنے والے رات نو بجے کے بعد کم سے کم فلش کریں اور غسل سے گریز کریں کہ 6 بجے کھانا کھا کر 9 بجے تک سو جانے والے لوگ پانی کی آواز سے ڈسٹرب نہ ہوں۔

میں نے یہ پہلا ملک دیکھا جہاں شہر کی ہر سڑک، ہر گلی میں سائیکل کے ٹریک بنے ہیں۔ ان لوگوں کو نجی کام نمٹانے کے لیے رکشا یا چنگ چی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کم فاصلے کے کام سائیکل سے ہو جاتے ہیں۔ دور جانا ہو تو سائیکل سمیت بس یا ٹرین میں سوار ہو جائیں۔ جہاں اس کے لیے جگہ مخصوص ہے۔ ڈنمارک کا ایک سابق وزیر اعظم سائیکل پر سودا سلف لینے جاتا اور نجی کام نمٹاتا اس کا دفتر گھر میں ہی تھا۔ اس کے گھر میں کوئی ملازم نہیں تھا۔ وہ اپنا کھانا خود پکاتا اور گھر کی صفائی کرتا۔

میں بس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ سامنے ایک گاڑی سڑک کو ویکیوم کر رہی تھی۔ ایک پسماندہ ملک کے رہنے والے کے لیے یہ ایک حیران کن منظر تھا۔ ہماری سڑکیں تو جھاڑو والوں کے انتظار میں بلکتی رہتی ہیں۔ 67 سال گزر گئے۔ ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے کہ گھریلو اور صنعتی فضلے کو کس طرح ٹھکانے لگایا جائے۔ کراچی میں ماس ٹرانزٹ اور سرکلر ریلوے کے لیے محض میٹنگیں ہوتی ہیں۔ غیر ملکی ماہرین کو بلایا جاتا ہے کہ ہم لوکل ٹرانسپورٹ کے لیے کون سا طریقہ اختیار کریں کہ ماحولیاتی آلودگی اور ٹریفک کی افراتفری کو کم کیا جا سکے۔

کوپن ہیگن آ کر کرون بورگ جانا لازم ٹھہرا۔ ٹرین سے اتر کر اسٹیشن سے باہر آئے تو ہیملٹ کا بورڈ نظر آیا۔ شیکسپیئر نے ڈنمارک کے شہزادے ہیملٹ کو اتنی شہرت دی کہ کرون برگ کا سل کو ہیملٹ کاسل کہا جانے لگا۔ یورپ کے اس چھوٹے سے ملک میں اب بھی ایک ملکہ رہتی ہے۔ جس کے گارڈز کی تبدیلی کا منظر دیکھنے کے لیے ہم بھی ان سیکڑوں سیاحوں میں شامل تھے جو کیمرے تانے ہوئے تھے۔ مگر یہاں سوشلسٹ جمہوریت پنپتی ہے۔

میں کاسٹرپ ایئرپورٹ پر اپنی واپسی کی فلائٹ کے انتظار میں تھی۔ میں نے کل کوپن ہیگن کے مضافات میں گندم کے سنہرے کھیتوں، کسانوں، چراگاہوں میں چرتے ہوئے گھوڑوں، بیلوں کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر چہروں کی رنگتیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہو رہی تھیں۔ کچھ گھٹن محسوس ہوئی تو تازہ ہوا کے لیے باہر نکل آئی۔ ایک سیاہ فام لڑکی نے سگریٹ جلایا پلٹی ’’اوہ میں آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کر رہی۔ مجھے ویانا کی فلائٹ کا انتظار ہے۔‘‘ ایک دم بوکو حرام ذہن میں آیا۔ ’’نہیں۔‘‘ وہ پڑھی لکھی لڑکی یقینا کسی ایسی تنظیم سے منسلک تھی جو جہالت کے خلاف کام کرتی ہیں۔

میرے ہم وطن قومی ایئرلائن کے لاؤنج میں جمع ہو گئے تھے۔ وہ سب ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے لگ رہے تھے۔ فلائٹ کا اعلان ہوا۔ پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے نوجوان نے اللہ اکبر کی صدا لگائی۔ کہ 6-7 گھنٹے کی فلائٹ بخیریت پہنچ جائے لاہور سے کراچی کی فلائٹ میں میرے ساتھ ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے نشست سنبھالتے ہی کسی کو فون کیا اور کہا کہ میں جہاز میں بیٹھ گیا ہوں۔ پھر ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی۔ جہاز لینڈ کرنے لگا تو وہ پھر خشوع و خضوع کے ساتھ شکرانے کی دعا پڑھ رہا تھا۔ میں دعاؤں کے سہارے زندگی بسر کرنے والے اپنے پیارے ہم وطنوں کی جانب لوٹ آئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔