انقلاب کا دن

اقبال خورشید  جمعرات 14 اگست 2014

لیجیے حضرات، انقلاب کا دن آن پہنچا۔ پٹاخے چھوڑیں، بغلیں بجائیں، جی کھول کر قہقہے لگائیں کہ دل بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔

انقلاب کے عزت مآب تقسیم کاروں کو یقین ہے کہ آج کی صبح آپ کی انگڑائی، جمائی، چائے پر تیرتی ملائی؛ سب انقلابی رنگ میں رنگے ہیں۔ نیا پاکستان جنم لینے کو ہے پیارے۔

اگر حقائق کچھ دیر کو پرے رکھ دیں، خوش فہمی کے رتھ پر سوار ہو جائیں، باگیں ’’انقلابیوں‘‘ کے ہاتھ میں دے دیں، تب بھی کسی مثبت تبدیلی کا ہمیں دُور دُور تک امکان نظر نہیں آتا کہ تبدیلی ارتقائی عمل سے جنم لیتی ہے۔ اور ارتقائی عمل سائنسی خطوط پر استوار ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ چٹ منگنی، پٹ بیاہ والا معاملہ نہیں۔

چلیں کچھ دیر کو مان لیتے ہیں کہ حکومت آخری سانس لے رہی ہے، تسلیم کیا کہ عمران خان وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے والے ہیں، انقلاب کے بعد طاہر القادری مذہبی پیشوا ہوں گے، پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب، شیخ رشید وزیر اطلاعات، چوہدری شجاعت کو بابائے جمہوریت کا خطاب مل جائے گا، تب بھی یہ نٹ کھٹ سوال توانا درخت کے مانند سامنے کھڑا ہے کہ اِس پوری مشق سے ہم نے حاصل کیا کیا؟

کیا یہ انقلاب، جس کی حیثیت شروع سے مشکوک ہے، گرانی اور بدعنوانی کو اپنے پیروں تلے روند پائے گا؟ سسکتی تڑپتی معیشت میں نئی روح پڑ جائے گی؟ دہشت گردی گھٹے گی؟ دشمنوں پر لرزہ طاری ہو جائے گا؟

سچ تو یہ ہے جناب کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ بہتری کے امکان کو تو جانے دیں، اِس انقلاب سے جنم لینے والی گنجلک صورت حال معاملات کو مزید بگاڑ دے گی۔ انقلاب کے رومانس نے بڑے زخم دیے ہیں ہم کو۔ شعبدے بازوں کا من پسند نعرہ ہے یہ۔ عالمی قوتیں بھی اپنے مفادات کے لیے ترقی پذیر ممالک میں اِسے برتتی آئی ہیں۔ ’’عرب بہار‘‘ کے نتائج سامنے ہیں، مشرق وسطیٰ کس حال کو پہنچ گیا۔ مگر یہاں سچ کہہ کر کیا حاصل۔ یہ عمل بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ یہاں شور سنا جاتا ہے، دلیل نہیں۔

دامن پر ہر داغ گوارا، مگر یہ الزام قبول نہیں کہ ہم حکومت کے حامی ہیں۔ ہم تو سرکار کے ناقد۔ اور تنقید کا مکمل حق رکھتے ہیں کہ جس ریاست کے میاں صاحب سربراہ، ہم اُسی کے باسی۔ ن لیگ نے اِس خود ساختہ انقلاب کے معاملے میں جو رویہ اختیار کیا، اُسے نرم ترین الفاظ میں بچگانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ شاید انتشار کی بہتات میں ہم سانحۂ ماڈل ٹائون کو بھول جائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نہتے کارکنوں پر گولیاں چلانے کے ہیبت ناک فیصلے نے رائے عامہ حکومت کے خلاف کر دی۔

حفاظتی اقدامات نہ صرف شہر لاہور کے لیے وبال جان بن گئے، بلکہ جگ ہنسائی کا بھی باعث ٹھہرے۔ یہ تاثر ملنے لگا کہ ہیوی مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت بوکھلا گئی ہے۔ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کے فیصلے سے مارشل لا کے حامیوں کی باچھیں کھل گئیں۔ کاش ن لیگ نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہوتا۔ اِسی نوع کے فیصلوں نے اُن کا تختہ دھڑن کیا تھا۔ کم از کم اپنے پیش رو، آصف علی زرداری ہی کے طریق پر عمل کر لیا جاتا، جنھوں نے ’’انقلاب‘‘ اور ’’سونامی‘‘ دونوں کو اچھے ڈھب پر سنبھال لیا تھا۔

قادری صاحب کے مخالفین کہتے ہیں؛ اُن کا مقصد فقط انتشار اور تصادم ہے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک نہ تو وہ انقلاب بپا کرنے کا قانونی جواز رکھتے ہیں، نہ ہی آئینی امکان۔ ہاں، احتجاج کرنے کا پورا حق ہے۔ اور اِسی احتجاج کی راہ میں کھڑی کی جانے والی غیر ضروری رکاوٹوں نے اُن کے لہجے کو کچھ اور دبنگ بنا دیا ہے۔

14 اگست کو شروع ہونے والے انقلاب مارچ کا مقصد کیا ہے؟ قادری صاحب کی جانب سے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ تو سامنے آ ہی چکا۔ پر اِس کی صورت کیا ہو گی۔ اگر کسی کی خواہش مارشل لا کا نفاذ ہے، تو ایسے حالات میں جب پاک فوج ضرب عضب کے محاذ پر مصروف، یہ کوئی اچھی خواہش نہیں۔ اب جو دوست یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ قادری صاحب کس کے اشارے پر یہ میلہ سجائیں بیٹھے ہیں، اُنھیں ہلکان ہونے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔

عمران خان کے معاملے میں ہمیں تھوڑا دُکھ ہے۔ ایک نئی قوت کے طور پر سامنے آنے والی اُن کی جماعت سے جتنی امیدیں تھیں، خود خان صاحب نے، بڑے خلوص کے ساتھ، ایک ایک کرکے اُن پر پانی پھیر دیا۔ توقع تھی کہ وہ لیڈر بنیں گے، مگر وہ بھی سیاست داں نکلے۔ دھاندلی کا اُن کا الزام دُرست۔ دھاندلی تو ہوئی ہے، اور بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ جلسے جلسوں کا بھی وہ حق رکھتے ہیں، مگر اِس سمے تو یوں لگتا ہے کہ اُنھیں ’’انقلاب پسندوں‘‘ نے یرغمال بنا لیا ہے۔

اُنھوں نے آزادی مارچ کے لیے یوم آزادی کا دن چُنا، تو انقلاب مارچ کے لیے اِسی تاریخ کا اعلان ہو گیا۔ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ، اُنھیں سیاسی اور آئینی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ الزامات کی سیاست سے دامن بچا کر خیبر پختون خوا کو ماڈل صوبہ بنانے پر توجہ دیتے۔ پشاور میں ظاہر ہونے والے ترقی کے نشانات اگلے انتخابات میں اُن کی کام یابی پر مہر ثبت کر دیتے۔ افسوس، اُنھوں نے الگ راہ چنی۔

تعصب کو ہم موذی مرض تصور کرتے ہیں۔ یہ بدبختی کی انتہا ہے۔ البتہ یہ سوال ہمارے من میں کلبلاتا ہے کہ اِس ’’فقید المثال‘‘ انقلاب میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے، بلوچستان کا کتنا حصہ ہے؟ سندھ کے باسی اِس ضمن میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ اور پنجاب کے وہ طبقات، جنھیں نے ن لیگ کو ووٹ دیا، آخر اِس انقلاب میں کتنی دل چسپی رکھتے ہیں؟ سچ کہیں، یہ تو گنے چُنے لوگوں کا انقلاب ہے۔ اِس میں عوام نہیں، پیروکار حصہ لے رہے ہیں۔ انقلاب تو تب آتا ہے، جب عوام ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ مگر اِس ملک میں عجیب چلن ہے کہ انقلاب کی سربراہی خود حکومتیں کرتی ہیں۔ ذرا انقلاب کی بدقسمتی بھی ملاحظہ فرمائیں، کبھی اِس کی قیادت لینن اور مائو کیا کرتے تھے، اور آج۔۔۔ خیر، جانے دیں۔

شروع میں تو ہمارا خیال تھا کہ اِس انقلابی مشق سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، مگر ناقص حکومتی پالیسیوں کے بعد لگنے لگا ہے کہ شاید کچھ ہو ہی جائے۔ آج نہیں تو کل۔ اس ہفتے نہیں، تو اگلے ہفتے۔ یا پھر اگلے مہینے۔ کیوں کہ نہ تو ہمارے حکمراں بدلیں گے، نہ ہی اپوزیشن، اور نہ ہی عوام۔

ہم جمہوریت دشمن قوم ہیں، جنھیں وقفے وقفے سے انقلابی چورن کی ضرورت پڑتی ہے، تا کہ ’’کھایا پیا‘‘ ہضم کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔