جشن آزادی سیمینار 2014؛ آزادی بڑی نعمت ہے، برقرار کھنے کے لیے سخت محنت درکار ہے

اجمل ستار ملک  جمعرات 14 اگست 2014
ایکسپریس میڈیا گروپ اور برائیٹو پینٹس کے زیراہتمام سیمینار ’’میری شان پاکستان‘‘ میں گورنر پنجاب اور دیگرشرکاء کی گفتگو۔  فوٹو  : وسیم نیاز

ایکسپریس میڈیا گروپ اور برائیٹو پینٹس کے زیراہتمام سیمینار ’’میری شان پاکستان‘‘ میں گورنر پنجاب اور دیگرشرکاء کی گفتگو۔ فوٹو : وسیم نیاز

ادار ہ ایکسپریس نے اپنی روایات کے مطابق اس سال بھی جشن آزادی کے موقع پر مختلف شعبوں میں اپنے ملک کا نام روشن کرنے والے قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ’’میری شان پاکستان‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا۔ پروگرام کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب چودھری محمد سرور تھے جبکہ دیگر شرکاء میں پروفیسر حسن عسکری رضوی‘ اوریامقبول جان‘ مولانا فضل الرحیم اشرفی‘ اصغر ندیم سید‘ انضمام الحق‘ خالدعباس ڈار اور چیئرمین برائٹو پینٹس خواجہ اعجاز احمد سکا شامل تھے۔

پروگرام کے میزبان ایکسپریس کے ایڈیٹر فورم اجمل ستارملک تھے جبکہ رپورٹنگ ٹیم میں عامر نوید‘شکیل سعید‘ اصغر سلیمی‘ قیصر افتخار اور علیم اللہ شامل تھے۔ پروگرام میں حاضرین کی کثیر تعداد کے علاوہ روزنامہ ایکسپریس کے سینئر ایڈیٹر ایاز خان‘ ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چودھری‘ جی ایم مارکیٹنگ شرمین خرم‘ چیف رپورٹر خالد قیوم اور دیگر افراد نے بھی شرکت کی۔ پروگرام میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

چودھری محمد سرور (گورنر پنجاب)

میرا اس تقریب میں آنا،قومی ہیروز کے ساتھ بیٹھنا اور ان کی باتیں سننا بلاشبہ ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ میں ’’ایکسپریس میڈیا گروپ کو تہہ دل سے مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ ہرسال اس تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں تو یہ ایک روایت چلتی ہے کہ قومی ہیروز کو ان کی زندگی میں تو پوچھا نہیں جاتا بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کی یاد میں تقریبات کرتے ہیں۔

بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم

تمام عمر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ اور بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

ایکسپریس کا یہ سلسلہ پوری قوم کے لیے درخشاں مثال ہے اور ہمیں اس کی تقلید کرتے ہوئے اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیے اور ہمیں قومی ہیروز کو ان کی زندگیوں میں ہی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔

! الحمدللہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 67 برس بیت چکے ہیں۔وطن سے محبت انسان کے خمیر میں شامل ہے۔ وطن انسان کو شناخت ، پہچان اور شان عطا کرتا ہے۔ کوئی کتنا ہی نامور اور شہرت یافتہ کیوں نہ ہو اس کی شان اور پہچان اس کی سرزمین سے ہی قائم ہوتی ہے۔

آج جب میں شہرت یافتہ لوگوں کو پاکستان میں کیڑے نکالتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک کی پسی ہوئی قوم جن کے پاس نہ پینے کو صاف پانی ہے نہ دوقت کا کھانا ،جن کو انصاف بھی نہیں ملتا مگر وہ ہمارے مراعات یافتہ طبقے سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔

اتنی مصیبتوں کے باوجود انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیابلکہ وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر دولت سے مالامال کیا ہے ۔ہمارے بیرون ملک پاکستانی بھائی ملک میں بہت بڑاسرمایہ زرمبادلہ کی صورت میں بھیج رہے ہیں ،اگر انہوں نے دوہری شہریت اختیار کر بھی لی ہے تو وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ لیکن اگر آپ ان کی داستانیں سن لیں تو حیران ہوجائیں گے۔ان کی زمین اور جائیدادوں پرقبضے کرلیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں جو بھی ہماری کمزوریاں ہیں انکی ہمیں نشاندھی کرنی چاہیے۔جو بھی ہماری طاقت ہے اس کو سلیبریٹ Celebrate کرنا چاہیے۔ جو قومیں اپنی کمزوریوں کو تسلیم نہیں کرتیں اور ہمیشہ عظیم قوم ہونے کے زعم میں رہتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔جب میں برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بنا تو شروع میں کافی لوگوں نے مجھے کہا کہ پاکستانی ہونے کے باوجود آپ جہاں بھی جاتے ہو پاکستانیوں پر تنقید کرتے ہیں تو میں نے کہا برطانیہ میں مقیم پاکستانی بچوں کی شرح خواندگی 30 فیصد ہے جبکہ برطانیہ میں مقیم بھارتی بچوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے، تو کیا اس لیے میں پاکستانیوں کو مبارکباد دوں ؟اس کے بعد ہماری کوششوں سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی بچوں کی شرح خواندگی بڑھ کی کر40 سے 45 فیصد ہوگئی۔

آج پاکستان میں 7 ملین بچے سکول نہیں جاتے۔ہم اپنے جس پہلو کو بھی دیکھیں ہم زوال کی طرف جارہے ہیں۔اس پر celebrate کی بجائے ہمیں افسوس کرنا چاہیے کہ ہم نے 67 سالوں میں کیا حاصل کیا۔میں عمران خان سمیت سب سیاستدانوں کی عزت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کے جوبھی جائز مطالبات ہیں وہ پورے کیے جائیں ہم سب چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آزادالیکشن کمیشن ہو،ہم سب چاہتے ہیں کہ اس ملک میں شفاف انتخابات ہوں۔ہم سب اس ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں لیکن میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ ہمارے لیڈر ایک سال میں ہی حکومت سے مایوس ہوگئے ہیں ۔

لوگوں کو بیس بیس سال سے انصاف نہیں مل رہا۔میں بطور گورنر آپ کو یہ بات کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔جب تک لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا ہم بحیثیت قوم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہمارے پاس تو وطن ہے ہیں آپ ان لوگوں کو دیکھیں جن کے پاس وطن نہیں ہے۔ جب میںپہلی دفعہ غزہ اور مغربی کنارے گیا تووہاں ہولناک مناظر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

اسرائیلی تو ہٹلر سے بھی زیادہ فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو دہشت گرد ہے اور بین الاقوامی عدالت میں اس کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔جب میں غزہ میں لوگوں کے گھروں میں گیا تو وہاںہرگھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔

بہت سے زخمی معصوم بچوں کو دیکھنے کے لیے جب میں ہسپتال گیا تو ان بچوں کے چہروں پر کسی قسم کی پریشانی کے اثرات نہیں تھے۔ اس دن میں سمجھ گیا تھا کہ فلسطینیوں کو شکست دینا ناممکن ہے۔

میں یوم آزادی کے موقع پر حکومت اور سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارامذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات کریں۔جس کے جو بھی جائز مطالبات ہیں وہ پورے ہونے چاہیں۔میں بالکل اس بات کے حق میں ہوں کہ اگر چار کی بجائے پورے ملک کے حلقے بھی کھلوانے پڑیں تو کھلوا دیے جائیں۔

انڈیا ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے وہاں بائیومیٹرک سسٹم ہونے کی وجہ سے الیکشن شفاف ہوتے ہیں۔بائیومیٹرک سسٹم میں اگر انگوٹھا لگائیں تو نام ،پتہ اور بیلٹ ہر چیز سامنے آجاتی ہے اور ووٹ بھی کاسٹ ہوجاتا ہے۔اگر بائیومیٹرک سسٹم ملک میں آجائے تو کوئی دھاندلی کی شکایت نہیں کرے گا اور شفاف انتخابات کا راستہ کھل جائے گا۔ہمیں بائیومیٹرک سسٹم اپنانے کے لیے ٹارگٹ سیٹ کرنا چاہیے اور ایک سال کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پروفیسر حسن عسکری رضوی (ماہر تعلیم و دانشور)

میرے لیے یہ بات باعث افتخار ہے کہ مجھے یہاں مدعو کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا آج جو بھی مقام ہے اس کا کریڈیٹ پاکستان کو جاتا ہے۔ وہ پاکستان جو طویل جدوجہد اور بہت سی قربانیوں نے کے بعد وجود میں آیا ۔اگرچہ میں اس جنریشن میں سے نہیں ہوں جس نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیںاور تکالیف اُٹھائیں۔ ہاں میں ان لوگوں میں سے ضرور ہوں جنہوں نے پاکستان سے فائدہ اُٹھایا۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے تعلیم حاصل کی اور پاکستان میں اپنے اپنے شعبوں میں آگے بڑھے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجھے آگے بڑھنے کے لیے بنیادی مواقع پاکستان نے دیے۔ اس ملک نے مجھے تین بڑے فائدے دیے ہیں۔پہلا یہ کہ پاکستان نے آپ کو اور مجھے قومی شناخت دی،جھنڈا دیا اور بین الاقوامی ممالک میں ایک نام دیا۔پھر مجھے اس مقام تک پہنچنے کے لیے مواقع فراہم کیے۔ اگر پاکستان نہ بناہوتا تو ہوسکتا ہے کہ میں کسی دفتر میں چپڑاسی لگاہوتا یا تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارغ بیٹھا ہو تا اگر بڑی ترقی بھی کرلیتا تو کلرک ہوتا۔

میں یہ بات محاورتاً نہیں کہہ رہا بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ جو وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان کی سرزمین پر آئے وہ بہت فائدہ مند رہے۔کیونکہ موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد سے تھوڑی زیادہ ہے لیکن جب وہاں سول سروسز،آرمڈفورسز، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز وغیرہ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے بہت کم نمائندگی دی جاتی ہے۔

اگر آپ ایک عام مسلمان کی بات کریں تو اس کی مشکلات بہت زیادہ ہیں ۔خصوصاً اگر آپ ہندوستان گئے ہیں اور وہاں مسلمانوں کے علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ بیچارے وہاں کس کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔یہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ پاکستان میں مسائل نہیں ہیں،بلاشبہ یہاں مشکلات بھی ہیں اور خامیاں بھی اور کوتاہیاں بھی ہیں۔ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہمیں ان کو درست کرنا ہے۔پاکستان کو صحیح سمت میں اسی صورت میں لایا جاسکتا ہے جب ہم مل جل کر آگے بڑھیں گے اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

جب تک ہم کوشش نہیں کریں گے توکوئی باہر سے آکر مسائل حل نہیں کرے گا۔خدا بھی انہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔اور اس چیز کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا فوکس ملک کی مضبوطی، اتحاد اور اکنامک ڈویلپمنٹ کی طرف ہونا چاہیے۔اکیسویں صدی میں علم اور ٹیکنالوجی طاقت کے بنیادی انسٹرومنٹس ہیں جن سے ملک طاقتور ہوسکتا ہے ۔ جس قوم نے ان کو حاصل کیا وہ کامیاب ہوئی۔ لہٰذا پاکستان کی ترقی کے لیے ہم سب آپس میں تعاون اور مل جل کر کام کرنا چاہیے ۔اگر پاکستان ترقی کرے گا تومیں ترقی کروں گا،آپ لوگ ترقی کریں گے۔

اوریامقبول جان (صحافی‘ کالم نگار)

میں پاکستان کے حوالے سے جب کبھی اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو حقیقت میں اس کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔اکثر لوگ اس پر مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ایساکیوں ہے۔تاریخ کے صرف دوڈھائی سوسال کے صفحات دو،تین منٹ میں پلٹ کر آپ کے سامنے رکھناچاہوں گا۔آج سے دو،تین سوسال پہلے ہمیں ایک علم پڑھایا جاتا تھااور تمام بڑی یونیورسٹیاں اس علم پر تان توڑتی تھیں کہ دنیا میں قومیں چار طریقوں ’’رنگ،نسل ،زبان اور علاقے ‘‘ سے بنتی ہیں۔زمین اور علاقے سے لوگ محبت کرتے ہیں، اس ماں کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن جب یہ جانوروں کے لیے گھاس اور پینے کے لیے پانی نہیں دیتی تو لوگ اسے چھوڑ کر کسی اور کی ماں ’’زمین‘‘ کو فتح کرنے نکل جاتے ہیں۔

یہ کیسا رشتہ ہے؟دنیا کی سب سے بڑی ہجرت افریقہ میں ہوئی جہاں کے لوگوں نے اپنی دھرتی ماں کو چھوڑا۔پھر میں نسل پر نظر ڈالوں تو ’’کاکیشنز‘‘ دنیا کی خوبصورت ترین نسل تھے ،باپ دادا ایک ہونے کے باوجود 125 سال آپس میں جنگ لڑتے رہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیاکو تقسیم کردیا گیا ۔جب یہ دنیا تقسیم ہورہی تھی تو مسلم امہ بھی تقسیم ہورہی تھی۔مصری اپنی تہذیب ونسل پرفخر کرنے لگے،عراقی اپنی روایات پر فخرکرنے لگے اور ایرانی اپنے تہذیت و تمدن پر فخر کرنے لگے،الغرض ہر ملک نے اپنے رنگ اور نسل کے نام کی تختی لگائی مگر میر ے ملک نے اللہ کے نام کی تختی لگائی جس پر مجھے فخر ہے۔ ہم نے دس لاکھ شہیدوں کے خون سے پاکستانی سرزمین کو سینچا ہے۔ جس طرح میں اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں اسی طرح اپنی پہچان پاکستان کو بھی اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔

مولانا فضل الرحیم اشرفی (چیئرمین متحدہ علماء بورڈ پنجاب و نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ)

میں اکثر ٹی وی میں جانے سے بہت کتراتا ہوں مگر آج اصغر ندیم سید اور خالد عباس ڈار صاحب کو سننے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب میں بھی ٹی وی میں جایا کروں گا۔اگر ہم واقعتاً ٹی وی ڈراموں کے ذریعے اصلاح کرنا چاہیں تو ان سے بہت ہی اصلاحی کام لیے جاسکتے ہیں مگرجب چینل بدلنے پر کچھ ناپسندیدہ پروگرام نظر آنا شروع ہوتے ہیں تو بہت افسوس آتا ہے ۔

اللہ ہمارے تمام ٹی وی چینلز سے وہ کام لے جن سے اس ملک کی بقا وحفاظت ممکن ہو اور لوگوں کے دل اللہ کی طرف لوٹ جائیں۔ 1946ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے دستور ساز کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں انہوں نے کہا آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے پاکستان کس لیے بنانا ہے، اس موقع پر بانی پاکستان نے فرمایا کہ ہم پاکستان اس لیے حاصل کررہے ہیں کہ وہاں ہم اپنی زندگی‘ اپنی تہذیب و تمدن‘ روایات اور اسلام کے مطابق گزار سکیں۔

قائد اعظم کی مسلم لیگ میں جو سب سے پہلا لیٹر پیڈ چھپا اس پر قرآن پاک کی آیت درج تھی۔آج پاکستان میں لو گ فاقے سے مررہے ہیں اور غربت کے باعث خودکشیاں کررہے ہیں۔

رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ ’’میں اس کو مسلمان نہیں سمجھتا جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘۔ ہمیں غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔آج کل کے حالات کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ کسی بھی مشکل وقت میں ’’ایاک نعبدووایاک نستعین ‘‘ پڑھیں توہر مشکل دور ہوجائے گی۔اگر آپ خلوص دل کے ساتھ اس دعا کو پڑھیں گے اور خدا پر کامل یقین رکھیں گے تو انشاء اللہ ملک میں انتشار و بدنظمی ختم ہوجائے گی۔

اصغر ندیم سید (ادیب و ڈرامہ نگار)

میرے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ ادیبوں کی نمائندگی کے لیے مجھے ’’ایکسپریس‘‘ نے دعوت دی جس کے لیے میں ’’ایکسپریس میڈیا گروپ ‘‘ کا بہت مشکور ہوں۔میں اس کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری بھی محسوس کررہا ہوں کہ 67 سال کا پاکستانی ادب جس کی جڑیں کئی سوسال میں پیوست ہیں، اس ورثے کی نمائندگی کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا۔

آج ہم جو کچھ بھی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں وہ ماحول، حالات، وہ زندگی اور وہ اقدار ملی ہیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ میں پاکستان سے دو ڈھائی سال چھوٹا ہوں اور میری نسل کے لوگ بہت خوش قسمت رہے ہیں لیکن سچ بات یہ ہے کہ میں ملتان کے انتہائی غریب گھر سے تعلق رکھتا تھا۔ میں ملت ہائی سکول ملتان میں پڑھتا تھا جہاں انضمام الحق کی فیملی کے بہت سے لوگوں کے علاوہ ادکار محمد علی بھی پڑھے۔ میں نے چوبیس سال گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا اس کے علاوہ ڈائریکٹر لاہور میوزیم بھی رہا۔یہ ساری عزت و افتخار پاکستان کی وجہ سے ہے۔ابھی میں نے ایم اے کیا ہی تھا، اور مجھے کوئی نوکری نہیں ملی تھی، تو ایک دن میرے والد نے مجھ سے کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ تم پر کتناپیسہ خرچ ہوا ہے؟

میں نے کہا آپ بتادیں۔ تو انہوں نے ایک کاپی نکالی جس پر حساب درج تھا۔میں ٹاٹوں کے سکول میں پڑھا ہوں اور میری ماہانہ فیس ’’ایک آنہ ‘‘ تھی۔ پھر پانچویں کلاس کے بعد دوسرے سکول میں ہم تین بھائیوں میں سے دو کی فیس معاف تھی اور میری پانچ روپے فیس تھی۔

اس کے بعد میں گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں داخل ہوگیا جہاں فیس 10 روپے سے شروع ہوئی اور 15 روپے تک گئی۔تو جب ٹوٹل حساب ہوا تو وہ 1600 روپے بنے۔ اس زمانے میں پی ایچ ڈی تک تعلیم پر بھی بہت کم پیسے خرچ ہوتے تھے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے جیسا بچہ کبھی نہ پڑھ سکتا ۔آج بچوں کے ایک ایک سمیسٹر کی فیس ڈیرھ ڈیرھ لاکھ روپے ہے۔

یہ 67 سالوں میں ایسا کیا ہوا ہے ؟ تجارت اپنی جگہ مگر ہمیں تعلیم کو تجارت نہیں بناناچاہیے تھا۔میں اس وقت مطمئن ہوں گا جب ایک عام آدمی کو بھی ویسے ہی ثمرات ملیں گے جیسے کبھی مجھے ملے تھے۔

ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔پاکستان کے ادیب کا کردار بہت ہی قابل فخر ہے۔ میں ان ادیبوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں جن کی میں نمائندگی کررہا ہوں۔ادب ہماری تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی تاریخ کا آئینہ ہوتا ہے۔آپ کوئی اور تاریخ نہ پڑھیں صرف ساٹھ سال کا ادب پڑھ لیں،آپ کو پاکستان کے زخم بھی نظر آجائیںگے اور پاکستان کی خوبصورتیاں بھی نظر آجائیں گی۔لہٰذا دب ایسا شعبہ ہے جو کوئی بھی چیزمِس نہیں کرتا۔اگر آپ دیکھیں توقیام پاکستان کی ساری کی ساری تاریخ منٹو کے افسانوں ،فیض احمد فیض کی شاعری،اشفاق احمد کے فکشن اور بہت سے لکھاریوں کے ادب میں موجود ہے۔

اس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے بزرگوں نے کن حالات کا سامنا کیا اور وہ کن تاریخی کروٹوں سے نکل کرآئے۔کسی بھی مارشل لاء کو ادیب نے نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس پر React کیا‘ چاہے وہ ایوب خان کامارشل لاء ہو،جنرل ضیاء کا مارشل لاء یا مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو۔ گویا ادیب اپنی زمین،اپنی عوام، اپنی اقدار اور اپنے وطن کے حالات سے پوری طرح کمِٹڈ ہے۔ان کے بغیر نہ تو وہ سوچتا ہے اور نہ ہی لکھ سکتا ہے۔

اس نقطہ نظر سے آپ بڑی شان کے ساتھ پاکستانی ادب کا دنیا کے ادب کے ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں۔پاکستانی ادیب نے عالمی اور ملکی تبدیلیوں کو بڑے اچھے انداز سے لوگوں کوروشناس کروایااور ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان کے تما م بڑے ادیب لاہور اور پنجاب میں تھے۔ فیض احمد فیض،منیر نیازی،ا حمدندیم قاسمی،ن میم راشد،ناصر کاظمی یہ وہ نام ہیں جن کے بغیر اردوشاعری نامکمل ہے۔اسی طرح فکشن میں احمد ندیم قاسمی،اشفاق احمد،انتظار حسین اور عبداللہ حسین جیسے تمام بڑے رائٹرز ایک وقت میں لاہور میں تھے۔اس طرح ادب کی جو تاریخ رقم ہوئی اس سے آپ پاکستان کی وسعت اور تخلیقی تجربے کا باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

یہ اتنا بڑا ادب کیوں لکھا گیا؟ اس کی و جہ’’ پاکستان‘‘ تھی۔اس ادب سے نوزائیدہ ملک کے مسائل کی نشاندہی اور لوگوں کی نمائندگی ہوتی تھی۔پاکستانی کی تاریخ بھی وہی ہے جوادب کی تاریخ ہے۔اس حوالے سے ادب کوعلیحدہ نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ میں انڈیا میں کئی جگہوں پر گیا ہوں اور میں نے کئی جگہوں پر لیکچر دیے ہیں ،وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اردوڈرامہ کا فارمیٹ اور تکنیک ہم نے پاکستانی ڈرامہ رائٹرز سے سیکھی ہے۔ اس میں کوئی بحث والی بات نہیں۔ ہمارا ادیب الیکٹرونک میڈیا میں بھی کامیاب رہا۔آخری بات یہ ہے کہ ابھی سفر ختم نہیںہوا۔ اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ہمیں سخت محنت کی ضرورت ہے۔

خواجہ اعجاز احمد سکا (چیئرمین برائیٹو پینٹس)

ہم ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ پاکستان نے ہم کو کیا دیا۔ کوئی یہ بات نہیںکرتا کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا۔میرے والد صاحب اکثر کہا کرتے ہیں کہ ہمیں کم از کم دس منٹ نکال کر یہ سوچناچاہیے کہ ہم اپنے دین اور ملک کی بھلائی کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔آج ہمارے پاس ہر چیز کا وقت ہے مگر یہ بات سوچنے کا وقت نہیںہے۔ اکثر ہم گھروں میں تنازعات اور مسائل کو ڈسکس کرکے حل کرتے ہیں اور جس گھر میں ایسا نہیں ہوتا وہاں زوال آجاتا ہے۔ہمیں پاکستان کو own کرنا چاہیے۔

آج پاکستان کو کوئی own کرنے کو تیار نہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ کوئی باہر سے آکر ملک کے حالات ٹھیک کرے گا،ایسا ممکن نہیں ۔ ملک کو ٹھیک کرنے کے لیے اپنی اپنی کنٹری بیوشن کرنا پڑے گی ۔دنیا میں ملکی حالات ٹھیک کرنے کے لیے تما م کمیونٹیز اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری کمپنی کا پیغام ہے کہ ’’قدرت کا ہررنگ پاکستان، خوشیوں کی داستان پاکستان، یہ ہے بڑائیٹو کا پاکستان، رنگوں کی داستان‘‘ ہماری دعا ہے کہ زمین کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے۔ہماری اس ملک کے لیے کنٹری بیوشن یہ ہے کہ الحمدللہ ہم نے اس ملک میں رہتے ہوئے ’’برائیٹو پینٹس‘‘ کا کاروبار بلاسودشروع کیا اور آج تک بلاسود چلارہے ہیں۔

انضمام الحق (سابق کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم)

آج ہماری جتنی بھی عزت ہے وہ پاکستان کی وجہ سے ہے۔ہمیں پاکستان کو آگے بڑھانا ہے۔ ایک وقت تھا پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آگئی تو ہمیں نمبر ون ہونے میں اتنی محنت نہیں کرنا پڑی تھی جتنی محنت اس پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے کرنی پڑی۔ہمارے ملک کے قیام کے لیے ہمارے بڑوں نے بے شمار قربانیاں دیں ، مگر اب ہمیں اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے دوگنی قربانیاں دینا ہوںگی اور ڈبل محنت کرنا ہوگی ۔ہم لوگ اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ‘‘لاالہ الااللہ‘‘ یعنی اللہ کے سواکوئی معبود نہیں۔

ہم سب کو اس کا مطلب تو پتہ ہے مگر سمجھ بہت کم ہے۔ہمارے دلوں میں ’’اللہ کی مدد سے سب کچھ ہونے کایقین اور اللہ کے سوا کسی غیر سے کچھ نہ ہونے کایقین ہونا چاہیے‘‘۔میرا اس چودہ اگست پر تمام پاکستانی بہن،بھائیوں کو پیغام ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اللہ کوراضی کرلیں۔ابھی رمضان گزرا ہے اسی حوالے سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے رسول پاک ﷺ سے پوچھا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کیا دعا مانگوں؟ رسول پاکﷺ نے فرمایا اللہ سے مغفرت کی دعاما نگیں۔آئیں اس چودہ اگست کو عہد کریں کہ انشاء اللہ ہم اپنے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔

خالد عباس ڈار (اداکار)

میں دن رات یہ سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمان بہن ،بھائیوں پر کتنی کرم نوازی اور مہربانی کی ہے کہ ہمیں اس ملک سے آزاد کروایا جہاں میرے مسلمان بھائیوں کو رہنے کے لیے اچھی جگہ میسر نہیں ۔میں اور پروفیسر حسن عسکری صاحب کلاس فیلوز تھے۔

ہم چودہ سال تک اکٹھے پڑھتے رہے۔ گورنمنٹ کالج میں اوریا مقبول جان مجھ سے جونیئر تھے۔حسن عسکری اور اوریامقبول جان بہت پڑھنے لکھنے والے قابل لوگ تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں گورنمنٹ کالج کی وجہ سے ہی اس مقام تک پہنچا ہوں۔

آج کل کالجوں میں کروم پلیٹڈ موزرزپر لڑائی ہوتی ہے۔ بچے اپنے ماں باپ سے قلم کی بجائے ہتھیار مانگتے ہیں۔اقدار بدلتی جارہی ہیں۔ ہمیں آزادی بڑی مشکل سے حاصل ہوئی ۔اگر آپ کسی بچے کو اپنی طرف بلائیں تو وہ کہتا ہے کہ تم آجاؤ بیمار ہوکیا؟ ہم اپنے والدین سے ساری زندگی ڈرتے رہے اور ڈر کی وجہ سے ان کا چہرہ بھی بمشکل ہی دیکھتے تھے۔

آج کا بچہ تو صرف اپنے حقوق مانگتا ہے۔ یہ ساری آزادی کی محبتیں ہیں۔ 1960ء میں میرے علاوہ میری پوری فیملی انگلینڈ چلی گئی۔ میرے والدین جب تک حیات رہے ،برٹش نیشنل رہے۔میں اپنے خاندان کا واحد فرد ہوں جو صرف پاکستانی نیشنلٹی ہوں۔ میں نے اتنی دنیا گھومی ہے لیکن میری شناخت پاکستانی ہے۔ الحمدللہ میں پاکستانی ہوں اور میرا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے۔ میں نے جس عزت سے زندگی گزاری ہے اسی عزت سے اللہ تعالیٰ سے موت مانگتا ہوں۔ میرا یہ ایمان ہے کہ اگر میں پاکستانی نہ ہوتا تو کبھی اتنی عزت نہ کما پاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔