(پاکستان ایک نظر میں) - اگر پاکستان نہ ہوتا تو؟

اعظم طارق کوہستانی  جمعرات 14 اگست 2014
پاکستان ایک نعمت ہے اگر یہ نہ ہوتا تو آج بھی ہندوستان میں بابری مسجد، گجرات فسادات اور ہر ہر طرح مسلمانوں پر ظلم ہی ہورہا ہوتا۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان ایک نعمت ہے اگر یہ نہ ہوتا تو آج بھی ہندوستان میں بابری مسجد، گجرات فسادات اور ہر ہر طرح مسلمانوں پر ظلم ہی ہورہا ہوتا۔ فوٹو: اے ایف پی

اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ویسے تو خیالی دنیا میں گھوڑے دوڑانے والے فرد کو عقل مند تصور نہیں کیا جاتا۔۔۔لیکن ہم یہاں ان عقل کل حضرات کی بھی قلعی کھولنا چاہتے ہیں جو پاکستان بننے پر سیخ پا ہیں۔ جن کا بس چلے تو اس پاکستان کو بھارت کا ایک صوبہ بنا کر چھوڑیں۔نہیں نہیں بلکہ میں آپ کو اگر صحیح بتاؤں تو یہ اکھنڈ بھارت کے خواب کو بھی پورا کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ جبھی ممکن ہیں جب حکمرانوں کے علاوہ عوام ان کی جیب میں سماجائیں۔ 

میرے دوست پوچھتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔تو پھر سنیے۔۔۔اور سر دھنیے۔۔۔

*اگر پاکستان نہ ہوتا تو گجرات جیسے فسادات روز کا معمول بن جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل کیا جاتا رہتا۔

*اگر پاکستان نہ ہوتا تو یونیورسٹیوں اور کالجز میں طلبہ کا جینا دوبھر کردیا جاتا۔ جیسے ابھی پچھلے دنوں بھارت میں مسلمان طلبہ کے ساتھ کیا گیا۔
*اگر پاکستان نہ ہوتا تو مسلمان نوجوان لڑکیاں اسی طرح دن دیہاڑے غائب کردی جاتیں جیسے برصغیر کی تقسیم سے پہلے غائب کردی جاتی تھیں۔
*اگر پاکستان نہ ہوتا تو بابری مسجد کے بعد شاہ فیصل مسجد(جو شاید بنتی بھی نہیں) اور شاہ فیصل مسجد کے بعد بادشاہی مسجد کو جنونی ہندو شہید کردیتے اور ہم سالوں تک صرف اس کا ماتم ہی کرتے رہتے۔
*اگر پاکستان نہ ہوتا تواس وقت پوری امت مسلمہ کے پاس کوئی ایٹمی طاقت کا حامل ملک بھی نہیں ہوتا۔ ہم تو بات کررہے ہیں کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو یہ ہوتا یا وہ ہوتا۔۔۔ لیکن جب پاکستان نہیں تھا تو کیا تھا۔ ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔

یہ کوئی صدیوں پرانا قصہ تھوڑی ہے! کیا اس تقسیم کے چشم دید گواہ اب بھی موجود نہیں ہیں۔ جنہوں نے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے لوگوں کو دیکھا۔ اکثریت میں ہوتے ہوئے جس طرح مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ۔۔۔وہ ہم بھولے تو نہیں ہیں۔ اور ہاں ’’دلّی‘‘ کو میں کیسے بھول جاؤں۔۔۔ ہاے ہاے دلّی۔۔۔دلّی کا سوچتے ہی دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔ اس کی تباہی اور بربادی پڑھی نہیں جاتی۔۔۔ وہ تو گاندھی کا شہر تھا۔ اس میں کیوں مسلمانوں کی لاشیں سڑکوں پر بے گوروکفن پڑی رہیں۔ مسلمانوں کی لاشیں دفنانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔۔۔ہندو اور سکھ غنڈے سرعام گھومتے اور دلّی جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی، پولیس اور فوج کی موجودگی میں مسلمان بیٹیوں کو چھیڑتے۔۔۔ اور قتل کرنے کے بعد لاش کو آگ لگا دیتے کہ ان کے مذہب میں دفنانا جائز نہیں ہے۔

آج بھارت میں مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ آپ کو بھارت کی بالی ووڈ کے علاوہ اور کہیں مسلمان سر فہرست نظر نہیں آئیں گے۔لیکن ان اداکاروں کی وفاداری پھر بھی مشکوک ٹھہرتی ہے۔۔۔اکثر ان پر ملک کے شدت پسند ہندو اور ان کے لیڈر پاکستانی ایجنٹ اور غدار کے لقب سے نوازتے ہیں۔ ان جرموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جو دہراتے دہراتے ایک کتاب کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اس چیز سے بھی مفر نہیں کہ مسلمانوں نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔۔۔کارروائی کی اور ضرور کی۔۔۔لیکن اس میں ایسی سفاکیت نہیں تھی۔۔۔جس سفاکی کا مظاہرہ دوسری جانب سے ہوا۔۔۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں کے بھی ایک بڑے گروہ نے ہندوستان کے ٹکڑے کرنے کی شدید مخالفت کی تو اس وقت کے ایک معروف مصنف نے جو جواب دیا وہ پڑھنے کے لائق ہے۔

’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے۔ تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہوجائے گی تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہے۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہوتو میں اس کے ایک ذرہ خاک کو تمام ہندوستان سے قیمتی سمجھوں گا۔‘‘

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔