بس ایک پیریڈ

شہلا اعجاز  جمعـء 15 اگست 2014
shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

جب اٹل بہاری واجپائی ہندوستان کے وزیر اعظم تھے تو انھوں نے مینار پاکستان کی زیارت کی اس وقت پاکستان کو بنے 59 برس گزر چکے تھے۔ مینار پاکستان کا چکر لگانے کے بعد انھوں نے کتاب پر اپنے تاثرات لکھے یہ کتاب اسی مقام پر رکھی گئی تھی جہاں 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے کھڑے ہوکر علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد کا اعلان کیا تھا ۔

اس تاریخی مقام پر قرارداد لاہور منظور ہوئی تھی جس نے ببانگ دہل برصغیر کے کونے کونے میں ہلچل مچا دی تھی کہ مسلمان اب اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں اس پر ہندو پریس نے غضب ڈھا دیا تھا۔ واجپائی نے تحریر کیا تھا ’’اس تاریخی مینار پاکستان پر میں پاکستانی عوام ؐکے لیے امن اور دوستی کی خواہش لے کر آیا ہوں۔ مستحکم، مضبوط اور خوشحال پاکستان۔ جس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

پاکستان کی بنیاد جس نظریے کے تحت وجود میں آئی تھی اس عظیم بنیاد کا نام اسلام تھا اور ارض زمین پر ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسری ریاست وجود میں آئی تھی۔ اس نظریے کے تحت جن لوگوں نے اپنی جانیں ہندوستان سے پاکستان روانگی کے دوران گنوائیں وہ شہید کہلائے اور یہ عمل بغیر کسی جنگ کے بھی جہاد بن گیا۔

یہ جہاد ہی تو تھا ایک ایسی مسلم ریاست کے لیے کوششیں کرنا جس میں مسلمان اپنے مذہبی عقائد و نظریات، تہذیب، رسوم و رواج کے مطابق زندگی بسرکریں، دلچسپ بات یہ تھی کہ ان علاقوں کے مسلمان بھی اس جہاد میں شریک تھے جہاں مسلمان اقلیت تھے ان کی تعداد بہت کم تھی وہ جانتے تھے کہ علیحدہ مسلم ریاست کے وجود میں ان کے علاقے کی شمولیت ناممکن ہے اور مسلم ریاست کی حمایت انھیں مہنگی پڑسکتی ہے لیکن ان باہمت اور عظیم لوگوں نے اپنے ارادوں میں لغزش نہ آنے دی اور مسلم اتحاد کا ساتھ دیا۔

اس ملک کے بننے میں چند برس اور چند سو لوگوں کا خون شامل نہیں ہے بلکہ صدیوں سے لاوا پکتے پکتے جب 1857 کی جنگ آزادی کی صورت میں پھوٹا تو آشکار ہوگیا کہ اب اس ملک کو آزاد کرانا ہی ہے یہ تحریر تو قدرت کی جانب سے تھا کہ اس آزادی چمن میں ایک کلی مسلم ریاست پاکستان کی کھلنی ہی ہے لیکن آگ و خون کے سفر سے گزرنا تو نصیب میں تھا بس جو اس جہاد کا حصہ بنے وہ امر ہوگئے، ہم نہیں جانتے کہ کتنے احمد امجد اور غلام علی اور کتنی فریدہ، گل آرا اور شگفتہ قربان ہوئیں لیکن ہم آج بھی ان تمام شہدا کی قربانیوں کو سلام کرتے ہیں جو اس پیدائش کے عمل کا حصہ بنیں، پروردگار نے انسانی پیدائش سے لے کر ریاستی پیدائش تک کے عمل کو تکلیف دہ اور پھر خوشگوار بنایا ہے اور اسی تکلیف اور اذیت میں لاکھوں جانیں پیدائشی عمل کا حصہ بنیں۔

انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، انسانوں کا ایک سیلاب تھا جن کے چہروں پر دکھ، تکلیف، جدائی، بھوک، خوف اور نامناسب ماحول کی کہانیاں تھیں لیکن پھر بھی وہ مطمئن تھے پرسکون تھے کہ اس دھرتی کا آسمان ان کا اپنا ہے، لاہور (والٹن) میں مہاجروں کے لیے کیمپ لگائے گئے ۔ قائد اعظم دورے پر آئے تو لوگ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگانے لگے ان نعرے لگانے والوں میں شکستہ حال ایک خاتون بھی شامل تھی جس نے اپنی گود میں دونوں بازوؤں سے محروم معصوم شیرخوار بچہ لے رکھا تھا، یہ مناظر دیکھ کر مضبوط اعصاب کے مالک قائد اعظم بھی دہل گئے۔

ڈاکٹر ضیا الاسلام راوی ہیں کہ ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں انھوں نے کار میں اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے بھرائی آواز میں کہا “they are still shouting Quaid-e-Azam” (یہ اب بھی قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں) وہ خود حیران تھے کہ یہ کیسا عجب عمل ہے کہ لٹ گئے برباد ہوگئے اور پھر بھی یہ لوگ ان کی محبت میں زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے ہیں، یہ کیسا عجب عمل تھا جسے آزادی کی نعمت حاصل کرنا کہتے ہیں، یہ کیسی پرکیف کیفیت تھی جسے یقینا قائد اعظم نے نہیں بلکہ رب العزت نے طاری کی تھی۔

مسلمانوں کا اثاثہ یہی تو ہے فتح مکہ پر جس طرح مسلمان اپنے رب العزت کے حضور شکرانہ بجا لائے تھے جو جوش جو ولولہ ان میں ہوگا ہم صرف کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں وہ پہلی فتح جسے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر حاصل کی تھی لیکن 14 اگست 1947 کو برصغیر کے مسلمانوں نے اس لذت کو خود محسوس کیا تھا۔

ہم پاکستانی بھی عجیب ہیں خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں نوازتے ہیں سجاتے ہیں اور پھر شاید اکتا جاتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں اور چھوٹے ناسمجھ بچوں کی طرح اپنے ہی ہاتھوں چاہتے ہیں بگاڑدیں، توڑ دیں، مسخ کردیں، اور یہ اس قوم نے کیا۔ 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے بہت خوشی سے کہا تھا ’’ہم نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔‘‘

مینار پاکستان سے واپسی پر اٹل بہاری واجپائی کا کہنا تھا ’’آج صبح جب یہ سوال اٹھا کہ مجھے مینار پاکستان جانا چاہیے یا نہیں تو کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ میں وہاں گیا تو پاکستان پر میری مہر لگ جائے گی۔ میری وطن واپسی پر بھی یہ سوال کیے جائیں گے کہ مجھے مینار پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہاں جانے سے پاکستان پر میری مہر لگ گئی میں کہتا ہوں پاکستان میری مہر سے تو نہیں چلتا۔ اس کی اپنی مہر ہے اور وہ چل رہی ہے۔‘‘

دراصل واجپائی کے دل پر بھی پاکستان کے قیام کا داغ تازہ تھا کیونکہ ان کی نسل نے اسے بنتا دیکھا تھا وہ جانتے تھے کہ اسے اپنے وجود سے الگ کرتے کتنا درد کتنی تکلیف ہوئی ہوگی حالانکہ وہ مسلمانوں پر ہونیوالے ظلم و ستم اور زیادتی سے بھی ناواقف نہ تھے۔

میری حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں سے ایک گزارش ہے پاکستان بننے کے عمل میں جن تکلیفوں اور مصائب کا سامنا اس قوم نے کیا، قائد اعظم نے جس طرح مدبرانہ اور ذہانت سے تھوڑے عرصے اس ملک کو چلایا اس تمام پر ابھی تک بہت سی کتب لکھی جاچکی ہیں بہت سے اچھے اور محب وطن مصنفوں نے بہت کچھ تحریر کر رکھا ہے، براہ کرم اسمبلی کے اجلاس میں مسئلوں کی بحث و تکرار کے علاوہ اس کا ایک پیریڈ ضرور رکھیے جس میں ان عوامل پر بھی بحث کی جائے جس سے یہ ملک وجود میں آیا، ضرورت ہے کہ ماضی سے بھی رابطہ جڑا رہے کیونکہ ہمارے پاکستان کی سیاسی جماعت اس مضمون میں بہت کمزور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔