بھارتی منفی رویہ اور حقائق کی دنیا

ایڈیٹوریل  جمعـء 15 اگست 2014
پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے. فوٹو: رائٹرز/فائل

پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے. فوٹو: رائٹرز/فائل

بھارت کی جانب سے اعلیٰ سطح پر ایک بار پھر پاکستان کے خلاف مخاصمانہ بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جب کہ پاکستان ردعمل میں الزام تراشی کے بجائے دونوں ممالک کے درمیان تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر مسلسل زور دے رہا ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاکستان کے خلاف پراکسی وار سے متعلق بیان کو بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اگلے روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بھارت کے زیر کنٹرول علاقے میں مسلح شدت پسندوں اور دراندازوں کی حمایت کر کے پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کا ایک طبقہ اس خدشے کا اظہار کرتا چلا آ رہا ہے کہ بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی کی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف دشمنی اور نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس لیے ان سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستان سے بہتر اور دوستانہ تعلقات کو ترجیح دیں گے اور تمام متنازعہ مسائل جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں گے لہٰذا نریندر مودی سے دوستانہ تعلقات کی امید رکھنا پاکستان کی خوش فہمی ہوگی۔

چند روز قبل بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ نے بھی پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی بھی واقعے کا سخت اور فوری جواب دیا جائے گا۔ اب بھارتی وزیراعظم نے بھی پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔ بھارتی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں بھی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لیے محدود سوچ رکھتا ہے پاکستان میں ابھی تک دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت‘ وزارت دفاع اور فوج نے پاکستان کے خلاف مخالفانہ بیان بازی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا بھارتی حکومت ماضی میں بھی ایسی بیان بازی کرتی رہی ہے۔ پاکستان نے ردعمل میں مخالفانہ بیان بازی کے بجائے ہمیشہ امن اور دوستی کی بات کی  اور کوشش کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر اور دوستانہ تعلقات فروغ پائیں۔ اب بھی نریندر مودی کے افسوسناک بیان کے جواب میں پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت رویہ اپنایا ہے۔

ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان خود دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے پوری دنیا نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کو تسلیم کیا ہے‘ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اب تک دہشت گردی کے خلاف 55 ہزار جانوں کی قربانیاں بھی دے چکا ہے‘ الزام تراشیوں کے بجائے مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل خطے کے مفاد میں ہے‘ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں‘ مئی میں وزیراعظم نواز شریف کا دورہ بھارت بھی اسی جذبے کا عکاس تھا‘ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کی مذمت کی ہے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جو ملک ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہو وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں کیسے ملوث ہو سکتا ہے۔ پاکستان تو خود ایک عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت کو ایسے موقع پر مخاصمانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے مگر وہ پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کی آڑ لے کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔

جہاں تک ممبئی حملوں کا تعلق ہے تو ایسی خبریں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں جن کے مطابق ان حملوں کے پیچھے بھارتی اداروں کی اپنی ہی سازش کار فرما تھی۔ پاکستان کئی بار تردید کر چکا ہے کہ ممبئی حملوں میں ریاستی سطح پر اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور وہ ان حملوں کی تحقیقات کرانے کے لیے تیار ہے مگر بھارتی حکومت نے پاکستان کی اس پیش کش کو قبول کرنے کی بجائے مخالفانہ پروپیگنڈا کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارت کے ترجمان وزارت خارجہ سید اکبر الدین نے پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وہی پرانی رٹ دہرائی ہے کہ بھارت میں ہونے والے حملوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔

انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکریٹریز کی ملاقاتوں کے بارے میں کہا کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا یا نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ ملاقاتیں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ہدایات پر ہو رہی ہیں تاکہ یہ طریقہ کار تلاش کیا جا سکے کہ کس طرح دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھایا جائے۔ بھارتی حکام کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ اس خطے کی ترقی اور خوشحالی دوستانہ تعلقات قائم کرنے ہی میں ہے‘ دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے جب کہ جنگ سے مزید مسائل جنم لیں گے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ نریندر مودی بھی بالآخر واجپائی کی طرح پاکستان سے بہتر تعلقات  کے لیے قدم آگے بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے ملک کو ترقی دینے کے خواہاں ہیں اور جنگ کی صورت میں ساری ترقی خاک میں مل جائے گی۔

بھارت کو دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان تک محدود کرنے کے بجائے اسے عالمی تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک اس وقت دہشت گردی کا شکار ہیں جب کہ پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف باقاعدہ آپریشن شروع کر رکھا ہے اور اس میں بڑی تیزی سے کامیابی حاصل کر رہا ہے۔ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی پورے خطے کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اس لیے اس نے کبھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی اور ہمیشہ اس ناسور کو ختم کرنے کی کوششوں کی حمایت کی۔

بھارت کو الزامات کا کھیل ختم کر کے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہیے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ اور بہتر تعلقات ہی میں یہاں کے عوام کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔  بھارت کی نئی حکومت کو روایتی سوچ سے باہر نکلنا چاہیے‘ آج حقائق کی دنیا ماضی کی نسبت تبدیل ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی تربیت آر ایس ایس کے ذریعے ہوئی ہے وہ اس کے فلسفے کے پرچارک ہیں لیکن انھیں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو نئی سوچ اپنانی چاہیے جو خطے کے معروضی حالات سے مطابق رکھتی ہو۔

بھارتی قیادت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان بھارت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح ایک کمزور اور خلفشار زدہ بھارت بھی پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ بھارت وزیراعظم اور بھارتی آرمی چیف کو کوئی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تلخی بڑھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔