1977 کے حالات

نصرت جاوید  ہفتہ 16 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

یہ کالم مجھے چھپنے سے کئی گھنٹے پہلے لکھ کر دفتر پہنچانا ہوتا ہے۔ تازہ ترین خبروں کو اس میں زیر بحث لانا ممکن ہی نہیں۔ فرض کریں کوئی اور بندوبست ہو بھی جائے تو Breaking News کے لیے 24/7 جو موجود ہیں اور ان کے حوالے سے فوری تجزیہ کرنے والے ماہرین ایک ڈھونڈو ہزار مل جایا کرتے ہیں۔

کالم لکھنے میں البتہ سہولت یہ بھی ہے کہ فوراََ ہونے والے واقعات پر تبصرہ آرائی کے بجائے تھوڑی دیر کو سوچنے کی مہلت مل جاتی ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کہ ’’نقشہ‘‘ کیا بن رہا ہے اور جب مستقبل کی بات ہوتی ہے تو ماضی کی طرف بھی دیکھنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کار چلاتے ہوئے آپ کو نگاہ بیک مرر پر بھی رکھنا ہوتی ہے۔

میرے سمیت صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت یہ طے کیے بیٹھی تھی کہ عمران خان کو شاید کسی نہ کسی صورت بالآخر اسلام آباد آنے دیا جائے گا۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو البتہ یہ سہولت میسر نہ ہو گی۔ شاید یہی بات ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے لال حویلی والے مفکر انقلاب زمان پارک سے عمران خان کی ہمراہی میں تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کے ساتھ ٹرک پر کھڑے اسلام آباد کو روانہ ہوئے۔ ہوا مگر یوں کہ بالآخر قادری صاحب کو بھی اجازت مل ہی گئی۔

یہ اجازت دلوانے میں کلیدی کردار گورنر پنجاب نے ادا کیا۔ ان ہی چوہدری سرور صاحب کی بدولت قادری صاحب لاہور ایئر پورٹ سے ایک طیارے سے برآمد ہو کر اپنے گھر کو چلے گئے تھے۔ میرے اس کالم کو لکھتے وقت البتہ نہ تو ڈاکٹر صاحب اور نہ ہی عمران خان ابھی اسلام آباد پہنچ پائے ہیں۔ وہ اس شہر میں آنے کے بعد کیا کریں گے یہ خبر میرا یہ کالم چھپنے تک آپ کے بھر پور علم میں ہو گی، لہٰذا مجھے اب ماضی میں جھانک کر آپ سے کچھ باتیں کرنے دیں۔

ہماری حالیہ سیاسی تاریخ میں دو ’’لانگ مارچ‘‘ ہوئے ہیں اور دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ پہلا مارچ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کی پہلی حکومت کے خلاف کرنا تھا۔ ان کے اس مارچ پر روانہ ہونے سے پہلے مگر GHQ کا ایک ہیلی کاپٹر انھیں اس وقت کے آرمی چیف سے ملاقات کے لیے لے گیا۔ غلام اسحاق خان اور نواز شریف نے صدارت اور وزارتِ عظمیٰ سے استعفے دے دیے۔ امریکا سے کوئی معین قریشی پاکستان آ کر اس ملک کے قائم مقام وزیراعظم بن گئے۔ 90 دنوں میں نئے انتخابات ہوئے اور محترمہ ایک بار پھر ہماری وزیر اعظم منتخب ہو گئیں۔

دوسرا لانگ مارچ تو آپ سب کے ذہنوں میں بہت تازہ ہو گا۔ جس کے ذریعے نواز شریف افتخار چوہدری کو بحال کروانے لاہور سے نکلے مگر گوجرانوالہ پہنچنے کے بعد انھیں اس وقت کے آرمی چیف کا فون آ گیا۔ ان کے مطالبات مان لیے گئے اور ان مطالبات کو ماننے کے لیے صدر زرداری کو امریکی وزیر خارجہ نے ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے قائل بھی کیا۔ عموماََ لوگ مگر نواز شریف کے لانگ مارچ کا سارا کریڈٹ ’’کیانی فارمولے‘‘ کو دیتے ہیں۔

عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے جب سے اپنے آزادی اور انقلابی مارچ کا اعلان کیا ہے سیاسی مبصرین یہ بات طے کرنے میں اُلجھ گئے ہیں کہ اب کی بار کاکڑ فارمولا ہو گا یا کیانی نسخہ۔ سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میرا لیکن اس بات پر اصرار رہا اور اب بھی ہے کہ کاکڑ اور کیانی نسخے موجودہ صورت حال میں کام نہیں آئیں گے۔ معاملات بگڑ گئے تو ہم 1990 کی دہائی میں نہیں بلکہ 1977 میں چلے جائیں گے جب مارچ میں کرائے گئے انتخابات کے خلاف ایک بہت ہی خوفناک تحریک چلی اور پھر 5 جولائی 1977 ہو گیا۔

میں آپ کو یہ بات بھی یاد دلا دوں کہ آئینی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو اس سال انتخاب کروانے کی ضرورت نہ تھی۔ انھوں نے اپنی آئینی مدت سے ایک سال پہلے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ 1977میں بھٹو صاحب اپنی مقبولیت کی انتہاء پر تھے۔ اپوزیشن جماعتیں منتشر تھیں اور ولی خان اپنے پشتون ساتھیوں کے علاوہ صف اوّل کے کئی بلوچ رہنمائوں کے ساتھ حیدر آباد جیل میں بغاوت کا مقدمہ بھگت رہے تھے۔

بھٹو صاحب کو ان کی مقبولیت پر قائل کرنے والوں میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے رفیع رضا۔ موصوف ایرانی النسل تھے۔ شادی بھی شاید کسی امریکی خاتون سے کی تھی۔ عالمی سیاست اور اقتدار کے کھیل کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ ان کے پاس وزارتِ پیداوار بھی تھی جو ان دنوں بڑی تگڑی وزارت شمار کی جاتی تھی۔

رفیع رضا بھٹو صاحب کی حکومت میں اتنا اہم ہونے کے باوجود ہر گز ’’عوامی‘‘ نہ تھے۔ خاموش طبع آدمی تھے۔ گنتی کے چند لوگوں کے سامنے ہنسی مذاق کر لیتے۔ زیادہ تر وقت پڑھنے، لکھنے اور دفتری کاموں میں صرف کرتے۔ پیپلز پارٹی کے بہت سارے جیالے انھیں اپنی حکومت اور پارٹی میں ’’امریکا کا بندہ‘‘ گردانتے تھے۔ خدا جانے ان کے بارے میں یہ تاثر درست تھا یا نہیں۔ مگر غلام اسحاق خان نے جب محترمہ کی پہلی حکومت کو برطرف کیا تو غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم قائم مقام وزیر اعظم بنے۔ رفیع رضا پتہ نہیں کہاں سے ٹپک کر ان کے وزیر بن گئے۔

ان کے وزیر بننے کی کہانی میرے لیے ذاتی طور پر اہم یوں بھی ہے کہ 4 اگست 1990 کی دوپہر وہ میرے سسرال آئے تھے۔ وہاں انھوں نے میرے سسر کی چند شیروانیاں پہن کر یہ جاننا چاہا کہ وہ انھیں Fit آئیں گی یا نہیں۔ یہ سارا معاملہ بڑی رازداری میں ہوا تھا۔ مگر میری مرحومہ ساس ایک سادہ اور مجھ سے بہت پیار کرنے والی عورت تھیں۔ انھوں نے یہ کہانی سناتے ہوئے بڑی خوشی سے اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’بے نظیر رفیع کو وزیر بنا رہی ہے۔ اسی لیے وہ تمہارے ڈیڈی (یعنی میرے سسر) کی شیروانیاں چیک کرتا تھا‘‘۔

مجھے لیکن محترمہ اور رفیع رضا کے درمیان تلخی کی خوب خبر تھی۔ دل ہی دل میں مسکرا دیا اور فوراََ طے کر لیا کہ غلام اسحاق خان نے بطور صدر محترمہ کو فارغ کرنے کے بعد نئی کابینہ کے لیے لوگوں کو بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ صرف اس اطلاع کی بنیاد پر میں نے اپنے اخبار کے لیے یہ خبر بھی لکھ ڈالی کہ صدر اسحاق خان نے محترمہ کی حکومت کو برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بہرحال نئے انتخاب ہو گئے۔ ان کے نتیجے میں غلام مصطفیٰ جتوئی کے بجائے نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ ان کی رفیع رضا سے کوئی دوستی وغیرہ نہ تھی۔ اس لیے وہ صاحب پھر منظر سے غائب ہو گئے۔

بات لمبی ہو گئی۔ کہنا مجھے صرف اتنا ہے کہ رفیع رضا وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بھٹو صاحب کو یہ ’’خبر‘‘ بھی دی کہ قبل از وقت انتخابات کروا کر ان کی حکومت امریکا کے Trap میں آ گئی ہے اور اب ان کی حکومت سے کہیں زیادہ ان کی جان بھی خطرے میں ہے اور بالآخر رفیع رضا کا یہ تجزیہ درست ثابت ہوا۔

مجھے یقین ہے کہ میری اس طویل داستان کے بعد آپ کے ذہن میں خیال آ رہا ہو گا کہ راقم الحروف سٹھیا گیا ہے۔ ذکر 14 اگست 2014 کے بعد والے واقعات کا ہونا چاہیے تھا اور یہ 1977 میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ مگر بندھے ہاتھوں کے ساتھ آپ کے سامنے اعتراف کر رہا ہوں کہ میں جان بوجھ کر بھول بھلیاں لکھ رہا ہوں۔ میرا خیال ہے پنجاب کو شریف خاندان کے ’’قبضے سے آزاد‘‘ کروانے کے لیے ایک اور ’’رفیع رضا‘‘ لاہور میں نمودار ہو چکا ہے۔ اس ’’رفیع رضا‘‘ کا اصل نام کیا ہے؟ میں آپ کو بتانے کی جرأت نہیں کروں گا۔ سنا ہے ’’کڑے احتساب‘‘ کے دن آنے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ صحافی بھی اس کی زد میں آجائیں اور اپنے بچنے کی فکر تو آپ کو جھٹ پٹ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔