کرہ ارض کا بلیک ہول

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 16 اگست 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ کائنات کی وسعتوں میں ایک بلیک ہول موجود ہے۔ جس میں کرہ ارض سے بھی بڑے وہ سیارے گم ہو جاتے ہیں جو اپنی عمر پوری کر چکے ہوتے ہیں جو اپنی توانائیاں کھو چکے ہوتے ہیں اس بلیک ہول کو اجرام فلکی کا قبرستان بھی کہا جا سکتا ہے۔ کرہ  ارض پر بھی ایک بلیک ہول ہے جس میں قانون، انصاف، اصول، قواعد و ضوابط، اخلاق، ایمانداری، دین دھرم، ضمیر جیسے قابل احترام اصول زندگی گم ہو جاتے ہیں۔ اسے ہم انسانوں کے رہبر اصولوں کا قبرستان بھی کہہ سکتے ہیں۔

کائنات کی وسعتوں میں موجود بلیک ہول کے بارے میں فلکیاتی ماہرین اب تک یہ نہیں جان سکے کہ اجرام فلکی کے اس قبرستان یعنی بلیک ہول کو بند کیا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن کرہ  ارض کے ایماندار ماہرین معاشیات، دانشور، مفکر فلسفی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کرہ  ارض کے بلیک ہول کو بند کرنا ممکن ہے۔ کرہ  ارض کے اس بلیک ہول کا نام ہے ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ جو قانون،انصاف، اصول، قواعد و ضوابط، اخلاق، ایمانداری، دین دھرم، ضمیر جیسی نوادرات کو نگل جاتا ہے۔ اس کا جائزہ ہم ذرا تفصیل سے لیں گے۔

رمضان مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے اس مہینے میں مسلمان روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، زکوٰۃ اور فطرہ ادا کرتے ہیں اور نیک کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک بدعنوان سرکاری اہلکار ہے، سحری کے بعد دل ہی دل میں یہ طے کرتا ہے کہ جب وہ شام کو افطاری کے لیے گھر جانے لگے تو اس کی جیب میں رشوت کا کم سے کم کتنا مال ہونا چاہیے۔ اس کے ہاتھوں میں پھلوں کے کتنے شاپر ہونا چاہیں ۔ ایک سبزی فروش گھر سے نکلتے ہوئے ذہن میں ایک رقم کا تخمینہ رکھتا ہے کہ وہ گراں فروشی سے شام تک کتنا روپیہ بنا لے گا۔ یہی حال گوشت بیچنے والوں، دودھ دہی فروخت کرنے والوں، پکوڑے، کھجلہ پھینی بیچنے والوں کا ہے۔

چھوٹی چھوٹی علاقائی مارکیٹوں سے لے کر اہم تجارتی علاقوں کی مارکیٹوں سپر اسٹوروں کا ہے جہاں لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔ اس لوٹ مار کو روکنے کے لیے مقامی انتظامیہ لوٹ مار کرنے والوں پر لاکھوں روپے جرمانہ کرتی ہے، سیکڑوں تاجروں کو جیل بھیج دیتی ہے لیکن لوٹ مار اور منافع خوری کا کاروبار بند نہیں ہوتا، قانون اور انصاف تو موجود ہوتا ہے لیکن وہ کھڑا یا تو منہ دیکھتا رہتا ہے یا پھر منہ پھیر کر کھڑا ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کے منہ میں بھی رشوت کی ہڈی ڈال دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے ہر انسان کے اندر اس کی ایک اپنی عدالت ہوتی ہے جو غلط اور سچ حق و ناحق کے فیصلے کرتی ہے اس عدالت کا نام ضمیر ہے لیکن اس عدالت کا منہ بھی رشوت کے مال سے اس طرح  بھر دیا جاتا ہے کہ انسان کا ضمیر سو جاتا ہے۔

ان چھوٹے موٹے جرائم کا ذکر ہم نے اس لیے کیا کہ اس بلیک ہول کی وسعت اور پھیلائو کے ساتھ اس کی طاقت کا اندازہ ہو سکے۔ اب صرف پاکستان کے حوالے سے ذرا ان بڑے جرائم پر نظر ڈالی جائے جو بڑی سطح پر ہو رہے ہیں پاکستان کے بڑے قومی اداروں سمیت درجنوں قومی ادارے ایسے ہیں جہاں اربوں روپوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا میں گونج رہی ہیں لیکن احتساب کہیں نظر نہیں آتا۔

قانون کا منہ بھرنے کے لیے کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں کچھ گرفتاریوں کے آرڈر جاری ہوتے ہیں پھر قبل از گرفتاری ضمانتیں ہوتی ہیں اور بڑے بڑے قومی مجرم عدالتوں سے وکٹری کا نشان دکھاتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔ ہمارے سابق صدر زرداری پر سوئس بینکوں میں رشوت کے اربوں روپے رکھنے کے الزام ہیں برسوں مقدمہ چلتا رہا اعلیٰ عدلیہ کا زور لگاتی رہی لیکن جو کچھ وہ کر سکی وہ صرف اتنا تھا کہ سوئس بینک کو ایک خط روانہ کرایا گیا اور وہ خط بھی کرہ  ارض کے بلیک ہول میں گم ہو گیا۔

ہمارے حکمرانوں اور ان کے عزیزوں پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ہیں لیکن کبھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ یہ الزامات غلط ہیں یا صحیح ۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ایمانداری اور بے ایمانی گناہ اور بے گناہی کا فیصلہ کرنے والی طاقتیں کرہ  ارض کے بلیک ہول میں گم ہو جاتی ہیں۔ یہ صورت حال صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ کیا ترقی یافتہ کیا پسماندہ ہر ملک تک پھیلی ہوئی ہے۔ کوئی مقدس یا غیر مقدس ملک اور اس کے حکمران ایسے نہیں جن پر ایمانداری کا شک کیا جا سکے۔

جاپان کا حکمران طبقہ ہو، چین کا حکمران طبقہ ہو، روس کا حکمران طبقہ ہو، امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ملائیشیا، انڈونیشیا، لیبیا، مصر، تیونس کا حکمران طبقہ ہو دنیا کے سارے ملکوں کے حکمران طبقات کسی نہ کسی حوالے سے کم و بیش کے ساتھ کرپشن کی گندی کیچڑ سے آلودہ ہیں کیوں کہ ایمانداری، دیانت، امانت ضمیر قانون انصاف سمیت تمام اعلیٰ اصول، اعلیٰ قدروں کو کرہ  ارض کے بلیک ہول نے نگل لیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں کسی چیز کے دام یعنی قیمت کے بڑھنے اور کم ہونے کا دارو مدار طلب اور رسد پر ہوتا ہے کسی چیز کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے کسی چیز کی طلب میں کمی ہوتی ہے تو اس کی قیمت میں کمی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک بے معنی مفروضہ ہے۔ ضروریات زندگی کی بیشتر چیزیں مثلاً آٹا، چاول، دال، تیل، گھی کی ضرورت لگی بندھی ہوتی ہے کوئی ایک روٹی کھانے والا اچانک چار روٹیاں کھانے نہیں لگ جاتا۔ بے شمار اشیائے صرف کی طلب عموماً یکساں ہوتی ہے لیکن ان اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ آٹا 15 روپے سے بڑھتا ہوا پچاس روپے تک آ گیا ہے۔

حالانکہ آٹے کی طلب میں کوئی اضافہ دکھائی نہیں دیتا لیکن آٹا 15 روپے کلو سے 50روپے کلو تک پہنچ گیا یہی حال دوسری ضروریات زندگی کا ہے۔ یہ مسئلہ طلب اور رسد کا نہیں بلکہ منافع کی بڑھتی ہوئی طمع کا ہے جو ہر وقت بڑھتی تو رہتی ہے کم نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منافع، رشوت،بے ایمانی، ضمیر فروشی جیسی لعنتوں میں مسلسل اضافہ ہی کیوں ہوتا رہتا ہے۔ کمی کیوں نہیں آتی؟

اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ اس بلیک ہول نظام میں نیچے سے اوپر تک ہر جگہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی خواہش دیوانگی میں بدل جاتی ہے اور ساری دنیا اس فرق کے ساتھ اس دیوانگی میں مبتلا ہے کہ 90 فی صد سے زیادہ انسان کی دیوانگی محدود ہے ان کی دیوانگی کی سرحدیں عموماً بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل پر آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔ لیکن دو فی صد ایلیٹ کلاس کی دیوانگی کی کوئی حد نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی 80 فی صد دولت ان دو فی صد مقدس لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے 90 فی صد سے زیادہ انسان روٹی کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ اس نا انصافی کو صرف نظام کی تبدیلی سے ہی روکا جا سکتا ہے اور دنیا میں کوئی ایسا نظام ان لعنتوں کو روک نہیں سکتا جس میں منافع اور ارتکاز زر پر پابندی نہ ہو۔

جب ایسے نظام کی بات کی جاتی ہے جس میں منافع اور ارتکاز زر کی حدود متعین ہوں تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہا جاتا ہے اور ایسے نظام کا مطالبہ کرنے والوں پر کفر کے فتوے صادر کیے جاتے ہیں۔ جب تک کرہ ارض کے اس بلیک ہول کا منہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایمانداری، اخلاقیات، اصول، قانون، انصاف، ضمیر بھی اس بلیک ہول میں گم ہوتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔