حقیقی آزادی کے نعرے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

تحریک انصاف حقیقی آزادی کے لیے سونامی بن کر لاہوری تخت کا تختہ کرنے پر بضد ہے تو ڈاکٹر طاہر القادری بھی انقلاب کا نعرہ لگا کر میدان ریاست میں کود چکے ہیں، عمران اور قادری کی نیت اور ارادے خواہ کچھ بھی ہوں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آج 67 برس بعد بھی وطن عزیز آزاد ہے اور نہ ہی عوام۔ آزادی ہمیں موروثیت میں نہیں ملی تھی، قیامت کا سماں اور حشر کا نظارہ تھا، خون دریا عبور کرکے پیارا وطن پاکستان معرض وجود میں آیا جس کا نام اسلامی ملک ہونے کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی آج ہم کلی طور پر آزاد ہیں؟ کیا ملک میں جمہوریت کی بالادستی ہے؟ اگر ہاں! تو پھر یہ گھٹن کیسی؟ تشدد کیسا؟ ظلم و زیادتی کیوں؟ عدم انصاف کا واویلا کیوں؟ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیوں؟ مہنگائی اور گرانی کا جن آزاد کیوں؟ خودکشیوں کا تسلسل کیوں؟ خود سوزیوں کا دھواں کیوں؟ ٹیکسوں کی بھرمار کیوں؟ آخر کب تک؟ ہمیں حقیقی آزادی چاہیے۔

بازاروں، عبادتگاہوں، مذہبی مقامات اور دینی تقریبات میں بم دھماکوں اور دہشتگردی سے، فرقہ واریت و لسانیت کے زہر سے، اہلکاروں کی بے لگامی سے، ہمیں آزادی چاہیے امن و امان کی زبوں حالی سے، اغوا برائے تاوان کی کھلی چھٹی سے، تھانوں میں درندگی اور تشدد سے، اشیائے خورونوش میں ملاوٹ سے، ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر فراڈ سے، رشوت ستانی سے، ذخیرہ اندوزی سے، بنیادی ضروریات زندگی کے فقدان سے، پینے کے لیے آلودہ پانی سے، بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے، ہم آزادی چاہتے ہیں۔

کہنے کو تو ہمیں آزادی ملے 67 برس ہوچکے ہیں تاہم آج یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہمارے بزرگوں، آباؤ اجداد نے تاریخی قربانیاں دے کر یہ وطن اس لیے آزاد کرایا تھا کہ 21 ویں صدی کے سیاسی دھوکے باز اور کرپٹ حکمراں‘‘ اپنے عظیم رہنماؤں اور قائدین کی قربانیوں اور نظریات کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیں۔

آج تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی ارواح جس کرب اور اذیت سے گزر رہی ہیں اس کا اندازہ ہم اپنے ملکی حالات اور کرپٹ حکمرانوں اور نااہل سیاستدانوں کے طرزعمل اور طرز حکومت سے بخوبی لگا سکتے ہیں، آزادی صرف جھنڈا وجھنڈیاں لگانے اور رنگا رنگ تقریبات یوم آزادی پر سجانے کا نام نہیں بلکہ اس حقیقت اور سچے احساس کا نام ہے جس پر ہمارا دل اور ضمیر خود گواہی دے کہ ’’واقعی ہم آزاد، خوشحال، پرامن اور ترقی یافتہ و کرپشن سے پاک اور بڑے بڑے مسائل اور چیلنجز میں گرفتار نہیں ہیں‘‘ لیکن آج ایسا کچھ نہیں ہے اور تاحال حسرت و یاس کی سراپا تصویر ہیں لیکن ایسے کرپٹ حکمرانوں اور نااہل سیاستدانوں کے سامنے بین بجانے کا کیا فائدہ جنھوں نے عرصہ ہوا ضمیر نامی اعلیٰ انسانی خصلت کو ردی سے لی گئی گرامر کی کسی کتاب کا حصہ سمجھ کر، ذہن کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہے۔

جن کے لیے ملک، دھرتی، سرزمین، آزادی جیسی عظیم نعمتیں کوئی اوقات نہیں رکھتیں، جن کے بینک اکاؤنٹس اور جائیدادیں غیر ممالک ہیں اس نیت سے ابل رہے ہیں کہ جب وہ اقتدار سے اترینگے یا اتارے جائینگے تو بیرون ملک بھاگ کر اپنی باقی ماندہ زندگی بھی عیش و عشرت کے ساتھ گزارینگے۔ ان حکمرانوں اور نااہل سیاستدانوں کے لیے آزادی کے معنی کروڑوں عوام کے خون و پسینے سے پیدا ہونے والی قومی دولت کو لوٹنا اور خود کو پاک دامن، ایماندار اور حب الوطن قرار دینا اور معصوم عوام کو مسلسل بیوقوف بنانا ہے۔

ایسے سیاستدانوں کو کیا یاد دلائیں کہ یہ پاک سرزمین ان کی عیاشیوں کرپشن، غنڈہ گردیوں، حق تلفیوں، دہشتگردیوں اور موقع پرستیوں کے لیے معرض وجود میں نہیں آئی تھی یہ ملک صرف ان چند خاندانوں اور ان کے اتحادیوں کی جاگیر و ملکیت نہیں ہے، اس ملک پر ان ذلتوں کی ماری غریب اور بدقسمت عوام کا آپ سے کہیں زیادہ حق ہے جو گزشتہ 67 برس سے بیوقوف بناکر ظلم و زیادتی کرپشن، مہنگائی و بیروزگاری کی چکی میں مسلسل پس رہی ہے اور جس کے عظیم خوابوں کا مفاد پرستوں، موقع پرستوں اور منافقوں نے سرعام قتل عام کیا ہے۔ کب ہونگے ہم آزاد؟ آخر کب؟

آج سے 67 برس قبل یہ وطن عزیز اس عظیم مقصد کے تحت وجود میں آیا تھا کہ ’’اب راج کریگی خلق خدا‘‘ لیکن آج اپنے قیام کے 67 برس بعد بھی۔۔۔۔۔یہ پاک سرزمین اور روح قائد چیخ چیخ کر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ آخر کب راج کریگی خلق خدا؟ کیا یہ جشن آزادی ہمیں جناح اور اقبال کا پاکستان دلاسکے گی یا 67 برس سے جو تماشا دنیا دیکھ رہی ہے یہ تماشا یوں ہی جاری رہے گا اور قوم اسی طرح اپنے مقدر کو روتی رہے گی؟ کیا ابھی بھی ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا وقت نہیں آیا؟ لیکن تقدیر بدلے گا کون؟

یقیناً عوام صرف اور صرف عوام اگر دنیا کے دیگر ممالک میں برسوں سے جاری فرسودہ نظام اور نااہل حکمرانوں سے چھٹکارے کا انقلاب برپا ہوسکتا ہے تو ایسا ہمارے ملک میں کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ انقلاب یقینا عوام الناس ہی ایک قوم کی صورت اختیار کرکے لا سکتے ہیں، معجزہ رونما ہوگا نہ ہی فرشتوں کا نزول۔ حقیقی معنوں میں جمہوریت کا تقاضا اچھی سیاست ہے اور اچھی سیاست کا تقاضا عوام کی خوشحالی ہے اور ہمارے وطن میں یہ سب مفقود ہیں۔

اقبال نے کہا تھا ’’افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ لیکن یہ نادان عوام اپنی انقلابی اہمیت کی حقیقی حیثیت سے قطعی نابلد ہے، کاش کہ اسے علم ہوکہ جمہوری نظام حکومت میں طاقت کا اصل سرچشمہ حکمراں نہیں عوام ہوتی ہے، یہی عوام جو ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے برعکس ہماری اسلامی جمہوریہ میں حقوق اپنی حالت بدلنے کا ’’ہمارا شمار بھی تو ایسی ہی اقوام میں ہوتا ہے اس لیے ہم اپنے قیام سے آج تک ترقی پذیر ہیں جب کہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے کئی ممالک ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، فرق صاف ظاہر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔