بجلی کے پیداواری منصوبے

ایم آئی خلیل  ہفتہ 16 اگست 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

بجلی کی پیداوار میں کمی دور کرنے کے لیے اب تک زیادہ انحصار گیس، ڈیزل اور فرنس آئل پر کیا جا رہا تھا۔ جن دنوں بجلی کے یہ مہنگے پیداواری منصوبے لگائے جا رہے تھے ان دنوں بجلی تو سستی تھی لیکن بتدریج تھرمل منصوبوں کے ذریعے پیداوار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا، وقت کے ساتھ ساتھ طلب بڑھتی چلی گئی اور بجلی کی رسد میں کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ درمیانی فرق کو لوڈشیڈنگ کا نام دیکر قوم پر مسلط کردیا گیا اس کے ساتھ میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھتا چلا گیا اور بجلی بلوں کی مالیت بھی بڑھتی چلی گئی جس کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔

آئی ایم ایف اپنے مذاکرات کا ابتدائیہ اور اختتامیہ ان ہی الفاظ کے ساتھ کرتا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں۔ صارفین کے علاوہ صنعتی ادارے سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن کی پیداواری لاگت بڑھنے لگی اور عالمی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کے لیے مقابلہ کرنا کہیں مشکل اور کہیں ناممکن ہوکر رہ گیا۔ اس بات کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ خطے کے دیگر ملکوں کی برآمدات ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ ملائیشیا، چین، جنوبی کوریا، ترکی، بنگلہ دیش کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک کی حکومتوں نے سب سے پہلے اس امر کے لیے عملی اقدامات کیے کہ صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتوں کو انتہائی سستی بجلی مہیا کی جائے۔

جب وہاں کے سرمایہ کاروں، صنعتکاروں کو سستی بجلی میسر آگئی پھر وہاں کی برآمدات میں بھی کئی گنا اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ حالیہ دنوں میں بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے دوست ملک چین کے تعاون سے کچھ پراجیکٹ شروع کیے گئے ہیں۔ بجلی کے ان 14 پیداواری منصوبوں کی تکمیل سے جوکہ 2018 تک مکمل ہو جائینگے 10 ہزار 4 سو میگاواٹ بجلی حاصل ہوپائیگی ان میں سے 5 بڑے منصوبے ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک سے 1320 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔

مجموعی طور پر 6600 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کے ان منصوبوں میں سے ایک سینو ہائیڈرو ریورسز لمیٹڈ اینڈ ارقاب کیپٹل کے علاوہ دیگر 4 کول پراجیکٹ ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ ساہیوال کول پاور پلانٹ، مظفر گڑھ کول پاور پلانٹ، رحیم یار خان کول پاور پراجیکٹ اور ایس ایس آر تھرکول اینڈ سی پی آئی ایچ مائن ماؤتھ پاور پلانٹ ہیں۔دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کا 70 فیصد حصہ کوئلے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس طرح سستی بجلی حاصل کی جاتی ہے جوکہ تھرمل ذرایع سے حاصل کردہ مہنگی بجلی سے کہیں سستی ہوتی ہے۔

اس وقت بعض تھرمل یونٹس ایسے بھی ہیں جہاں سے 40 روپے فی یونٹ سے زائد بجلی کی لاگت آرہی ہے۔ حکومت نے بجلی کی کمی دور کرنے کے لیے جن غیر فعال پاور پلانٹس کو دوبارہ کھولا ہے وہاں ڈیزل کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے باعث لاگت 42 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ سے اضافی بجلی حاصل کرنے کے اخراجات فی یونٹ 40 روپے سے بھی زیادہ ہیں۔

ماہرین کا یہ خیال ہے کہ رائے ونڈ کے پاور پلانٹس جنھیں تقریباً 2 سال کے لیے بند کیا گیا ہے جن میں سے ایک جاپانی پاور 120 میگاواٹ کا منصوبہ تھا اور دوسرے سدرن الیکٹرک پلانٹ 110 میگاواٹ کا پیداواری منصوبہ ہے اگر ان کو بند رہنے دینے کے بجائے دوبارہ کھول لیا جاتا تو کھولنے کے معمولی اخراجات آتے لیکن 230 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی جس کی پیداواری لاگت 15 روپے فی یونٹ سے زائد نہ ہوتی۔ اب جب کہ گردشی قرضے بھی ایک دفعہ پھر 287 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔

حکومت سے واجبات کی وصولی کے لیے پاور سیکٹر نے حکومت کو نوٹس جاری کیے تھے لیکن حکومت کی سیاسی مصروفیات کے باعث جواب موصول نہ ہوا لہٰذا ان پاور کمپنیز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ واجبات کی وصولی کے لیے سرمایہ کار’’ ساورن گارنٹی انکیشمنٹ‘‘ کے لیے ایک نوٹس دے سکتے ہیں جس کی مدت 10 یوم ہوتی ہے اور 10 یوم گزرنے کے بعد حکومت کو ڈیفالٹ سمجھا جاتا ہے۔چین کے تعاون سے جو 14 منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں ان میں سے کئی کول پاور کے علاوہ کئی منصوبے ہائیڈرو پاور اور کئی ونڈو پاور سے متعلق ہیں۔

ہائیڈرو پاور اسٹیشن سے مجموعی طور پر 1590 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جب کہ ونڈانرجی کے منصوبوں سے مجموعی طور پر 250 میگاواٹ بجلی حاصل ہوپائے گی۔ سولر انرجی کے تحت ایک ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ بھی موجود ہے۔ حکومت کی ساری توجہ اس بات پر ہونا چاہیے کہ کس طرح سستی سے سستی ترین بجلی حاصل کی جاسکے اور یہ مسئلہ پن بجلی کی پیداوار سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ملک میں پن بجلی منصوبوں کے ذریعے 60 ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اصل رکاوٹ حکومتوں کی غیر فعال پالیسیاں اور ایسے افراد کی مداخلت جو غیر تکنیکی ہیں اور مالی مشکلات کے باعث منصوبے شروع نہیں ہو پاتے ہیں اگر شروع کردیے جائیں تو بار بار مالی مسائل کے باعث مکمل نہیں ہوپاتے ہیں اس وقت نیلم جہلم، بھات اور دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے جہاں سے مجموعی طور پر صرف 6700 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔

اگرچہ تقریباً 19 ہزار میگاواٹ پن بجلی کی پیداوار کے لیے جگہوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے لیکن کہیں پر ابھی تک زمین خریدی نہ جاسکی اور کہیں فزیبلٹی رپورٹ تیار نہ ہوسکی اور کہیں پر کسی بھی قسم کے کام کا آغاز ابھی تک نہ ہوسکا ہے۔ قدرت کی طرف سے پاکستان کو بجلی کی پیداوار کے حصول کے لیے ہر ذرایع وافر مقدار میں مہیا کیے گئے ہیں۔ صرف سورج کے ذریعے لاکھوں میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ونڈ پاور سیکٹر کی صلاحیت بھی ایک لاکھ میگاواٹ بتائی جاتی ہے۔

85 ارب ٹن کے کوئلے کے ذخائر سے بھی استفادہ حاصل کرکے لاکھوں میگاواٹ بجلی ہزاروں سال تک پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر پن بجلی کا ایک بڑا منصوبہ تربیلا ڈیم جوکہ 70 کی دہائی میں مکمل ہوچکا تھا اس کے بعد بڑا ڈیم بن چکا ہوتا ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہوتی جوکہ انتہائی سستی ترین ہوتی لہٰذا ایسی صورت میں آج 42 روپے فی یونٹ بجلی حاصل کرنے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ ہی گزشتہ سال کا 503 ارب کا گردشی قرضہ اور اس سال اب تک 287 ارب کا گردشی قرضہ، مجموعی طور پر موجودہ حکومت کے 790 ارب روپے بچتے تو ایسی صورت میں نہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی مہنگی کرنا پڑتی نہ ہی کارخانوں کے لیے بجلی مہنگی کرنے کی ضرورت پیش آتی جس کے باعث مصنوعات کی لاگت میں اضافہ بھی نہیں ہوتا۔

اگر لاگت کم ہو تو بین الاقوامی خریدار اس جانب متوجہ ہوجاتا ہے اور خریداری کے آرڈر بھی دیتا ہے لیکن جب لاگت خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت زیادہ آرہی ہو تو وہ مصنوعات مہنگی ہوکر خریداروں کے لیے اپنی کشش کھو بیٹھتی ہے۔ پاکستانی برآمد کنندگان یا صنعتکاروں کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ان کی مصنوعات بجلی کی قیمت میں اضافے کے باعث مہنگی ہیں اور خطے کے دیگر ملکوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں لہٰذا کئی سالوں کی کوشش کے باوجود برآمدی ہدف حاصل نہیں ہوتا جب کہ خطے کے دیگر ممالک کو اصل فائدہ بجلی کی قیمت میں کمی سے ہی پہنچتا ہے کیونکہ ان کی مصنوعات کی لاگت پاکستان کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتی ہے لہٰذا ان کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ مہنگی بجلی کے باوجود لوڈشیڈنگ میں اضافے نے بھی عوام کے مسائل میں شدید اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کو سستی بجلی کے حصول کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سستی بجلی پیدا کر کے عوام کو سستی فراہم کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔