غزہ،آزمائش کی سرزمین (پہلا حصہ)

عرفان علی  ہفتہ 16 اگست 2014

غزہ کی شام غریباں ختم نہیں ہوئی۔ بحر متوسط کے کنارے واقع 378 مربع کلومیٹر پر محیط غزہ کی پٹی کی زمینی سرحد، رفحہ کراسنگ پر مصر کے ساتھ ملتی ہے۔خشکی پر دیگر اطراف سے اسے ناجائزوغاصب صہیونی ریاست نے گھیر رکھا ہے۔ محمودعباس کی فلسطینی انتظامیہ کے علاقے مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان جو فلسطینی علاقہ واقع ہے وہ اب اسرائیل کے براہ راست قبضے میں ہے اور دنیا اسے اسرائیل کے نام سے جانتی ہے۔آج کل غزہ جس شام غریباں سے دوچار ہے وہ بھی ماضی میںپیش کیے گئے کھوکھلے بہانوں کی طرح بنیاد بنا کر اسرائیل نے اُن پر مسلط کی ہے۔

تین یہودی نوجوانوں کو اغوا کرکے بعد قتل کیا گیا۔اسرائیلی حکومت نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر غزہ پر بمباری شروع کردی۔ حالاںکہ ان تین لاشوں کے ملنے کے بعد ایک فلسطینی نوجوان ابو محمد خضیر کو بیت المقدس سے اغوا کرکے بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا۔ تین یہودی نوجوان کا تعلق گش ایٹ صہیون نامی علاقے سے تھا جو دراصل مغربی کنارے کے علاقے میں واقع ہے لیکن یہاں نسل پرستانہ بنیادوں پر غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی یہ بستیاں غیر قانونی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اس علاقے کا نظم و نسق تاحال صہیونی حکومت کے کنٹرول میں ہے جب کہ مغربی کنارے کے محض 39 فی صد علاقے پر محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کا کنٹرول ہے۔اکسٹھ فی صد علاقہ تاحال اسرائیلی کنٹرول میں ہے جب کہ فلسطینی نوجوان ابو محمد خضیر مشرقی یروشلم یعنی بیت المقدس سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ علاقہ فلسطینی انتظامیہ، عرب لیگ، او آئی سی اور حماس سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کی نظر میں آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ علاقہ مسئلہ فلسطین کے حل تک انٹرنیشنل کنٹرول میں ہوگا لیکن عملی طور پر یہ علاقہ بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔

یہ پس منظر یاد رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ غزہ کا اس پورے قضیے سے کوئی تعلق یا ربط نظر نہیں آتا۔ مقتولین کے تحفظ کی ذمّے داری بھی صہیونی حکومت پر عائد ہوتی تھی جس میں وہ مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ بیت المقدس میں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمّے داری بنیادی طور پر اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن یہ ادارہ بھی بیت المقدس پر صہیونی تسلط ختم کروانے میں ناکام ہوچکا ہے۔

یہ واقعات نہ تو غزہ میں رونما ہوئے اور نہ ہی غزہ سے تعلق رکھنے والے کسی گروہ نے اس کی ذمے دارے قبول کی۔ صہیونی پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ حماس کا ان نوجوانوں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں۔امریکی یہودیوں کی تنظیم کے سابق عہدیدار ہنری سیگمین نے بھی ایک مقالے میں اعتراف کیا کہ جنگ کا ذمے دار اسرائیل ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں اسرائیل کو غزہ یا حماس کیوں یاد آیا؟ ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا وجود ہی ایسی احمقانہ، غیر منطقی و غیر عادلانہ بنیادوں پر قایم کیا گیا ہے۔

1948 تک دنیا بھر کے نسل پرست یہودی دہشت گرد، فلسطین میں جمع کیے گئے اور فلسطینیوں کا قتل عام کرکے دیگر کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کردیا۔ پچھلے 66 برسوں کی تاریخ میں کوئی سال ایسا نہیں گذرا جب فلسطینیوں کو سُکھ کا سانس لینا نصیب ہوا ہو۔

تین یہودی نوجوانوں کے قتل کی ذمّے داری کا تعین کرنے سے پہلے ہی 8جولائی کو اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کو آپریشن دفاعی برتری کے عنوان کے تحت دنیا کو گمراہ کیا۔صہیونی دہشت گردی اورجارحیت کے دفاع میں ماضی کی طرح بی بی سی، سی این این سمیت مغربی ذرایع ابلاغ نے تبلیغاتی جنگ کا محاذ سنبھالا۔امریکا کے بدنام زمانہ نیوکنزرویٹو صہیونی کالم نگارچارلس کروتھیمر نے صہیونیوں کے دفاع میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں بڑے بڑے لیکن جھوٹے دعوے کر ڈالے۔

مورل کلیرٹی ان غزہ کے عنوان سے اُنہوں نے اسرائیل کے فضائل بیان کیے کہ اسرائیل نے کوئی ناکہ بندی نہیں کر رکھی تھی۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ سال 2007سے غزہ اسرائیلی محاصرے میں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ فلسطینی قیادت نے کوئی تعمیری کام نہیں کیا، کہاں ہیں سڑکیں، ریل، صنعت اور فلسطینی ریاست کا دیگر انفرا اسٹرکچر؟ اس سوال کا جواب اُنہیں معلوم ہو کہ اسرائیل نے ان کی تعمیر کردہ کسی بھی چیز کو باقی رہنے کب دیا ہے۔ان کی رہائشی عمارات پر بھی صہیونی میزائل برسارہے ہیں۔بلڈوزر اور ٹینک زمین پرحملہ آور ہیں۔

اُنہیں یاد دلادوں کہ دسمبر 2008 میں صہیونی جارحیت کے بارے میں اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی جارحیت اس معاہدہ جنگ بندی کی خلاف ورزی تھا جو مصرکے توسط سے جون 2008 میں طے پایا تھا۔ باقاعدہ اعلانیہ جنگ 27 دسمبر کو شروع ہوئی لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوجی ٹینک اور بلڈوزروں نے 4 اور 5 نومبر 2008 ہی کو غزہ کی جنوبی سرحد پار کرلی تھی اور اسی دن ایک فلسطینی شہید کردیا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ نے اس خلاف ورزی پر رد عمل ظاہر کیا تھا۔اقوام متحدہ کے نمایندہ رچرڈ فاک جو خود بین الاقوامی قانون کے پروفیسراور یہودی النسل ہیں، اُن کی اس رپورٹ کو امریکا نے مسترد کردیا تھا۔ امریکا نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے لیے یہ ایک ہی واقعہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

اس وقت امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے سیز فائر کروانے کے لیے دنیا میں راہ ہموار کی، اقوام متحدہ میں قرارداد کے لیے فعال کردار ادا کیا اور جب قرار داد پیش ہوئی تو امریکا نے ووٹنگ میں حصّہ ہی نہیں لیا۔اس وقت کا صہیونی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ صہیونیوں کے اجتماع میں یہ راز فاش کررہا تھا کہ اُس نے صدر بش سے کہا تھا کہ امریکا قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں ڈالے گا اور صہیونی وزیر اعظم کی فرمائش پر امریکی صدر سرنگوں ہوگئے۔

غزہ کی شام غریباں اپنی جگہ لیکن اُس کی مقاومت بھی ختم نہیں کی جاسکی۔پندرھویں صدی قبل مسیح میں بھی یہ علاقہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔اس علاقے کے باسی اپنی مقاومت کی وجہ سے مشہور رہے ہیں۔الیگزینڈر (اسکندر اعظم) نے ان کی مقاومت کی سزا کے طور پر اُنہیں غلام بنانے کی سزا سنائی تھی۔اسی شہر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پردادا حضرت ہاشم بن عبد مناف کی قبر مطہر ہے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور میں یہ علاقہ مسلمانوں کے کنٹرول میں آیا۔صلیبی جنگوں میں اس کا کنٹرول صلیبیوں اور مسلمانوں کے درمیان منتقل ہوتا رہا۔ 1517ء میں ترک سلطنت عثمانیہ نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا جوچار سو سال تک جاری رہا۔

1917ء میں جب ترک سلطنت عثمانیہ سے یہ علاقہ چھین لیا گیا تب اس خطے کے بااثر عرب خاندان ترکوں کے مخالف تھے۔جمال عبد الناصر کے مصر میں جنرل سیسی کو سعود وامریکی حمایت حاصل ہے اور غزہ و مصر کو ملانے والی ’رفحہ کراسنگ‘ بند ہے۔نہ غذا، نہ دوا، زخمی دارالشفاء سے بھی بے شفا شہید بن کر لوٹ رہے ہیں۔ وفا اسپتال بھی علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہے۔

غزہ کے اسپتالوں میں تو آپریشن کے انتظامات ناکافی ہیں لیکن صہیونی ریاست نے آپریشن دفاعی برتری شرو ع کیا ہے۔ فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے فوجی ونگ قسام بریگیڈ نے اس کے جواب میں آپریشن عصف ماکول شروع کردیا ہے۔ 29مارچ 2002ء کو صہیونی جارحیت کو آپریشن دفاعی شیلڈ کا نام دیا گیا تھا اور اس کے بعد صہیونی افواج نے پورے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا۔

یاسر عرفات زیر زمین بنکر میں چُھپ کر زندگی گذار رہے تھے اوربعد ازاں اسی کیفیت میں ہی اُنہیں پیرس منتقل کیا گیا تھا۔ 2004ء میں 18 تا 23 مئی آپریشن قوس و قزح اور 29 ستمبر تا 16اکتوبر آپریشن ایّام کفارہ کے عنوان کے تحت غزہ کو تائب کرنے کی کوشش کی گئی۔غزہ مقاومت کی سرزمین کہ جس نے تحریک انتفاضہ کو جنم دیا، غزہ پر اس جارحیت کے بعد بدنام زمانہ دہشت گرد صہیونی وزیر جنگ جو وزیراعظم بنا، اس شیرون نے غزہ سے یک طرفہ طور پر غیر مشروط انخلاء کردیا۔ غزہ میں تعمیر ساری یہودی بستیاںمنتقل کردی گئیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔