انٹر کے داخلے بدترین بدانتظامی کا شکار، بینکوں میں فارم نہیں پہنچائے گئے

صفدر رضوی  ہفتہ 16 اگست 2014
انٹر کے داخلہ فارم کے حصول کے لیے طالبات نارتھ ناظم آباد کے بینک کے باہر کھڑی ہیں، طلبا کی رہنمائی کیلیے کوئی تعلیمی افسر تعینات نہیں کیا گیا۔  فوٹو: ایکسپریس

انٹر کے داخلہ فارم کے حصول کے لیے طالبات نارتھ ناظم آباد کے بینک کے باہر کھڑی ہیں، طلبا کی رہنمائی کیلیے کوئی تعلیمی افسر تعینات نہیں کیا گیا۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: کراچی کی تاریخ میں انٹر سال اول کے داخلوں کا عمل صوبائی محکمہ تعلیم کی مجرمانہ غفلت کے سبب بدترین بدانتظامی کا شکار ہوگیا۔

صوبائی محکمہ تعلیم اپنے تمام تردعوئوں اور اعلانات کے باوجود جمعہ سے انٹر سال اول کے داخلہ فارم بینکوں کوفراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا، سیکریٹری تعلیم سمیت محکمہ تعلیم کے افسران داخلہ پالیسی کے اختیارات مرکزی داخلہ کمیٹی سے لے کرخود تعطیلات پر بیرون ملک روانہ ہوگئے، قائم مقام سیکریٹری تعلیم ممتاز شاہ اس صورتحال سے جمعہ کولاتعلق رہے، شہرکے طلبا میٹرک کے نتائج کے 21 روز کے بعد بھی فرسٹ ایئر کے داخلہ فارم حاصل نہیں کرسکے،ہزاروں طلبا مایوسی کی حالت میں واپس لوٹ گئے، اگست کے 15 دن گزرنے کے باوجود سرکاری کالجوں میں داخلوں کا سلسلہ شروع نہ ہوسکا۔

کالجوں میں رواں سال تعلیمی سیشن غیرمعمولی تاخیر کا شکار ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ،محکمہ تعلیم کی غفلت ولاپروائی کے سبب داخلہ فارم کے حصول میں ناکام 1 لاکھ کے قریب طلبا شدید پریشان ہوگئے، طلبا کا کہنا ہے کہ آخراس شہر کا کوئی والی ووارث ہے جو کراچی کے کالجوں میں داخلوں کے سلسلے میں مربوط حکمت عملی طے کرکے انھیں ذہنی اذیت وکرب سے نجات دلائے، تعلیم دشمن عناصرہی تعلیمی پالیسیاں بنارہے ہیں، طلبا کو پریشان اوربے عزت کرکے کیا سبق پڑھایا جا رہا ہے، عوامی نمائندے نوٹس لیں تاکہ ماضی کی طرح ایک بارپھر کراچی کے سرکاری کالجوں میں داخلوں کا باقاعدہ آغاز ہوسکے۔

واضح رہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم نے اپنی آن لائن داخلہ پالیسی کی ناکامی کے بعد جمعہ سے چھاپے گئے داخلہ فارم متعلقہ بینک کی شاخوں سے فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا، جب جمعہ کو میٹرک پاس کرنے والے یہ طلبا بینک کی شاخوں میں پہنچے تو داخلہ فارم موجود ہی نہیں تھے، طلبا کوکوئی واضح ہدایت دینے کے لیے وہاں محکمہ تعلیم کا کوئی افسر موجود نہیں تھا جس کے سبب کراچی کے ہزاروں طلبا پریشانی اور ذہنی اذیت کی اس حالت میں واپس لوٹ گئے۔

یادرہے کہ فرسٹ ایئر کی داخلہ پالیسی کا اختیارسیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہونے کالج پرنسپلز پرمشتمل کمیٹی سے لے کرایڈیشنل سیکریٹری تعلیم ریحان بلوچ کے حوالے کردیے تھے اورانھی کی تجویز پر یہ داخلہ پالیسی آن لائن کی گئی آن لائن پالیسی میں ناکامی کے بعد گزشتہ ہفتے محکمہ نے 50 ہزار داخلہ فارم چھاپ کر بینک کی شاخوں سے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا جس کیلیے جمعہ 15 اگست کی تاریخ بھی دی گئی تاہم اس سے قبل ایڈیشنل سیکریٹری ریحان بلوچ خود تعطیلات پر چلے گئے اور انھوں نے اپنا فون بند کردیا، معلوم ہواہے کہ وہ چند روز میں ریفارم سپورٹ یونٹ کے حکام کے ہمراہ ملائیشیا کے دورے پر جارہے ہیں۔

ادھر سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوداخلہ پالیسی سے لاتعلق ہوکرخود امریکاروانہ ہوگئے اورجب جمعہ کوانٹرسال اول کے داخلہ فارم بینک کی شاخوں تک نہیں پہنچ سکے تو محکمہ تعلیم کے متعلقہ حکام میں سے کوئی افسربھی سیکریٹریٹ میں موجود نہیں تھا جواس معاملے پرکوئی نئی حکمت عملی طے کر کے داخلہ فارم کی فروخت یقینی بنانے کے لیے اقدام کرتا سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو کی امریکا روانگی کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے گریڈ 20 کے ایک ایسے افسر ممتاز شاہ کو قائم مقام سیکریٹری تعلیم مقرر کیا گیا جن کے پاس پہلے سے دواہم چارجز ہیں۔

وہ سیکریٹری برائے جامعات اورتعلیمی بورڈز کے ساتھ ساتھ ایس ٹیوٹا کے سربراہ بھی ہیں وہ اب بیک وقت 3 محکموں کی سربراہی کی ذمے داری ادا کریں گے تاہم جمعہ کواپنے عہدے کاچارج لینے کے باوجود ممتاز شاہ سیکریٹریٹ نہیں آئے جس کے سبب انٹرکے داخلہ فارم کی عدم دستیابی کے حوالے سے انھیں کوئی بریفننگ بھی نہیں دی جاسکی،جمعہ کی شامل تک انٹرسال اول کے داخلہ فارم کی دستیابی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔