بُک شیلف

ارشاد محمود / عروبہ عدنان / عارف عزیز  اتوار 17 اگست 2014
عالمگیریت کے دور میں اردو زبان کو اس کے اصل حوالوں، خدوخال  اور پورے سیاق و سباق کے ساتھ بر قرار رکھنے کے لیے کتاب بہترین ذریعہ ہے۔ فوٹو: فائل

عالمگیریت کے دور میں اردو زبان کو اس کے اصل حوالوں، خدوخال اور پورے سیاق و سباق کے ساتھ بر قرار رکھنے کے لیے کتاب بہترین ذریعہ ہے۔ فوٹو: فائل

دُھند میں لپٹا سفر

مصنف: ڈاکٹر صغیر خان

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹیڈیز، میرپور، آزاد کشمیر

صفحات: 128،قیمت:200 روپے

پونچھ کے مردم خیز خطے کی کوکھ سے افسانہ نگار کرشن چندر سے لے کر چراغ حسن حسرت تک نام ور ادیبوں اور قلم کاروں نے جنم لیا، حالانکہ یہ سرزمین عساکر کو سازگار ہے نہ کہ ادیبوں اور شاعروں کو۔ پونچھیوں کے بارے میں بلامبالغہ کہا جاتاہے کہ؎ سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری۔ جنگوں میں پونچھی جوانوں کی شجاعت لوک کہانیوں ڈھل چکی ہے، لیکن اب ادب، صحافت، شاعری اور سفارت کاری کے آسمان پر بھی کئی ستارے جگمگاتے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر صغیرخان کی کتاب ’’دھند میں لپٹا سفر‘‘ دیکھ کر پونچھ کے ادیبوں اور شاعروں کی تصویریں حافظے کی اسکرین پر چمکتی اور غائب ہوجاتیں۔ یہ کتاب صغیر خان نے اپنے سفرِ جموں کے بارے میں لکھی ہے، جہاں وہ ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے گئے تھے۔ حقیقت میں یہ ان کی وطن یاترا کا ایک بہانہ تھا۔ ایک خواب کی تعبیر تھی جو وہ برسوں سے سینے میں چھپائے بیٹھے تھے لیکن بقول شاعر کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہ آتی۔

میں ان کا ہم سفر تھا لہٰذا کتاب کے مطالعے کے دوران بسااوقات ایسا لگتا کہ وہ میرے چشم دید واقعات بیان کررہے ہیں۔

امرت سر جہاں ہم نے پرتکلف ظہرانہ اڑایا۔ اے حمید کی سرزمین ہے۔ بٹالہ، پٹھان کوٹ اور گورداس پور سے گزرتے ہوئے، ڈاکٹر صغیر کی کتاب ماضی کے تلخ وشیرین واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ انہوں نے بڑی خوب صورتی سے تاریخ کے زخموں کو حال سے مربوط کرکے بیان کیا ہے۔ لکھن پور، جہاں سے ریاست جموں وکشمیر شروع ہوتی ہے، کا ذکر صغیر خان نے بڑی محبت سے کیا ہے۔ جموں جیسے کہ ڈاکٹر صغیر نے لکھا،’’عجیب شہر ہے جس کے ہیں ہزار رنگ۔ یہ ماضی کی شاندار روایات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ پرانے شہر کے عین قلب میں رگوناتھ مندر جموں کی اکثریتی شناخت کا اظہار کرتا ہے۔

اس کے نواح میں قائم جامع مسجد دن میں پانچ وقت رب العالمین کی کبریائی کی منادی کرتی ہے۔ کشمیر کو خانقاہوں کی سرزمین، لداخ کو بدھ بھکشوئوں کی دھرتی اور جموں کو مندروں کے شہر کے عنوان سے شناخت کیا جاتاہے۔ ایک سے ایک خوب صورت مندر۔ ایسا لگتا ہے کہ خون جگر میں انگلیاں ڈبو کر ہر اینٹ، ہر پتھر تراشاگیا ہو۔ یہ شہر 1947کی یاد بھی دلاتا ہے کہ ہزاروں بے گناہ عورتوں، بچوں اور مردوں کو شہید کردیا گیا۔ ۔

دھند میں لپٹا سفر کے مطالعے کے بعد یہ یقین راسخ ہوگیا کہ کشمیریوں کو باڑ لگا کر، مورچے بنا کر اور توپ وتفنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے دور تو رکھا جاسکتا ہے، لیکن انہیں روحانی اور رومانوی طور پر جدا نہیں کیا جاسکتا۔

چاند کی دہلیز پر (کہانیاں)

کہانی کار: ارشد علی ارشد

ناشر: علی میاں پبلی کیشنز

صفحات: 286، قیمت: 350 روپے

تحریر، قلم کار کی شخصیت کی عکاس ہوتی ہے۔ ارتکاز کے ساتھ پڑھا جائے، تو نہ صرف تحریر اپنی خوبیوں خامیوں کے ساتھ پرت در پرت کھلتی جاتی ہے، بلکہ ہم تحریر کی توسط سے مصنف کے داخلی و خارجی معاملات تک بھی رسائی پالیتے ہیں۔ عالم گیریت کے اِس دور میں اردو زبان کو اس کے اصل حوالوں، خدوخال  اور پورے سیاق و سباق کے ساتھ بر قرار رکھنے کے لیے کتاب بہترین ذریعہ ہے۔

ارشد علی ارشد کی کتاب بھی ایک ایسا ہی ذریعہ ہے۔ یہ ادب کی دنیا میں اچھا اضافہ ہے۔ وہ لکھنے کا فن بہ خوبی جانتے ہیں۔ بڑی خوب صورتی سے انسانی رویوں، احساسات، خیالات اور سماج کی اونچ نیچ کو قلم بند کرتے ہیں۔ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرتبصرہ تصنیف اپنے اندر وہ تمام خوبیاں سموئے ہے، جو ایک اچھی کتاب کا خاصہ ہوتی ہیں۔

اچھا کہانی کار کرداروں میں ڈھل جاتا ہے، اور تب اس کے کردار قاری کے دل میں اترتے ہیں۔ ایسے ہی کردار ہمیں ’’ چاند کی دہلیز پر‘‘  میں ملتے ہیں، جو پڑھنے والوں سے مکالمہ کرتے ہیں۔ ان کرداروں میں ہمیں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے، نفرت کی آگ بھی۔ ہمیں وہ سب کردار نظر آتے ہیں جنھیں سماج پیدا کرتا ہے۔ لفظوں کا انتخاب قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ یوں تو تمام کہانیاں اپنے اندر وسعت، لطافت اور مطالعیت لیے ہوئے ہیں، مگر حب الوطنی پر لکھی کہانیاں نمایاں ہیں۔ ’’ہم دیکھیں گے‘‘ اور ’’ہم ایک ہیں‘‘ جیسی تحریریں مصنف کے جذبہ حب الوطنی  کا  ثبوت ہیں۔ رواں طرز تحریر قاری کو باندھ لیتی ہے۔

’’عشق سمندر ہے ‘‘ کے بعد ارشد علی ارشد کی یہ دوسری تصنیف ہے۔ پہلی کتاب کے مانند اسے بھی پزیرائی ملی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے خود میں چھپے ہوئے قلم کار کو پوری طرح دریافت کر لیا ہے۔ حسن ترتیب کتاب کی خوبی ہے۔ پچیس کہانیوں کے مجموعے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ قاری  اپنے میلان الطبع کے مطابق کہانی کا انتخاب کرسکتا ہے۔

ارشد علی ارشد کا انداز تحریر، مکالمے اور منظرنگاری کسی بھی لمحے قاری پر بوجھل فضا قائم نہیں کرتی۔ کہانی ’’شام سے پہلے‘‘ کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں:’’وہ خود کو قائل کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی ہمیں کوئی ایک ایسا ضرور ملتا ہے، جس کا ہم برسوں لاشعوری طور پر کھوج لگاتے ہیں۔‘‘

الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارشد علی ارشد احساس کو مکمل گرفت کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کے آنے والے ناول ’’مکھنی‘‘ اور ’’دید بان‘‘  بھی پسند کیے جائیں گے۔

روز و شب اخبار کے

مصنف: محمد ارشد سلیم

صفحات: 188،قیمت:200 روپے

آپ بیتی یا زندگی کے مختلف ادوار اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات کو کتابی شکل دینے کا سلسلہ بہت پرانا ہے، لیکن ایسی کتابیں کم ہوتی ہیں، جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بننے کے ساتھ اپنے طرزتحریر کے باعث بھی ان کی توجہ حاصل کرلیں۔ محمد ارشد سلیم ادیب اور صحافی ہیں۔ ان کی یہ کتاب ان کے نظریات اور افکار کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ان کے وسیع مطالعے اور منفرد اسلوب کی عکاس ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کے دوران انہوں نے کہانیاں، ناول اور افسانے لکھے۔

اخبار کے لیے کالم، فیچرز تحریر کرنے کے ساتھ مختلف شخصیات کے انٹرویوز کیے۔ پشتو اُن کی مادری زبان ہے، لیکن اردو پر بھی ان کی خوب گرفت ہے۔ اختصار کے ساتھ اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس کے لیے الفاظ کا نہایت خوب چناؤ کرتے ہیں، محاورے اور اشعار کا موقع کی مناسبت سے استعمال ان کی تحریر کو مزید خوب صورت بناتا ہے۔ قلم اور کتاب سے اپنی دوستی کی ابتدا، ادب اور صحافت سے متعلق تحریروں کو انہوں نے مختلف عنوانات کے تحت اس کتاب میں سمیٹا ہے۔

کتاب کے پہلے باب ’’دیکھو یہ میرے خواب تھے‘‘ میں مصنف نے منفرد اسلوب میں اپنے پڑھنے اور لکھنے کے شوق، تعلیمی سفر اور صحافتی زندگی کے آغاز کو مختصراً مگر دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ دوسرے حصّے میں ان کے چند اخباری کالمز کا انتخاب شامل ہے۔ اس کے بعد فیچرز اور پھر مختلف شخصیات کے انٹرویوز کو کتاب کا حصّہ بنایا ہے۔ آخر میں انہوں نے ’’انگارے ٹو‘‘ کے عنوان سے افسانوں کو جگہ دی ہے۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت میں معیار کا خیال رکھا گیا ہے۔

انجمن طلبہ اسلام

ناشر: محمد حفیظ البرکات شاہ

مؤلف: معین الدین نوری

صفحات:764،قیمت:800 روپے

پاکستان بننے کے ساتھ ہی مختلف طلبا تنظیموں کا قیام بھی عمل میں آیا اور ان کے تحت مختلف سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ یہ تنظیمیں عالمی اور ملکی سیاسی، معاشی حالات کے زیرِاثر رہیں اور آنے والے برسوں میں انہوں نے پاکستان میں مختلف تحریکوں اور جدوجہد میں حصّہ لیا۔ پاکستان کی طلبا تنظیموں میں ’’انجمن طلبہ اسلام‘‘ کا نام نمایاں ہے۔

اس کی تشکیل کراچی میں 20 جنوری 1968 کو عمل میں لائی گئی اور جلد ہی یہ تنظیم پورے ملک میں پھیل گئی۔ یہ کتاب اسی حوالے سے ایک اہم کاوش ہے۔ اس میں انجمن طلبہ اسلام کے قیام کے پس منظر، فکری زاویوں، تنظیمی خدوخال، میڈیا و مطبوعات، انجمن اور طلبہ سیاست، ملکی سیاست اور انجمن، قومی و ملی تحریکوں میں کردار، انجمن کے اثرات، بانی اراکین اور انتظامیہ جیسے عنوانات کے تحت تفصیل شامل ہے۔

انجمن طلبہ اسلام نے بنگلادیش نامنظور تحریک، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک ناموس رسالت، تحریک آزادی کشمیر، جہاد افغانستان اور تعلیمی، سماجی اور ملی محاذ پر جو کردار ادا کیا، کتاب میں اس پر بھی بات کی گئی ہے۔ آخر میں ’’انجمن تصاویر کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے تصویری سرگرمیاں بھی شامل کی گئی ہیں۔ مؤلف نے جہاں انجمن طلبہ اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں، وہاں مختلف طلبہ تنظیموں کا ذکر بھی کیا ہے اور طلبا کے سیاست میں کردار کی تفصیلات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ کتاب معین الدین نوری کی تحقیق اور تالیف کا ثمر ہے۔ انہوں نے کتاب میں جہاں جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں مختلف معتبر حوالوں سے کام لیا ہے۔ اس کتاب کے لیے ممتاز طلبا راہ نمائوں سے ملاقات، بات چیت اور سیکڑوں کتب سے معلومات اور حقائق اکٹھے کرنے کے ساتھ مؤلف نے دیگر ذرایع سے بھی استفادہ کیا ہے۔ کتاب کے مسودے پر اس تنظیم کے بانی رکن میاں فاروق مصطفائی سے اصلاح لی گئی ہے۔

یہ کتاب پاکستان میں طلبا سرگرمیوں کے آغاز، ان کے نظریاتی اور سیاسی کردار اور جدوجہد کے حوالے سے ایک اہم کارنامہ ہے، جس نے اس ضمن میں معلومات کا حصول اور حقائق سے آگاہی آسان کردی ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات پر اہم اور معتبر شخصیات کی آراء اور تبصرے شامل ہیں۔ کتاب 764صفحات پر مشتمل ہے جن میں 16رنگین صفحات ہیں جب کہ بلیک اینڈ وہائٹ تصاویر الگ ہیں۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت بہت معیاری ہے۔ یہ کتاب ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

عالمی رنگِ ادب (رسالہ)

صفحات: 640

قیمت: 500 روپے

یہ شمارہ بھی اپنی روایت کے مطابق مختلف ادبی موضوعات سے سجا ہوا ہے۔ ابتدائی صفحات حمد و نعت کے لیے مخصوص ہیں، جس کے بعد اردو شاعری کی مقبول صنف غزل، قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم اردو کے متوالوں نے غزل کی مخصوص بندشوں میں اپنی فکر اور کمال کو سمویا ہے۔ اسی حصّے میں نظمیں بھی شامل ہیں۔ تبصرے کے انداز میں ادبی جائزے پڑھنا چاہیں تو سب سے پہلے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی محسن ملیح آبادی کی رباعیات پر رائے نظر سے گزرے گی۔

اس کے بعد قارئین افسانوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ صہبا اختر کی شاعری اور فن پر تحریر سے مضامین کے زمرے کا آغاز ہوتا ہے، جس میں کئی اہم موضوعات پر ادبی شعور اور تنقیدی بصیرت رکھنے والوں نے اپنے خیالات کو لفظوں کا پیراہن دیا ہے۔ ادبی تاریخ نویسی میں تحقیقی کا کردار کے عنوان سے سیدہ رضوانہ نقوی کی تحریر اہم ہے، جس میں انہوں نے متعلقہ کتب سے حوالے بھی دیے ہیں۔ دیگر مضامین شخصیات اور کتب پر تاثرات اور رائے پر مبنی ہیں۔ اس شمارے میں پروفیسر سحر انصاری اور عقیل احمد فضا اعظمی سے معروف صحافی اور ادیب حمیرا اطہر کی بات چیت بھی شامل ہے۔ حسبِ روایت آخری صفحات پر خطوط کو جگہ دی گئی ہے۔ عمدہ صفحات کے ساتھ کتابت میں معیار کا خیال رکھا گیا ہے۔

شاعر علی شاعر کی افسانہ نگاری (مقالہ)

مقالہ نگار: کنیز فاطمہ

ناشر: ظفر اکیڈمی، کراچی

صفحات:256،قیمت:300 روپے

یہ ایک ادبی تحقیق اور تجزیے پر مبنی کتاب ہے۔ کنیز فاطمہ اس کی مصنفہ ہیں اور یہ دراصل ان کا مقالہ ہے، جسے بعد میں کتابی شکل دی گئی۔ انہوں نے اپنا مقالہ یونی ورسٹی آف ایجوکیشن، لاہور کو پیش کیا تھا۔ اس تحقیق سے متعلق اس کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کا مقصد شاعر علی شاعر کی افسانہ نگاری کے بارے میں معلومات اور حقائق جمع کر کے انہیں سامنے لانا ہے تاکہ ان پر دوسرے تحقیق کرنے والوں کے لیے راہ ہم وار ہو سکے۔ مقالہ نگار کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کے مطابق یہ پانچ ابواب میں بٹا ہوا ہے، جس میں انہوں نے شاعر علی شاعر کے افسانوں کو موضوع بنایا ہے۔

بلوچ دیس سے بنگلادیش تک

مصنف: خالد میر

صفحات:80 ،قیمت:150 روپے

یہ ایک سفر نامہ ہے، جس کے مصنف خالدمیر کا تعلق بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد سے ہے۔ خالد میر صحافت اور لکھنے لکھانے کے ساتھ اپنے آبائی علاقے میں نوجوانوں میں تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کوششوں اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 2011 میں انہیں بنگلادیش میں منعقدہ ساؤتھ ایشیا سوشل فورم میں شریک ہونے کا موقع ملا اور یہ کتاب اسی سفر کی روداد ہے۔

خالد میر کا اندازِبیاں دل کش اور تحریر عمدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بنگلادیش میں اپنی مصروفیت کے دوران وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں اس سوشل فورم کے اغراض و مقاصد کو مختصراً بیان کرتے ہوئے اپنی نظر میں بنگلادیش کے سماج، سیاست اور معیشت کو جس طرح پایا اسے سادہ الفاظ میں قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔