’’ محمد ابراہیم جویو‘‘ ایک عہدسا ز شخصیت

پروفیسر فرزانہ خان  اتوار 17 اگست 2014
ابراہیم جویو کے اجداد مشرقی پنجاب کے سرائیکی علاقے سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

ابراہیم جویو کے اجداد مشرقی پنجاب کے سرائیکی علاقے سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

سندھو دریا کے جنوبی کنارے سے دو میل کے فاصلے پر، کیرتھر کے کوہستانی سلسلے میں واقع ضلع دادو، تعلقہ کوٹری کے گوٹھ ’’آباد‘‘ کے ایک کاشتکار گھرانے کے سربراہ، اخوند میاں محبوب خان جویوؔ کے بڑے فرزند میاں محمد خان جویو کی دوسری بیگم ’’قائماں‘‘ عرف ’’کامل بائی‘‘ کے بطن سے 13 اگست 1915 کو متولد ہونے والے ’’میاں محمد ابراہیم خان جویو‘‘ کے کائناتِ فکر ونظر کی کہکشاںِ علم ودانش کے دمکتے ستارے ہونے کی گواہی ہر ذی فہم قلبی غیرجانب داری سے دینے پر بے اختیار ہے۔

جویو صاحب نسلاً راجپوت اور عملاً سندھ دھرتی کے سپوت ہیں۔ ان کے اجداد مشرقی پنجاب کے سرائیکی علاقے سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ اس آباد کاری کی ایک خاص وجہ جویوؔصاحب کے بزرگوں کی حضرت آدم شاہ کلہوڑہ سے عقیدت ِ خاص تھی، یہی سبب ہے کہ سکھر میں حضرت کے مقبرے کے احاطے میں جویوصاحب کے چند بزرگ بھی مدفون ہیں۔ آپ کے خاندان کو لکیاری سیدوں کی درگاہ شاہ صدرالدین سے قریبی نسبت رہی ہے۔

محمد ابراہیم جویو جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کا احاطہ کرنا، خاص کر ایک اردو قلم کار کے لیے کتنا دشوار ہے اس کا بخوبی اندازہ سندھی کے اہلِ ادب ہی کرسکتے ہیں۔ جویو ؔصاحب کی ہر جہت اتنی ہمہ گیر ہے کہ اس پر کئی دقیق مقالات بھی کم ہوں گے۔ البتہ سید مظہر جمیل نے ’’محمد ابراہیم جویوؔ ایک صدی کی آواز‘‘ تالیف کرکے جہاں جویوصاحب سے نیازمندی کا حق ادا کیا ہے وہیں دبستان ِاردو کے خزانے میں جویوؔ صاحب کے افکار واذکار کو محفوظ کرکے ایک سچے لکھاری اور غیرجانب دار محقق ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔

جویوؔ صاحب آج سندھ کے عظمتِ دیرینہ کے نمایاں ترین نمائندہ دانش ور، مفکر، لکھاری، نقاد اور نظریہ ساز تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک آدرش وادی سیاسی مدبر اور سماجی مصلح کے منصب پر فائز رہبر وراہ نما کی حیثیت سے ملک کے قوم پرستوں میں عمومی طور پر اور سندھ میں خصوصی طور پر عزت وتکریم سے جانے اور مانے جاتے ہیں اور ’’سندھی دبستان ِ ادب‘‘ میں کوئی دوسرا پچھلی ایک صدی میں ان کے مقابل استقامت سے کھڑا نہ ہوسکا۔

یہ مقام انہیں ان تھک محنت، جہد ِمسلسل اور اپنے نظریات کی پاس داری کے بہ موجب حاصل ہوا ہے۔ اپنے سفرزیست میں انہوں نے ہمیشہ بلا رنگ ونسل ومذہب انسانیت کی توقیر کو اپنا نصب العین رکھا۔ جویوؔ صاحب کی عظمت، روشن خیالی، ترقی پسندی، سیکولرازم اور قومی تشخص کو فروغ دینے سے معمور ہے۔ ان کے افکاروخیالات اشتراکی نظریہ کے مقید اور مارکس ازم کی عملی تصویر ہیں۔ ان کی قوم پرستی کسی مقام پر بھی مارکسی بین الاقوامی محبت سے متصادم نظر نہیں آتی۔ جویوؔ صاحب اپنی یک صدی حیات میں سندھ کی کئی نسلوں کی تربیت اور ذہنی آبیاری کرنے کا تفخر رکھتے ہیں۔ مخدوم محی الدین کا یہ شعر:

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلوتو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

کے مصداق ان کی زندگی کی حقیقی تصویر ہے۔ سندھ کے رحجان ساز اہل دانش ان کے حلقۂ محبت میں شامل تھے ، جن میں خاص کر نظریاتی جہت کے حوالے سے سائیں جی ایم سید، کامریڈ سوبھوگیان چندانی اور پچاس کی دہائی کے اوائل میں شیخ ایاز ؔ اساسی اعتبار سے اور جویو ؔصاحب کے نظریات کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ میں شاید جویوؔ صاحب کی فکر انگیز ادبی شخصیت کی جانکاری سے محروم رہ جاتی، اگر میں اپنے تحقیقی کا م (پی ایچ ڈی) ’’شیخ ایازؔ کی اردو شاعری، سندھی سے تراجم کے تناظر میں‘‘ اپنے ممدوح کے نظریاتی، فکری اور تخلیقی محرکات کی پرکھ کے دوران، شیخ ایازؔ کی خودنوشت، ساہیوال جیل کی ڈائری اور اس کے خطوط میں بار بار ایسے کلمات نہ پڑھے ہوتے جن میں ایازؔ ؔخود اعتراف کررہا ہے،’’مجھے سندھی ادب کا سرخیل بنانے میں ابراہیم جویو ؔکا ہاتھ ہے۔‘‘

ایاز ؔکا یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنی شہرت کے نصف النہار پر جگمگارہا تھا، کسی معاصر اور نقاد کے لیے فراخ دلی کی جہاں زندہ مثال ہے وہیں ابراہیم جویوؔصاحب کی علمی وتنقیدی بصیرت کا کھلا اعتراف بھی ہے۔ جویوؔصا حب آدرش وادی عظیم شخصیت ہیں۔ انسان دوستی، خردافروزی، روشن خیالی اور مساویانہ وسائل کا مطالبہ ان کے جہانِ فکر ودانش کے کلیدی فلسفے اور سرچشمۂ بالیدگی قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ادب میںان کا مجاہدہ سماجی ناانصافیوں کے خلاف ہے، ان کے نظریاتی اور روحانی تانے بانے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؔ کے شعری اور ثقافتی ورثے سے ملتے ہیں۔

شاہ صاحب کا پیغامِ آفاقیت، انسان دوستی، مذہبی رواداری، تصوف اور سماجی ومعاشرتی مساوات کے عناصر کی عمل داری کی چھاپ، جویوؔ صاحبؔ کی تخلیقات اور نقد ونظر کی نگارشات میں بھر پور آہنگ کے ساتھ موجود ہے۔ ’’شاہ ؔ، سچلؔ، سامیؔ۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ جویوؔصاحب کے عمیق مطالعے اور عظیم تخلیقی وتحقیقی صلاحیتوں کا مظہر ہونے کے ساتھ ہی ان کے عمومی نظریات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم دستاویز ہے۔

اس میں انہوں نے بڑی عمدگی کے ساتھ سماج کے لیے عمرانی اصول وضوابط کو اشتراکی اور مارکس ازم کے تناظر میں تصوف کے آہنگ میں پیش کیا ہے، جب کہ روحانی وابستگی شاہ لطیفؔ کے شعری فلسفے اور ثقافتی نظریے سے غیرمشروط پیوستہ ہے۔ ’’شاہؔ، سچلؔ، سامیؔ۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ ازخود ایک معرکے کی تخلیق ہے۔ اس میں جہاں انہوں نے اپنے تخلیقی جوہر دکھائے ہیں، وہیں فکرِ لطیف ؔ کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کرتے ہوئے عالم گیر نظریۂ اشتراکیت کا حصہ بنادیا ہے۔ انہوں نے شاہ لطیفؔ سے نظریاتی اکتساب کواپنے مشترکہ فکری فلسفے کے پھیلائو میں بڑی مستعدی سے برتا ہے۔

جویوؔصاحب کے افکار حب الوطنی، سندھی تہذیب وتمدن، عوامی دکھ درد، ناآسودگی، استحصالی نظام کا خاتمہ اور ترقی پسندی، خوش حالی، امن وآشتی، صنفی ومذہبی آزادی اور فلاحی سندھ کی تعمیر سے عبارت ہیں۔ برِصغیر میں ترقی پسند تحریک کے زیراثر انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل 1936 میں لکھنوء کے منعقدہ اجلاس میں پڑی۔ کچھ ہی عرصے میں سندھ کے روشن خیال دانش ور، جن میں نمایاں طور پر محمد ابراہیم جویوؔ شامل تھے، اس تحریک کے نظریاتی سفر میں شریک ہوگئے۔ سندھ میں مزاحمتی ادب کی تحریک بھی ترقی پسند تحریک کے زیرسایہ شروع ہوئی، اگر یہ کہا جائے کہ سندھ میں ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ کا قیام انجمن ِ ترقی پسند مصنفین کے متبادل کے طور پر عمل میں آیا۔

جویوؔ صاحب کو کم سنی سے مطالعے کا شوق تھا اور سنِِ شعور میں داخل ہو نے تک انہوں نے عمرانیات، ادب، سیاسیات، مذہب، تا ریخ وفلسفہ اور علوم فنون کی کلاسیکل کتب کو اپنے ذہن وقلب میں منتقل کرلیا تھا۔ شوق ِمطالعہ کا اندازہ اس با ت سے لگائیے کہ جب کراچی سے بمبئی بحر ی سفر بہ غرض بی ٹی (ٹیچرز ٹریننگ) کے لیے کیا تو اس دوران بھی جہا ز کے کتب خا نے سے اپنے لیے کتا ب کا اجراء کرالیا۔

جویوؔصاحب ابتدائی عمر ہی سے طبقاتی تقسیم کے خلاف فکری رجحان رکھتے تھے۔ بمبئی پہنچے کے بعد انہیں بالشویک انقلابی تحریک کے فعال راہ نما اور ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کے بانی رکن ایم این رائے کے مضامین ’’ٹائمز آ ف انڈیا‘‘ میں پڑھنے کو ملے، جس سے ان کے اندر کا انقلابی جا گ اٹھا اور مارکسٹ تحریکوں کے منشور نے ان کے مستقبل کی راہ کا تعین کردیا۔ بمبئی سے واپسی پر جویوؔ صاحب کے خیالات اور تصورات میں تنوع پیدا ہوچکا تھا۔

اسی دوران انہوں نے سندھ کی سیا سی بساط کا گہرا مشاہدہ کیا تو انہیں گروہی مفادات کی سیا ست کے تنا ظر میں سند ھ کا مستقبل تاریک دکھائی دیا اور ان کے ذہنِ رسا نے روشن سندھ کا خواب دیکھا، ایک ایسا فلاحی سندھ جس میں حکم رانی کا مقصد تھا عوام کی فلاح۔ جویوؔ صاحب نے اپنے نظریات کو بڑے بے با ک، بے خوف اور استدلال کے سا تھ جون 1947 میں اپنی معرکۃالآرا ء کتاب “Save the Sindh, Save the Continent from Feudal Lords, Capitalists and their communalisms”میں پیش کیے گئے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی فکر کتنی پختہ ہے۔

ملاحظہ فرمائیے،’’ہندوستان کا معاشرہ مکمل طور پر جاگیرداروں، زمیں داروں، ساہوکاروں اور ان کے گماشتوں کے ظالمانہ شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے اور پورے ہندوستان کا معاشرہ بھیانک طبقاتی تضادات کا شکار ہے، جس میں پچانوے فی صد عوام بھوک، افلاس، غربت، ناداری، ناآسودگی اور کسمپرسی کی چکی میں صدیوں سے پس رہے ہیں، جب کہ بمشکل مٹھی بھر غاصب طبقے ہندوستان کے معاشی اور پیداواری وسائل پر قابض ہیں اور صدیوں سے قائم اس استحصالی نظام کو ہر حکم راں نے تقویت دی ہے۔‘‘

جویوؔ صاحب کی کتاب نے سندھ کی سیاسی فضاء میں طوفان برپا کردیا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی نڈر قلم کار نے سندھ کے مقتدر طبقات کو للکارا تھا۔ جویوؔصاحب کی پیش کردہ سچائیوں اور کاٹ دار دلائل کی حقانیت کا براہ راست جواب دینے کی کسی کو مجال نہ ہوئی، جھنجھلاہٹ اور خوف کے مارے حکم رانوں نے جویوؔ صاحب کی کتاب کو بحق سرکار ضبط کرلیا۔ جویوؔ صاحب سندھ کے پس منظر میں اپنا سیاسی گرو، جی ایم سید کو تسلیم کر تے ہیں اور ان کے نظریات کو دوام دینے کے لیے انہوں نے ہر سطح پر بھر پور کر دار ادا کیا ہے۔

جویوؔ صاحب نے سندھی ادبی بورڈ کے سہ ماہی رسا لہ ’’مہران‘‘ حیدرآباد کے مدیر کی حیثیت سے سندھی ادب و صحافت میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگرچہ اس دو ران ان پر مخصوص فکر کے پرچار کا الزام بھی عاید کیا گیا مگر ان کا سفر جاری رہا۔

جویوؔصاحب ایک صاحب ِ اسلوب نثرنگار اور مترجم بھی ہیں، ان کے سرمایۂ نقدونظر میں منطق، فلسفہ، تاریخ، شاعری اور انقلابی ادب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے تراجم کے ذریعے سندھی ادب کو جدید فکرو نظر سے مالامال کیا ہے ان کے موضوعات کے تنوع اور فکری جہد کا اندازہ ان عنوانات سے لگایا جاسکتا ہے۔

اسلام کا تاریخی کارنامہ، بچوں کی تعلیم، فکر ی آزادی، گلیلیوکی زندگی، بچوں کا مسیح، مظلوموں کی تعلیم وتدریس، سماجی ابھیاس، شاعری کے سماجی تقاضے، جدید دور میں بین الاقوامی تعاون کا مسئلہ، باغی، غریبوں کا نجات دہندہ، بھٹو کی زندگی اور عہد اور پاکستان: خواب اور حقیقت۔ منظومات میں عنوانات کا پھیلائو دیکھیے، اُو سندھ، محنت کش کے غم محنت کش کے یا ر، آپ اپنی پرستش کرنے والے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جی ایم سید، عبداﷲ دائودپوتہ، پیر حسام الدین راشدی اور دیگر اہم علمی وادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے ہیں۔

جویوؔ صاحب بحیثیت نقاد اپنے ’’مہاگوں‘‘ یعنی پیش لفظ اور مقدمہ نگاری میں اُبھر کر سامنے آتے ہیں، جن میں مصنف کی حوصلہ افزائی، فنی مستقبل کی پیش گوئی کے ساتھ غیرجانب دارانہ اصلاحی اظہاریہ ہوتا ہے۔ ان ’’مہاگوں‘‘ میں بین السطور ان کا نظریاتی پرچار واضح طور پر جھلکتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خیال ولفظ کا رشتہ ان کے قلم سے قرطاس پر منتقل ہوکر نظریاتی ادب کا لطیف حصہ بنتے ہیں۔

ایوبی آمریت ہو یاجنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کا آمرانہ دورِ جویوصاؔحب کی باغی اور سرکش صدا پورے سندھ کی آواز بن کر گونجتی ہے۔ جویوؔصاحب بدی کی قوتوں سے کبھی بھی مرعوب ومغلوب نہیں ہوئے۔ عَلم انسانیت کو بلند کرنے کی پاداش میں شرپسند قوتیں انہیں روندتی رہیں، پابندسلاسل بھی کیا جاتا رہا، مگر جنون ِ عشق بڑھتا ہی رہا۔ انگلیاں فگار ہی سہی، دل پر جو گزری وہ ر قم کرتے رہے۔

یہاں یہ بات بھی ضبط تحریر میں لانا بے محل نہ ہوگا کہ انہوں نے بین الاقوامی ادب کے شہ پاروں کو جس چابک دستی اور زبان وبیان کی لطافت کے ساتھ سندھی ادب کا حصہ بنایا ہے، اس سے اذہان سازی میں جو انقلاب پیدا ہوا وہ ترقی پسند تحریک، روشن خیالی اور انسان دوستی کی ایسی راہوں کی کشادگی کا سبب ہوا کہ جس پر آج سندھ دھرتی کا ہر سپوت فخریہ کہتا ہے کہ میں جویو کا مقلد ہوں۔

جویوؔ صاحب کے بارے میں پورے اطمینانِ قلب سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ سماجی انقلاب کے لیے ادب کو کارگر جانتے اور علم وادب کے استحکام ہی کو معاشرتی انقلاب اور اس کی پائے داری کی ضمانت گردانتے ہیں۔

خوش نصیب ہیں جویوؔ صاحب جو نروس ’’نائنٹیز‘‘ سے نکل کر عمرِعزیز کی ’’سینچری‘‘ مکمل کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔