غیر متوقع ردعمل کب سامنے آئے گا؟

غلام محی الدین  منگل 25 ستمبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

نبی رحمتﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی فلم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید کرب اور اذیت سے دوچار کیا ہے۔

اس گستاخی پر مسلمانوں کے اندر شدید ردعمل کا پیدا ہونا اور اس ردعمل کے اظہار کی خواہش ایک فطری بات ہے۔

بدطینت لوگوں کے ایک گروہ کی اس حرکت پر ’جنھیں ممکنا طور پر مغرب کے بعض بااختیار اور بااثر حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہوگی، جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ مغرب اور مسلم دنیا دونوں کے لیے غیر متوقع نہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کی بے ہودہ حرکتوں پر اسی طرح کا غیر موثر اور خود اپنے لیے نقصان دہ ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔

فتح کرلینے یا غالب آجانے کے بعد عموماً اقوام ایک خاص نفسیاتی کیفیت کے زیر اثر آجاتی ہیں۔ عموماً غالب اقوام یہی توقع اور تقاضا کرتی ہیں کہ ان کے علمی و فکری اثاثے اور طرز فکر کو فائق سمجھا جائے۔

ان کے نزدیک مغلوب قوموں کے احساسات اور جذباتی وابستگیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ ان کے اس رویئے کو یہ دلیل سہارہ فراہم کرتی ہے کہ دنیا میں انھیں جو برتری حاصل ہوئی ہے وہ ان کے اسی علمی اور فکری اثاثے کی مرہون منت ہے۔

لہذا اُن کا طرز فکر اور معاشرتی معیارات پوری انسانیت کے لیے قابلِ قبول ہونے چاہیں۔ مغرب کا یہی تقاضہ مغربی دنیا اور مسلمانوں کے مابین کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک کی انٹیلی جنشیا کی اکثریت اور حکومتوں کا رویہ انتہائی غیر منطقی اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔

مثلاً اُن کے ہاں بے لباسی کو تو قانونی اور معاشرتی تحفظ حاصل ہے لیکن حجاب کو وہ اس انداز سے دیکھتے ہیں جیسے حجاب اُوڑھنے والی خاتون اُن کی معاشرتی اقدار پر طنز کر رہی ہے۔

دنیا میں انتہائی قلیل تعداد میں آباد یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے ہولوکاسٹ پر یہودی نقطہء نظر کو قانونی طور پر صحیفہء آسمانی سے بھی بڑا درجہ دے دیا گیا کہ اس کے خلاف زبان کھولنے والا سیدھا جیل جاتا ہے۔

ان شرمناک تضادات نے مغرب کی نام نہاد اُصول پرستی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ یہ کچھ اسی طرح کا رویہ ہے کہ آریائوں نے جب برصغیر کا رخ کیا تو یہاں پر آباد پُرامن قبائل میں مادر سری نظام ( یعنی عورت کو خاندانی و قبائلی امور میں برتری حاصل ہوتی ہے) دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔

ان کی معاشرت میں مرد کی حکمرانی تھی اور مقامی کاشتکار لوگوں کے برعکس آریائی شکاری اور جنگجو تھے، انھوں نے اپنی فکری اور معاشرتی برتری کا اظہار یوں کیا کہ عورتوں کو مویشیوں کی طرح ناک میں نکیل ڈال کر باڑوںمیں بند کر دیا۔ برصغیر کے طول و عرض میں جو نتھلی ایک زیور کے طور پر استعمال ہوتی ہے، اسی دور کی یادگار ہے۔

آج کے زمانے میں کسی قوم پر غالب آجانے اور اسے زیر کر لینے کا راستہ صرف میدان جنگ تک محدود نہیں بلکہ اب لڑائی کے کئی میدان کھلے ہیں جہاں مسلسل جنگ جاری رہتی ہے اور ہم مسلمان ایک طویل عرصے سے مسلسل پسپائی، ہزیمت اور شکست سے دوچار ہیں۔

فاتح مغرب کے لیے ہماری معاشرت، ہمارے فکری اثاثے، ہماری دانش، ہماری جذباتی وابستگیاں اور احساسات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ صدیوں سے ان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا معاملہ ایسا ہے کہ وہ غالب اور ہم مغلوب ہیں، ان کا ہاتھ ’دینے والا‘ ہے اور ہمارا ہاتھ ’ لینے والا ‘۔ ہم میں سے جو غریب ہیں، امدادکے طلبگار ہیں جنھیں اللہ تعالٰی نے تیل کی دولت سے مالامال کیا وہ ان سے سامان تعیشات کے گاہک ہیں۔

ہمارا ہاتھ دونوں صورتوںمیں اُن کے آگے دراز ہے، پھیلا ہوا ہے۔ امداد لینے کے لیے یا پھر خریدار کے طور پر۔ مجھے مسجد نبویﷺ کی توسیع کے مختلف مراحل پر بنائی جانے والی ڈاکومنٹری فلم یاد آتی ہے جو ماہ رمضان میں کئی مرتبہ ٹی وی پر دکھائی جا چکی ہے۔ مسجد کی تزئین و آرائش اور سہولیات کی فراہمی میں کسی ایک مسلمان ملک کا نام شامل نہیں۔ سارا کام مغربی ممالک کی فرموں نے کیا ہے۔

ہماری بے وقعتی کا یہ عالم ہے کہ امریکا سعودی عرب اور پاکستان کو اگر جدید ٹیکنالوجی کے حامل طیارے فراہم کر دے تو ان کے استعمال کی نگرانی کے لیے اپنے ماہرین بھی ان اڈوں پر تعینات کرتا ہے جہاں انھیں رکھا جانا ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کہیں بھارت یا اسرائیل کو ان سے تکلیف نہ پہنچے اور ٹیکنالوجی کی چوری کو روکا جا سکے۔

مسلم دنیا میں احتجاج کی جو آگ سلگ رہی ہے ایسے واقعات کے ساتھ وابستہ اندیشوں کے عین مطابق ہے۔ ہمارے اس احتجاج سے مغربی ممالک کے ارباب بست و کشاد پوری طرح مطمئن ہیں کیونکہ ہمارے اس رویئے سے ان کے عالمی اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

ہم اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنی املاک کو جلا کر اور اپنے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کروا کے اس اطمینان کے ساتھ واپس اپنے معمولات کی طرف لوٹ جائیں گے کہ ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کی جو ذمے داری پر ہم عائد ہوتی تھی، اسے ہم نے پورا کر دیا ہے۔

جس طرح کسی دُکھ پر انسان رو کر جی ہلکا کر لیتا ہے اور نفسیاتی سطح پر اس کی تشفی ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح ہمارا یہ احتجاج بھی ہمیں نفسیاتی سطح پر مطمئن کر دیتا ہے۔ سچ پوچھیں تو ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کا راستہ بہت کٹھن ہے، اسی لیے ہم اسے اختیار نہیں کریں گے، ہمیں پُر تشدد احتجاج کا آسان راستہ زیادہ مرغوب ہے۔

مسلمان ممالک کے زیادہ تر حکمران ایک جدید طرز کے نوآبادیاتی نظام کے کل پرزے ہیں۔ یہ در حقیقت مغربی طرز فکر کے مُقلد اور اُن کے کارندے ہیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا غیض و غضب کہیں کسی تعمیری سرگرمی میں نہ ڈھل جائے۔

وہ لوگوں کو اس بات پر اُکساتے ہیں کہ سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ کریں ، یوں وقتی جوش و خروش کو مزید شدت دے کر لوگوں کو نفسیاتی طور پر مطمیئن کر دیا جائے۔ ہمارے اس احتجاج نے اپنے ہی اکتیس لوگوں کی جان لے لی ہے ، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار الگ۔

جس صورتحال کا مسلمانوں کو آج سامنا ہے اُس کے تقاضے ہمارے اس متوقع رد عمل سے بہت مختلف ہیں۔ اس جسارت پر ایک تو فوری رد عمل سامنے آنا چاہیے تھا جو مسلمان ملکوں میں انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ قومی رہنمائوں کی قیادت میں احتجاج کی شکل میں ہوتا۔

دوسرے یہ کہ اسلامی دنیا فوری طور پر اس بات کا جائزہ لے کہ ایسے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو مغربی دنیا کو اس معاملے میں معقول رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

ان وقتی حکمت عملیوں سے قطع نظر اپنے دین اور اپنے رہبر برحق ﷺ کی حرمت کو صرف اورصرف اسی صورت میں یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ مسلمان ذلت کی پستیوں سے نکل آئیں۔ پوری عالمی برادری میں ہمارا ہاتھ ’دینے والا‘ ہاتھ بن جائے۔ عالمی تجارت میں ہماری امانت اور دیانت ضرب المثل ہو۔

پوری دنیا میں ہمارا مال اور جنس اپنے معیار میں یکتا ہو۔ کسی مسلمان سے جھوٹ منسوب ہو تو غیر مسلم کانوں کو ہاتھ لگائیں اور ایسا کہنے والے کو لعنت ملامت کریں۔ ہماری عسکری اور دفاعی صلاحیت ناقابل تسخیر ہو اور عالمی معیشت میں ہمارا کردار فیصلہ کُن حیثیت اختیار کر جائے۔

اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دنیا کے ہر غیر مسلم پر واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو ناراض کرنے میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔

ایسے میں اگر کسی بدبخت کو ایسا خیال آ بھی جائے تو خود اس کے ہم وطن اس کی جان کو آجائیں گے۔

اس حالیہ گستاخی کے پس پردہ حقائق کے بارے میں سامنے آنے والے تجزیات اپنی جگہ درست ہیں۔ امریکی انتخابی سیاست کے ساتھ اس کے تعلق سے بھی انکار نہیں لیکن ایسی حرکت کرنے کی جرأت تبھی ہوتی ہے جب مغرب والوں کو ہمارے متوقع ردعمل کا مکمل یقین ہوتا ہے۔

ہماری حالت میں اس دن بہتری کا عمل شروع ہوگا جس دن ہم نے غیر متوقع ردعمل کا اظہار کیا اور وہ غیر متوقع ردعمل یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک امت کے طور پر اُس میدان کو فتح کرنے کے لیے اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ برسرپیکار ہو جائیں جس میدان سے اہل مغرب نے ہمیں نکال باہر کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔