- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - اگر لچک نہ ہو تو
’’کیا سفید کے بعد کالا رنگ ہوتا ہے؟ ‘‘
یقیناًآپ میری اس بات کی پرزور انداز سے تائید کریں گے۔ کیوں بھلا؟ کیوں کہ اس تائید کی ایک معقول اور اہم وجہ ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں سفید ہو یا کالا۔۔۔غلط ہو یا صحیح ۔۔۔اسی دو لفظوں کے درمیان تمام دماغ حرکت کررہے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو چیز سفید ہے اس کے جواب میں دوسرا رنگ ضرور بالضرور کالا ہی ہوسکتا ہے۔
لیکن! ایسا ہر گز نہیں ہے! سفید اور کالے کے درمیان بے شمار مختلف رنگ موجود ہیں۔ آپ ان رنگوں کو قطعی طور پر الگ یا نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یوں سمجھ لیں کہ سفید اور کالے رنگ کے درمیان بے شمار رنگوں کو آپ لچک سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
ہم کون ہوتے ہیں کسی چیز کو ۱۰۰ فیصد صحیح یا ۱۰۰ فیصد غلط سمجھنے والے۔۔۔ کیا قدرت کے اس اصول کو توڑنے کا ہمارے پاس کوئی جواز ہے جس نے سفید اور کالے رنگ کے درمیان بے شمار مختلف رنگ بنا رکھے ہیں۔ فرض کریں کہ آپ نے اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی ہے۔اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارا مدمقابل جو شخص موجود ہے وہ ۱۰۰ فیصد غلط ہے۔ کیا ہم اس کے لیے ۴۰ فیصد۔۔۔۳۰ فیصد یا پھر ۲۰ فیصد لچک پیدا نہیں کرسکتے۔ اپنے نظریا ت اور خیالات میں وہ شخص کم از کم ۲۰ فیصد تو ٹھیک ہوگا۔
آپ اسے پاکستانی معاشرے کا المیہ کہیں یا پھر ایک ترقی پذیر ملک کا ابتدائی سفر۔۔۔ اس حقیقت سے آپ بھی اچھے انداز سے واقف ہیں کہ معاشرے میں بد امنی، انتشار اور نفرتوں کے پھیلتے سائے صرف اور صرف ہمارے غیر لچکدار رویوں کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ہم نے خود کو ۱۰۰ فیصد حق اور مدمقابل کو ۱۰۰ فیصد باطل سمجھ کر اپنی تلواریں سونت لی ہیں۔ غصہ ہر وقت ناک پر دھرا اور ماتھا شکنوں سے بھرا پڑا ہے۔ آپ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی اُٹھا لیں۔ آپ کو ایک عجیب رویے سے سابقہ پڑے گا۔ جو جس تنظیم، جماعت، فرقہ یا قوم کا ہے ، ہر فرد کی ہمدردیاں اپنے لوگوں کے لیے اور دوسروں کے لیے غیر لچکدار رویے کی شکایات عام نظر آئیں گی۔ اس میں آپ ان لوگوں کا نکال دیں جو ان تمام چیزوں سے مبرّا ہے۔ جو اپنی زندگیوں میں بھرپور لچک رکھتے ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان کے باشندوں کا لچک سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا۔ رویوں میں اگر لچک نہیں ہوگی تو آپ کا حال بھی اس غیر لچکدار آئینے کی طرح ہوگا جو نیچے گرتے ہی چھناکے سے ٹوٹ گرتا ہے۔ اس طرح اپنے آپ کو ٹوٹنے سے بچائیے۔ لوگوں سے اختلاف رکھیں لیکن انہیں سفید اور کالے رنگ کے بجائے ان ہزاروں رنگوں میں جگہ دیں جو سفید اور کالے رنگ کے درمیان ہوتا ہے۔ ہمیشہ صحیح یا غلط نہیں ہوتا۔ اس کے درمیان بھی چند منزلیں ہوتی ہیں جن میں انسانوں کو فٹ کر کے معاشرے میں گھٹن اور حبس کو ختم کرسکتے ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا۔۔۔؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔