ایک بہت بڑا انکشاف

سعد اللہ جان برق  اتوار 17 اگست 2014
barq@email.com

[email protected]

ہم نے جب کالم نگاری کا آغاز کیا تو نہ تو ’’سو تیر‘‘ تھے ہمارے ’’پیوست گلو‘‘ اور نہ ہی ہمارا خون جگر ’’برفاب‘‘ ہوا تھا لیکن ہماری ’’سمجھ دانی‘‘ کچھ زیادہ بڑی نہ تھی یوں سمجھ لیجیے کہ ابن انشاء کی جھولی تھی جن کے سو چھیدوں میں سے باقی تو سب کچھ نکل جاتا تھا صرف کوئی ’’موٹی‘‘ بات رہ جاتی تھی نہ تو ہم کوئی دانا تھے نہ کسی ہنر میں یکتا تھے لیکن پھر بھی چل پڑے تو بہرحال چل پڑے مجبوری انسان سے کیا کچھ نہیں کراتی وقت برا ہو تو انسان کالم نگار تک بن جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ برا ہو تو پولیس والا تک بن جاتا ہے۔

نہ تو ہمارے پاس علم تھا نہ تجربہ… اس لیے کالم کے لیے مال مسالہ بڑی مشکل سے جمع کر پاتے تھے لیکن ہم نے اس اندھے کا قصہ سنا تھا جو ’’قمار بازی‘‘ کا رسیا تھا کسی نے ایک دن اس سے پوچھا کہ تجھے دکھائی تو دیتا نہیں تو یہ کیسے پتہ کرتے ہو کہ ’’چھکا‘‘ آیا ہے یا ’’تری‘‘… بولا ان بڑے بڑے ’’مونہوں‘‘ کو سلامت رکھے جو ’’دانہ‘‘ ڈالتے ہی چلا اٹھتے ہیں کہ چھکا ہے یا تری، چنانچہ ہم نے بھی اپنی کالم نگاری کی بنیاد ان بڑے بڑے ’’مونہوں‘‘ کے اوپر رکھی جو ’’بیان‘‘ دیے بغیر نہیں رہ پاتے، دنیا میں کہیں کچھ بھی ہو جائے اس پر تابڑ توڑ بیانات آ ہی جاتے ہیں تب سے اب تک یہی سلسلہ چل رہا ہے، اخبار اٹھاتے ہیں ’’بیانات‘‘ کے بڑے بڑے ذخائر سامنے ہوتے ہیں وہ بھی نقدا نقد… چنانچہ عین ممکن ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اتنے ’’رِچ‘‘ نہ ہوں اور ہو بھی کیسے سکتے ہیں جہاں گوشت خانے کی چوکیداری ’’بلیوں‘‘ کے سپرد ہو اور گھونسلے چیلوں کی تحویل میں ہوں وہاں ’’ماس‘‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارے معلوماتی ذخائر خود ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہیں اور خوب بھرے پرے رہتے ہیں مطلب یہ کہ ہم جیسے تہی دست کالم نگاروں کو بھی کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طرح ’’شکر‘‘ مل ہی جاتی ہے کیوں کہی اس گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے اب مثال کے طور پر ہمیں کچھ بھی علم نہیں تھا کہ فلسطینی کون ہیں، اسرائیل کیا بیچتا ہے اور غزہ کس چڑیا کا نام ہے لیکن یہ قیمتی معلومات ہمیں ان ہی پیشہ ور اکابرین سے حاصل ہوئی ہیں جو بیانات کا پیشہ کرتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیل جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے وہ ’’ظلم‘‘ ہے صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ پتہ بھی چل گیا ہے کہ ’’ارے کوئی اس کم بخت کو روکے‘‘ اور اس سے بھی زیادہ ’’راز‘‘ کی بات یہ پتہ چلی ہے کہ اسرائیل مسلمانوں کا دشمن ہے بخدا ہمیں پہلے ان باتوں کا کوئی علم نہیں تھا بلکہ پاکستان میں کسی کو بھی نہیں تھا ہم تو سمجھ رہے تھے کہ اسرائیل کوئی شرارتی بچہ ہے جو کبھی فلسطینیوں کے ساتھ کچھ شوخی اور کچھ چھیڑ کرتا رہتا ہے کہ

چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

لیکن اب ان ہی پیشہ ور بیان بازوں اور نامی گرامی ’’رہنماؤں‘‘ سے پتہ چلا ہے کہ اسرائیل نامی کوئی ’’الو کا پٹھا‘‘ (اس کے والد ’’الو‘‘ کا نام امریکا بتایا جاتا ہے) معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر جو مشق ناز اپنے خیال میں کر رہا ہے وہ ’’ظلم‘‘ ہے کم از کم پاکستان کے ممتاز رہنماؤں نے تو اسے ’’ظلم‘‘ قرار دیا ہے، بلکہ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے یہ ممتاز رہنماء نہ صرف علوم کا خزانہ یعنی گفتار کے غازی نہیں ہیں بلکہ ان میں کردار کے وہ غازی بھی شامل ہیں جو ایسے واقعات پر فوراً جلسہ جلوس کر کے توڑ پھوڑ پر بھی اتر آتے ہیں ٹھیک ہے۔

ان جلسے جلوسوں اور توڑی پھوڑی مہم سے اس ملک کا کچھ بھی نہیں بگڑتا جس کے خلاف یہ جلوس نکلے ہوتے ہیں کیونکہ اگر بازار میں کسی نے آپ کو تھپڑ مارا ہو اور آپ اپنے گھر آ کر اپنی بیوی یا بچوں کو تھپڑ مارنا شروع کر دیں تو اس شخص کا آپ کیا بگاڑ لیں گے لیکن ایسا کرنے سے دو فائدے یقینا ہو جاتے ہیں ایک تو ’’مظلوموں‘‘ سے ’‘یکجہتی‘‘ (یہ پاکستان کا سب سے پاپولر لفظ ہے) کا اظہار ہو جاتا ہے کہ پٹتے رہو ہم تمہارے ساتھ ہیں، اگر اس سے بھی زیادہ پٹائی ہو تو حوصلہ مت ہارو ہم کو اپنے ساتھ سمجھو، دوسرا ہم جیسے بے علم بے سمجھ اور بے بضاعت کالم نگاروں کو ہو جاتا ہے کہ ان کو واقعات سے آگاہی ہو جاتی ہے اور وہ ظلم کرنے والے کے خلاف ڈزا ڈز کرنے لگتے ہیں اس بات کو سمجھانے کے لیے ہمیں اپنے پیر و مرشد خواجہ حافظ شیرازی کی مدد لینا پڑے گی فرماتے ہیں

اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقاں ریزد
من و ساقی بہم سازیم و بنیادش براندازیم

یعنی اگر ’’غم‘‘ لشکر جمع کر کے ’’عاشقوں‘‘ پر ہلہ بولتا ہے تو میں اور ’’ساقی‘‘ بھی آپس میں اتحاد کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے یعنی ہم بیٹھے بیٹھے چند جام چڑھائیں گے اور اس کی بنیادیں ہلا دیں گے، اگر اب بھی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی ہو تو ہم آپ کی سمجھ کو اپنی سمجھ پر قیاس کر کے مزید تشریح کیے دیتے ہیں، ہوا یوں چرسیوں کی ایک ٹولی کے ایک ممبر کی بیوی کوئی بھگا کر لے گیا، چرسی نے اپنا یہ مسئلہ اپنے ساتھیوں سے شیئر کیا تو وہ بڑے غصے میں آئے فوراً فیصلہ کیا کہ ابھی جا کر اس شخص کی ایسی تیسی کرتے ہیں یہ صلاح ٹھہرانے کے بعد اس نیک کام پر جانے سے پہلے ایک بھرپور قسم کا ’’سُوٹا‘‘ لگانا ضروری سمجھا، چہلم بھری گئی اور بڑے کام کا ارادہ تھا ۔

اس لیے ذرا بھرپور سی چہلم بھری گئی اور اسموکروں نے بھی اپنا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے خوب کس کر سوٹا لگایا ابھی چہلم کا دور چل رہا تھا کہ ایک بولا اس شخص کو مارنا تو اب طے ہے لیکن ذرا یہ بات ڈسکس ہو جائے کہ کس طرح سے ماریں گے، اس پر مختلف آراء سامنے آئیں کسی نے اسے گولی مارنا ضروری سمجھا کسی کے خیال میں اسے پھانسی دینا ضروری تھا کوئی چاقو چھری کی بات کر رہا تھا جتنا جتنا نشے کا گراف گرتا رہا اتنی ہی نرمی پروگرام میں آتی گئی۔

آخر قتل سے بات مار پیٹ تک آ گئی کہ جا کر خوب پیٹ ڈالیں گے اتنے میں ایک سینئر چرسی بولا دیکھو اگر بات ’’مار‘‘ کی ہو گئی ہے تو ہم بے چارے کیا اور ہماری مار کیا اصل مار تو خدا کی ہوتی ہے تو کیوں نہ یہ کام خدا پر ہی چھوڑا جائے اس کی مار سے بہتر ہم لوگ کیا ماریں گے اس قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا اور کامیابی کی خوشی میں ایک اور چہلم بھری جانے لگی

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں

خیر یہ تو اب ’’چرسیوں‘‘ کا کام ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ہمارے لیے تو خوشی کا مقام یہ ہے کہ ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ ظلم ہے، ساتھ ہی یہ فلسفہ بھی ہماری سمجھ میں پہلی بار آیا ہے کہ ایسے معاملات میں ہمارے یہاں جو اودھم مچتا ہے اس کا اصل مقصد و مدعا کیا ہوتا ہے اسرائیل کے ہاں نہ تو پاکستان کے اخبارات جاتے ہیں اور نہ ہی ہمارے یہ دھواں دھار بیانات اور کالمان و تجزیات پڑھتے ہیں۔

اصل مقصد اس کا صرف ہم جیسوں کی معلومات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے اور وہ ہو رہا ہے بلکہ اتنا ہو چکا ہے کہ اب مزید ہونے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی ہے یہ کیا کم انکشاف ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ ظلم ہے اور اسی بات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا چاہیے تا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ اچھا نہیں کر رہا ہے بے شک ظلم کر رہا ہے اور یہ حق بات ہم کسی بھی جابر سلطان حتیٰ کہ امریکا کے سامنے بھی کر سکتے ہیں بلکہ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو ظلم ہو اس کو رقم کرتے رہیں گے
اللہ کرے زور بیان اور زیادہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔