ملک کو بچا لیجیے

عبدالقادر حسن  اتوار 17 اگست 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پہلے کوئی نو دن تک کچھ سرکاری اور غیر سرکاری چھٹیاں رہیں ان کے بعد سیاسی چھٹیاں شروع ہو گئیں جو اب تک جاری ہیں۔ چھٹیاں کرنے والے لیڈروں کو خود معلوم نہیں کہ ان کی یہ عیاشی کب تک جاری رہے گی۔ غربت اور بے روزگاری میں پھنسی ہوئی یہ قوم کب تک اپنی غربت کے یہ دن گزارتی رہے گی اور روتی پیٹتی رہے گی۔

ہر پاکستانی کو سوائے ان لیڈروں کے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے شب و روز کس طرح گزر رہے ہیں اور وہ کب تک اس حال میں گزر بسر کرتا رہے گا لیکن عام پاکستانی جس حال میں بھی ہو لیڈر بہت خوش ہیں کہ پاکستان کے شہری جوق در جوق ان کے پیچھے چلے آ رہے ہیں کیونکہ اس بار لیڈروں کا جو گروہ ان کے سامنے ہے وہ ان کے پاکستان کو ہی بدل دینا چاہتا ہے۔ ایک نیا پاکستان جو کبھی بھٹو صاحب نے بنایا تھا انھوں نے پہلے تو فوجی حکمران اور اس قماش کے چند لیڈروں سے مل کر ملک کو دو ٹکڑے کیا پھر اس کے ایک ٹکڑے کو نیا پاکستان بنا کر اس کے وزیر اعظم بن گئے کیونکہ اگر پاکستان متحد رہتا تو اس کا وزیر اعظم اکثریت والے صوبے مشرقی پاکستان سے آنا تھا اور بھٹو صاحب کی زندگی میں ان کی باری بہت مشکل تھی۔ ایک بار بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ میں سہروردی نہیں ہوں کہ اقتدار کا انتظار ہی کرتا رہوں۔

ہمارے خاندان کی جتنی عمریں ہوتی ہیں میں اس حد تک پہنچنے والا ہوں اور اس طرح جلدی میں ہوں چنانچہ سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ جناب بھٹو نے اس سے پہلے یہ سب ہوتا ہوا دیکھ کر کہا تھا کہ ’’خدا کا شکر ہے ملک بچ گیا‘‘ اس وقت بھی اپنے لیڈروں سے درخواست کی کہ نعوذ باللہ سقوط پاکستان نہ ہونے دیں ورنہ کیا ہو گا اس کا تصور بھی مشکل ہے کیونکہ عمران ہو یا قادری کسی کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اس شدید ترین بحران میں مجھے ایک شخص دکھائی دیتا ہے‘ جماعت اسلامی کا سراج الحق جو ان خونخوار قسم کے لیڈروں میں صلح کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برے حالات میں اگر کوئی قربانی دے گا تو وہ جماعت کے کارکن اور لیڈر ہوں گے جو اب تک سقوط ڈھاکہ کی قربانیاں دے رہے ہیں اور اسی پر زندگیاں قربان کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے لیڈروں کو اپنا دشمن ملک پاکستان یاد آتا ہے تو وہ یکایک غصے میں آ کر جماعت کے ایک اور لیڈر کو پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں کہ انھوں نے بنگلہ دیش کی جگہ پاکستان کی حمایت کیوں کی تھی۔ سراج الحق صاحب کو آج بھی یہ سب کچھ یاد آتا ہے جب وہ سقوط ڈھاکہ جیسی کسی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں تو کانپ جاتے ہیں اور لیڈروں کی منت سماجت شروع کر دیتے ہیں۔ موجودہ بحران میں اگر کوئی غیر جانبدار پاکستانی لیڈر تھا تو وہ جماعت اسلامی کا امیر تھا جس نے بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ ملک کی سیاسی صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

وہ ہر لیڈر سے ملے ان کو درمیان کا اور سلامتی کا راستہ دکھایا‘ تجاویز پیش کیں اپنی مضبوط جماعت کو ہر قربانی کے لیے پیش کیا اگرچہ اس دوران مجھے نوابزادہ نصراللہ خان بھی یاد آئے لیکن جو بے غرضی اور بے لوثی سراج الحق میں دکھائی دی وہ ماضی میں کہیں دکھائی نہ دی لیکن برا ہو سیاسی مطلب پرستی کا ہر کوئی اپنے مطلب کی بات کر رہا ہے۔ ملک کے اجتماعی مفاد کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ ان چھوٹے لوگوں کو یہ عقل نہیں ہے کہ ملک ہے تو ان کی لیڈری وغیرہ بھی ہے۔ ہماری ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے کئی لیڈروں نے غیر ملکوں میں اپنے مضبوط ٹھکانے بنا لیے ہیں کہ وہ کسی بھی پہلی پرواز سے اپنے غیر ملکی خزانوں کے پاس پہنچ جائیں گے جس طرح ہمارے ترقی پسند کامریڈ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد فوراً ہی واشنگٹن پہنچ گئے۔

ہمارے کئی لیڈروں کے گھر واشنگٹن میں بھی تیار ہیں بلکہ ان کے خاندان بھی ملک سے باہر مستقل طور پر مقیم ہیں مثلاً ہمارے ایک وفاقی لیڈر اور وزیر کا پورا خاندان ہی امریکا میں مقیم ہے۔ اسی طرح کئی لیڈر ہیں جن کے بیٹے باہر کے ملکوں میں ان کا کاروبار دیکھ رہے ہیں۔ غیر ملکی بینکوں میں اربوں روپے تو کئی ایک لیڈروں کے محفوظ ہیں ایسے لیڈروں کو ملک کی کیا پروا ہے جب کہ وہ تو یہاں اقتدار کے مزے اڑانے کے لیے موجود ہیں جو باہر کے کسی ملک میں میسر نہیں وہ پاکستان میں جیب خرچ کے لیے بھی کروڑوں روپے رکھ لیتے ہیں اور بڑے اطمینان کے ساتھ سیاست کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض صورتوں میں یہ سیاست مہنگی بھی پڑتی ہے جیسی بھٹو اور ان کی بیٹی کو لیکن آمریت مزے میں رہتی ہے۔

بات یوں ہے کہ ملک کی فکر جتنی مجھے اور آپ کو ہے اتنی کسی بھی لیڈر کو نہیں کیونکہ ہمارا تو اس ملک سے باہر کچھ بھی نہیں۔ جو لوگ اپنے ملک میں بمشکل گزر بسر کرتے ہیں وہ باہر کی بات کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ ہمارا فرض ہے اور ہمارے جیسے فقیر لیڈروں سے ہی ہمیں کچھ امید ہے کہ وہ اس ملک کے لیے اپنی جان بھی دے دیں گے جیسے سراج الحق جن کے پاس لباس کا دوسرا جوڑا بھی نہیں ہے۔ دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی اور پھٹے پرانے کپڑوں کا ایک جوڑا ہی ان کا کل اثاثہ ہے اس لیے وہ جتنے کچھ بھی ہیں اسی ملک کے ہیں۔ دلچسپ صوت حال کہ نہ کچھ ملک کے اندر ہے نہ باہر۔

ایسے فقیروں سے ہی ملک کی سلامتی کی امید کی جا سکتی ہے اور جب میں نے دیکھا کہ سراج صاحب سرگرم ہیں اور ہر لیڈر کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ خدا کے لیے کسی بات پر متفق ہو کر ملک کو بچانے کی کوشش کرو تو قدرے امید بندھی کہ شاید اس بحران سے نکلنے کی کوئی صورت نکل آئے ورنہ واشنگٹن سے لے کر دلی تک ہر کوئی اپنے اس تازہ شکار پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ امریکا نے مسلم دنیا کے خلاف جو گیم شروع کر رکھی ہے اس میں ایٹمی پاکستان اور اس کی جری اور محب وطن فوج ہی رکاوٹ ہے اور یہ رکاوٹ اندرون ملک کی خانہ جنگی یا اختلافات کی وجہ سے بھی دور ہو سکتی ہے۔ پاکستانی اپنے اندرونی حالات پر غور کریں اور ملک کو سلامت رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔