شکاگو میں یوم آزادی 2014

امجد اسلام امجد  اتوار 17 اگست 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

لاہور سے 12 اگست کی صبح 4 بجے روانہ ہو کر ہم اسی تاریخ میں سہ پہر 4 بجے شکاگو کے ہوائی اڈے پر اتر تو گئے مگر اس چکر میں دس گھنٹے اِدھر اُدھر ہو گئے۔ اگرچہ یہ معاملہ ٹائم زونز کے فرق کی وجہ سے ہوا لیکن یہ احساس بہرحال بے حد حیران کن ہے کہ آپ ایک بار گزارا ہوا وقت (جس کے بارے میں طے ہے کہ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا) دوبارہ سے گزار رہے ہیں۔ اب اگر اسی بات کو ٹائم زون کے حوالے سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بعض اوقات یہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

نجانے کب تھا، کہاں تھا، مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کہیں گزارا ہے!

عین ممکن تھا کہ ہم یعنی انورؔ مسعود اور میں اس الجھن کو سمجھنے میں مزید وقت گزارتے لیکن کُل ملا کر 22 گھنٹے کے سفر نے تھکن سے بھر پور کچھ ایسا اضمحلال طاری کر دیا تھا کہ ہم اسے بھول کر برادرم محمد عرفان صوفی کا راستہ دیکھنے لگے جو ہمیں پارکنگ تک کے خاصے طویل رستے سے بچانے کے لیے ہمیں وہیں کھڑا رہنے کا کہہ کر خود گاڑی لینے کے لیے گیا ہوا تھا ہمیں بتایا گیا تھا کہ ان دنوں امریکا میں موسم عمومی طور پر خاصا گرم ہے۔ سو سویٹر اور جیکٹ وغیرہ کا تکلف نہ کیجیے گا مگر اس وقت ہوا سرد بھی تھی اور تیز بھی۔

عرفان شکاگو شہر سے کوئی 50 منٹ کا مسافت پر ایک مضافاتی قصبے ینیرول میں رہتا ہے جس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی تمام سڑکوں کے نام مختلف ادیبوں اور شاعروں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ ہمارا قیام کانن ڈائل روڈ پر تھا جہاں ہم شرلاک ہومز کے دنوں کے گھوڑے بیچ کر اگلی صبح تک سوتے رہے، دوپہر میں حمید علوی اور قیصرا علوی کی صاحبزادی ڈاکٹر سائرہ علوی نے برنچ پر مدعو کر رکھا تھا۔

وہ یورپ سے ہجرت کر کے گئی تھی دونوں کی ملاقات دوران تعلیم ہوئی اور مغرب اور مشرق کے ایسے ملاپ پر ختم ہوئی جو خلاف معمول برابری کی بنیاد پر تھا راحیل کو اردو نہیں آتی تھی مگر وہ اپنی جاب سے کچھ دیر کے لیے آئے اور ہماری گفتگو کو بہت دلچسپی اور خوشدلی کے ساتھ سنتے رہے۔ شام کو برادرم فہیم کے ساتھ ڈنر کیا گیا اور مشترکہ دوست نوجوت عرف زویا کو خوب خوب یاد کیا گیا۔

14 اگست کی صبح یوم آزادی کے حوالے سے پرچم کشائی کی خصوصی تقریب ڈاؤن ٹاؤن شکاگو میں ہونا تھی تو قونصل جنرل پاکستان برائے شکاگو برادر فیصل نیاز ترمذی نے اس میں شمولیت کے لیے ہمیں خاص طور پر دعوت دی تھی۔ ایک اتوار بازار تھا کھلی سی جگہ پر تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں شکاگو اور امریکا کے جھنڈے تو مستقل نصب رہتے ہیں مگر دیگر ممالک کے یوم آزادی کے موقع پر ان کے درمیان میں متعلقہ ملک کا جھنڈا اس دن کی حد تک لہرایا جاتا ہے۔

مقامی پاکستانیوں سمیت وہاں کئی ممالک کے قونصل جنرل اور شکاگو شہر کے قائدین یا ان کے نمائندے موجود تھے۔ بہت سے پیغامات پڑھے گئے۔ مجھے اور انور مسعود کو پرچم کشائی کے عمل میں شامل کر کے عزت دی گئی کہ وطن کے لیے اور بالخصوص وطن سے دور کسی قومی نوعیت کی تقریب میں شمولیت ایک سعادت سے کم نہیں ہوتی۔ وائس قونصلر اور عزیز دوست مصطفیٰ علی انجم کے ساتھ ساتھ قونصلیٹ کے دیگر افسران سے بھی ملاقات رہی اور ہم دونوں کو اسٹیج پر آ کر وطن عزیز کے حوالے سے تبرک کے طور پر کچھ اشعار بھی پڑھنے کے لیے کہا گیا۔

تقریب کا وقت تو بارہ سے ایک بجے تک کا تھا لیکن وہاں پر موجود اہل وطن کے ساتھ تصویریں اتروانے میں مزید ایک گھنٹہ لگ گیا۔ دوپہر کا کھانا ڈیولن کے مشہور دیسی علاقے میں صابری نہاری والوں کے ہاں کھایا گیا جس کے میزبان عبدالواحد تھے مگر یہاں وہ بٹ صاحب کہلاتے تھے۔ انھوں نے ہمیں اس تبدیلی کی بہت دلچسپ وجہ بتائی جس سے متاثر ہو کر انور مسعود نے وہیں بیٹھے بیٹھے اس واقعے سے متعلق ایک مزیدار سا شعر لکھ دیا جسے واحد صاحب نے ان کے قلم سے لکھوا کر محفوظ کر لیا۔ قونصل جنرل فیصل ترمذی نے شام کو اپنے گھر پر ہمارے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں بہت سے لوگوں سے ملاقات اور کئی ایک سے تجدید ملاقات ہوئی۔

برادرم حسین احمد پراچہ اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر بلال پراچہ جو ہمارے اس دورے کے حقیقی میزبان ہیں بھی پہنچ گئے۔ اس بے تکلف اور گھریلو سی نشست میں 14 اگست کے حوالے سے ایک مخصوص نوع کی گرمی اور خوبصورتی پیدا کر دی تھی۔ سو وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ دوپہر کی تقریب کی ایک خاص بات کا ذکر رہ گیا کہ امریکی حکومت کی پالیسیاں پاکستان کے بارے میں جیسی بھی ہوں جہاں تک امریکی عوام کا تعلق ہے وہ پاکستانیوں کو برابر عزت دیتے ہیں اور امریکا میں آباد تقریباً دس لاکھ پاکستانی بھی وہاں کے معاشرے میں عمومی طور پر بہت اچھے اور کارآمد شہریوں کی حیثیت میں رہ رہے ہیں۔

شکاگو اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں تقریباً ڈھائی لاکھ پاکستانی آباد ہیں اور اس اعتبار سے یہ شہر نیویارک، ہیوسٹن اور لاس اینجلس کا ہم رتبہ ٹھہرتا ہے۔ بیشتر ملنے والے پاکستان میں ہونے والے عمران خان کے لانگ مارچ، ڈاکٹر طاہر القادری کے بیانات اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات پر اپنے اپنے ردعمل، اور تحفظات کا اظہار کرتے نظر آئے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ امریکی گرین کارڈز، شہریت اور ڈالرز کی ریل پیل کے باوجود بھی ان ان کے دل و دماغ میں اب بھی پاکستان ہی رہتا ہے چونکہ بیشتر پاکستانی ٹی وی چینلز تک ان کی براہ راست رسائی ہے۔ اس لیے یہ لوگ ہمہ وقت سنسنی خیز خبریں سن سن کر ہم سے بھی زیادہ پریشان ہوتے رہتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ان میں سے بیشتر خبریں (پیش کش کے انداز اور تجزیہ کاروں کی غیر ذمے داری کی وجہ سے) درست ہونے کے باوجود گمراہ کن اور مایوسی انگیز تاثر چھوڑتی ہیں جو یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے بوجوہ اچھی خبر کو خبر ہی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تاریک کے ساتھ ساتھ صورتحال کا روشن پہلو (جیسا اور جتنا بھی ہے) بھی سامنے لایا جائے کہ بہرحال ہماری منزل اعلیٰ اور تعمیری اقدار کا فروغ ہے۔ اجتماعی خودکشی نہیں۔ پرویز رشید ہوں یا شیخ رشید یہ اپنے مؤقف کا اظہار ضرور کریں مگر اس کا مطلب پوائنٹ اسکورنگ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہونا چاہیے۔

یہودی قوم نے دنیا کے معاشی نظام اور میڈیا پر کنٹرول کی وجہ سے امریکی حکومت اور عوام کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے مگر ان کی گرفت ڈھیلی نہ پڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اور اسلامی دنیا کے دیگر ممالک ان دونوں میدانوں میں اپنی طاقت اور صلاحیت کا صحیح اور جائز استعمال نہیں کرتے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر دوسری جنگ عظیم کے بعد بدلتی ہوئی دنیا میں ہم نے اپنا کردار صحیح طریقے سے بنایا ہوتا تو صورتحال پھر بھی شائد کسی حد تک تو خراب رہتی مگر یہ حال نہ ہوتا کہ اٹھاون مسلمان ممالک اپنے تمام تر ظاہر اور پوشیدہ وسائل اور دنیا کی کل آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہونے کے باوجود ایسے مجبور گمنام اور بے نام ہوتے، بلاشبہ اقبال کے زمانے سے لے کر اب تک فرنگ کی جاں پنجۂ یہود میں چلی آ رہی ہے مگر یہ کوئی تقدیر کا لکھا ہوا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے اور صحیح رخ پر ڈالنے کا ڈھنگ سیکھ لیں۔ آئیے اس کا آغاز اپنی ذات اور اپنے وطن سے کریں۔

میں بے نوا ہوں صاحب عزت بنا مجھے
اے ارض پاک اپنی جبیں پر سجا مجھے
میں حرف حرف لوحِ زمانہ پہ درج ہوں
میں کیا ہوں! میرے ہونے کا مطلب سکھا مجھے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔