حکومت بوکھلا گئی ہے؟

شیریں حیدر  اتوار 17 اگست 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

صاحب اکثر اپنے بچپن کی یادوں کی پٹاری میں سے دلچسپ واقعات سناتے ہیں تو ملک کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں مجھے ان کے لڑکپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا، جو کہ ان ہی کی زبانی سنیے۔۔۔۔۔۔۔۔

’’میرے چچا مرحوم کی چوہدری ظہور الہی مرحوم سے بہت اچھی دوستی تھی، ستر کی دہائی کے اولین برسوں کی بات ہے، میں ہائی اسکول میں تھا، چچا مجھے اپنے ہمراہ ان کے ہاں لے گئے، یہ وہ وقت تھا جب الیکشن کا زور تھا، پیپلز پارٹی کا پہلا الیکشن تھا، لوگوں میں جوش و خروش تھا، امیدیں تھیں اور نئے نئے نعرے گلیوں اور بازاروں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔۔۔ چوہدری ظہورالٰہی کے مقابلے پر چوہدری محمد سرور جوڑا پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن میں کھڑے تھے، بیان بازیاں بھی ہوتیں اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے جلسے اور جلوس ہوتے۔۔۔ show of power کے لیے، اس روز ایسے میں جب ہم لوگ چوہدری ظہور الہی کی بیٹھک میں بیٹھے تھے۔

باہر سے ان کے کسی خاص آدمی نے آ کر بتایا کہ ان کے مخالف، یعنی چوہدری محمد سرور جوڑا ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں اپنے گھر سے نکلے تھے اور ان ہی کے گھر کے طرف آ رہے تھے۔۔۔۔۔ کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔ سوال اٹھا تو مختلف لوگ کئی قسم کی ملی جلی آراء دینے لگے، کوئی کہہ رہا تھا تمبل چوک سے سڑک کو بند کر دیا جائے تو کوئی کسی اور مقام سے بند کرنے کا مشورہ دے رہا تھا، کسی نے جلوس پر پانی پھینکنے کی صلاح دی تو کسی نے اس سے بڑھ کر۔ چوہدری صاحب تحمل سے ان سب مشوروں کو سن رہے تھے، (جو لو گ گجرات شہر کا جغرافیہ جانتے ہیں انھیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ جلوس کو وہاں پہنچنے میں گھنٹوں درکار نہ تھے بلکہ کسی بھی وقت ’’مصیبت‘‘ پہنچا ہی چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

’’چالیس پچاس ہار منگوائے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ چوہدری صاحب نے کہا تو ان کے معتمد ان کا منہ دیکھنے لگے، مگر ان کا حکم حتمی تھا سو چالیس پچاس ہار منگوا لیے گئے اور جلوس کا انتظار ہونے لگا۔ جب اطلاع ملی کہ جلوس قریب پہنچ گیا ہے تو ہمارے سمیت چوہدری صاحب اپنی بیٹھک سے نکل کر اپنی کوٹھی کے گیٹ پر کھڑے ہو گئے، اس وقت کی آبادی کے لحاظ سے یہ ایک بڑا جلوس تھا جسے عین کوٹھی کے گیٹ پر رکوایا گیا۔۔۔۔۔ چوہدری ظہور الہی صاحب نے چوہدری سرور جوڑا صاحب کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے تھے۔

جوڑا صاحب گیٹ کے سامنے ٹرک سے اتر کر چوہدری صاحب کے سامنے پہنچے تو چوہدری ظہور الہی ان سے گلے ملے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے ہار پہنایا، اسے طرح باقی ہار ان کے باقی ساتھیوں کے گلے میں پہنائے گئے، جوڑا صاحب کے لیے نیک خواہشا ت کا اظہار کیا گیا اور ان کے لیے الیکشن میں کامیابی کے لیے دعا بھی کی گئی جو اتنی خلوص نیت پر مبنی تھی کہ جوڑا صاحب وہ الیکشن جیت گئے۔۔۔۔‘‘

یہ واقعہ ایک مشعل راہ کی سی حیثیت رکھتا ہے آج کل کے حکمرانوں کے لیے جو کہ ہر ’’مصیبت‘‘ کا سامنا کرنے کے لیے کئی بڑی بڑی مصیبتیں کھڑی کر دیتے ہیں، نہ صرف مصیبت کے اسباب پیدا کرنے والوں کے لیے بلکہ عام آدمی کے لیے بھی۔

گزشتہ برس نومبر میں، قریبی خاندان میں طے شدہ دو شادیوں کے سلسلے میں ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی تھی کہ اپوزیشن سے مشورے کے بغیر ان کی تواریخ طے کر لے گئی تھیں، مجھے یاد ہے کہ نومبر کے مہینے میں اپوزیشن کا کوئی ایسا پروگرام نہیں تھا یا ہماری ناقص معلومات میں نہ تھا کہ عین دونوں شادیاں اپوزیشن کی جماعتوں کے یوم شہداء اور آزادی مارچ کے ساتھ tele ہو گئیں… آٹھ کو جب لاہور میں میدان سج رہا تھا تو ہم اسلام آباد سے لاہور کی طرف رواں دواں تھے اور چودہ اگست کو جب اگلا میدان اسلام آباد میں سجنے والا تھا، اس روز وہاں شادی تھی مگر ممکن تھا کہ ہمیں آزادی مارچ کا حصہ بن کر جانا پڑے یا ہم لاہور میں ہی محصور رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور جاتے وقت ہمیں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا مرید سمجھا جا رہا تھا تو واپسی پر ہمیں عمران خان کا حامی سمجھا جائے گا۔

گھروں میں اپنے ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر بیٹھ کر چائے کے سپ لیتے ہوئے ان مناظر کو دیکھنا اور بات ہے، ان مناظر کا حصہ ہونا ایک اور بات، اور ایسی صورت حال میں پھنس جانا اپنے طرز کی اذیت کا تجربہ، جہاں آپ پھنستے ہیں وہاں سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ اگلے لمحے کیا ہو سکتا ہے۔

ہم نے راستے میں لاہور کی طرف رواں جلوس بھی دیکھے جو قدرے پر امن تھے (بعد ازاں لاہور کے خارجی اور داخلی راستوں کو سیل کر دیا گیا تھا) ڈاکٹر صاحب اور عمران خان کے منصوبوں سے ہراساں ہو کر حکومت جو اقدامات بوکھلاہٹ میں کر رہی تھی انھوں نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن کر دیا تھا۔ تمام راستہ جی ٹی روڈ پر ’’تیار‘‘ ٹینکروں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ حکومت کے کیا ارادے ہیں!!!

جن معاملات کو سیاسی طور پر طے کیا جانا چاہیے تھا انہیں جانے کن نا اہل مشیروں کے مشوروں کے تحت بگاڑا جا رہا تھا، حکومتی پارٹی اور حکومت مخالف جماعتوں کے لیے مناسب تو یہ تھا کہ آپس کے معاملات کو بیٹھ کے کسی مناسب فورم پر اور احسن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جاتا۔ عام آدمی کو اگر کسی طرح relief نہیں دیا جا سکتا تو اس کی مشکلات میں اضافہ تو نہ کریں، انہیں ہراساں نہ کریں، انہیں سہولیات تو پہلے ہی کم میسر ہیں، ان سے وہ بھی تو نہ چھین لیں، ان کے لیے پانی، بجلی، گیس اور پٹرول بند کر کے کیوں سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے… کیا لاہور میں سب لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے معتقد ہیں یا گیہوں کے ساتھ گھن خواہ مخواہ پس رہا ہے!!

حکومت اتنی خوفزدہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے بہتے ہوئے پانی کے سامنے کچی مٹی کے بند باندھ رہی ہے، جہاں حالات قابو سے باہر ہوں اور نظر آرہا ہو کہ عوام ان کی پالیسیوں اور نااہلیوں کے باعث اس حد تک اکتا چکے ہیں کہ جو بھی ان کی انگلی تھام کر چل پڑے گا، اسے وہ اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کے ساتھ چل پڑیں گے وہاں حکومت کو اپنی حکمت عملی وضع کر لینی چاہیے تھی۔ اگر حکومت نے انہیں بیتے برس میں کچھ relief دیا ہوتا، کچھ اقدامات ان کی فلاح اور بہتری کے لیے کیے ہوتے تو اس وقت بوکھلاہٹ میں الٹے سیدھے اقدامات نہ کر رہی ہوتی۔

اس صورت حال میں جو لوگ پھنسے ان میں کئی مریض ہوتے ہیں جنھیں اسپتالوں میں پہنچنا ہوتا ہے، متعدد کے خاندان میں شادی یا موت ہو سکتی ہے، کئی بچوں کے مستقبل کے لیے اہم مواقعے ہوتے ہیں کہ کسی کا امتحان ہو یا کسی کا ملازمت کے لیے انٹرویو۔۔۔۔۔۔۔ کتنے لوگوں کی زندگیاں اور مستقبل داؤ پر لگ جاتے ہیں، ایسے میں لوگ ان کے خلاف غم و غصہ کا اظہار نہ کریں تو اور کیا کریں؟

فیس بک پر کسی نے ڈاکٹر قادری صاحب کے بارے لکھا کہ وہ بوکھلا گئے ہیں… مجھے اس بات سے قطعی اتفاق نہ ہوا، میرے خیال میں تو وہ خود سٹپٹائے نہیں مگر انھوں نے حکومت کوبوکھلا دیا ہے، سٹپٹا دیا ہے اور اس سٹپٹاہٹ میں ایسے اقدامات کیے جس سے ایسی کیفیت کے کھلے مظاہرے نظرآ رہے تھے۔ پولیس والوں کو ان پر جوش مظاہرین کے سامنے مار کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور پھر جو کچھ ہو رہا تھا اس کے مظاہرے ہم نے ٹیلی وژن پر دیکھے، نہ صرف ہم نے بلکہ دنیا بھر نے اپنی ٹیلی وژن اسکرینوں پر دیکھا اور ہمارے بارے میں ان کی منفی رائے میں مزید استقامت پیدا ہوئی۔

آخر حکومت نے دنیا کو بتانا تو ہے نا کہ وہ پاکستان میں کس طرح کے عوام پر حکومت کر رہی ہے اور کس طرح کے بپھرے ہوئے عوام کو قابو کرنے کے لیے انہیں کس کس طرح کی ’’امداد‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ امداد انہیں ملتی ہے تو ان ہی کے پیٹوں میں چلی جاتی ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والے، ان ہی غلطیوں کو بار بار دہرا رہے ہیں جنھوں نے ماضی میں انہیں اقتدار کے ایوانوں سے باہر پٹخا دیا تھا۔ ان کی بے وقوفانہ غلطیوں نے ان چھوٹے لیڈروں کو بڑے بڑے لیڈر بنا دیا ہے جو کہ کبھی سیاسی لیڈر نہیں تھے۔

اگر موجودہ حکمران جلسے جلوس کرنے والوں کو اہمیت نہ دیں، چوہدری ظہور الہی کی طرح اپنے مخالفین کے گلے میںہار پہنائیں، انہیں نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں تو حالات بگڑنے کی بجائے اسی نہج پر چلتے رہتے جس معمول پر چل رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔ مگر اس کے لیے آپ کے اپنے ہاتھ اور دامن صاف ہونے چاہییں، آپ کے کریڈٹ پر کچھ ایسا ہونا چاہیے جسے آپ اپنے کارناموں کے طور پر اپنے عوام کے سامنے پیش کر کے انہیں کہہ سکیں کہ دیکھو ہم تمہیں کیا دے رہے ہیں اور دے چکے ہیں اور ہمارے مخالفین جمہوریت کی رواں گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے جمہوریت مخالف قوتوں کو نظام میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

مگر جو کام حکومت مخالف قوتوں کے کرنے کا ہوتا ہے، یعنی حکومت کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا، وہ کام ہماری موجودہ حکومت خودکر رہی ہے! آپس میں آپ جو بھی کریں، لڑیں، ماریں اور مریں۔۔۔۔۔ مگر خدارا ہمیں معاف کردیں، ہمیں اس ملک میں پیدا ہونے کی اتنی سزا نہ دیں کہ ہم اس ملک سے فرار کے منصوبوں پر کام شروع کر دیں جس میں آپ نے ہمارا ناطقہ بند کر رکھا ہے، سانس لینا دو بھر کر دیا ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔