غزہ جہنم بن چکا ہے

انیس ہارون  اتوار 17 اگست 2014

ناروے کے ڈاکٹر پروفیسر میڈزگلبرٹ کا بیان جو ایک ایمرجنسی فزیشن ہیں اور دنیا میں فلسطین کے حمایتی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ غزہ کے وار زون میں واقع الشفا ہاسپٹل میں دو ہفتے سے کام کر رہے تھے اور یہ بیان انھوں نے 30 جولائی 2014 کو جاری کیا ہے۔

ڈاکٹر میڈز گلبرٹ نے امریکی صدر اوباما سے کہا ہے ’’میں یہ روم چیلنج کرتا ہوں کہ آپ ایک رات اس اسپتال میں اسرائیل کی متواتر ہولناک بمباری کے دوران بسر کریں۔‘‘ ڈاکٹر گلبرٹ نے دو ہفتے تک الشفا ہاسپٹل میں کام کرنے کے بعد اپنے گھر جاتے ہوئے برسلز میں اپنے تجربات بتائے۔

ان کا کہنا ہے یہ میرا بنیادی پیغام فلسطین کے شہریوں کے خلاف  کھلی جنگ ہے۔ انھوں نے اپنے جرأت مندانہ بیان کی صداقت میں اعداد و شمار بھی پیش کیے۔ متاثرین میں آدھی عورتیں اور بچے ہیں۔ میں نے الشفا اسپتال میں ہزاروں زخمی دیکھے جس میں صرف دو جنگجو تھے۔

اس جنگ میں، میں چوتھی بار غزہ میں تھا۔ اس کے علاوہ 2006، 2009 اور 2012 میں بمباری کے دوران وہاں تھا۔ ہر بار میں الشفا اسپتال میں تھا جو غزہ کی پٹی کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ لیکن اس بار میں نے ہمیشہ سے زیادہ شہری متاثرین اور تباہی دیکھی ہے یہ جنگی جرائم ہیں۔

ڈاکٹر گلبرٹ نے کہا ’’ہم سائنس دان ہیں، ہمیں سچ بولنا چاہیے، اسی لیے ہم زندہ ہیں۔‘‘ گوکہ گہرے غصے کو دبا نہیں سکتے جو اس سچ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ شہریوں پر بلاتخصیص بمباری صرف ISS یا بوکوحرام سے متوقع کی جاسکتی ہے جب کہ اسرائیلی فوج دنیا کی جدید ترین فوج ہے۔ اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ جنگی جرائم ہیں۔انھوں نے اپنے بیان کی تائید میں اعداد و شمار دیتے ہوئے کہا ’’غزہ کی پٹی میں 15 میں سے 13 اسپتال گولہ باری سے تباہ ہوچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 20 فیصد بستروں میں کمی ہوچکی ہے جب کہ اضافی بستروں کی ضرورت ہے۔

9 میڈیکل ایمبولنیسوں کو نقصان پہنچا ہے۔ طبی عملے کے 17 ارکان زخمی ہوئے ہیں اور 7 افراد موت کی نیند سوگئے۔ صحت کے پورے نظام کے لیے جنگ کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں یہ صرف زخمیوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ نہیں ہے۔ جون کے آخری ہفتے سے الشفا اسپتال میں صرف ایمرجنسی آپریشن ہو رہے ہیں اور دوسرے تمام جراحی کے عمل بند ہیں۔ غزہ کی پٹی پر واقع زیادہ تر پرائمری کیئر یونٹ بند پڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کے 107 ملین افراد کے لیے صحت کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے بشمول سنجیدہ نوعیت کی بیماریوں ذیابیطس، دل کی بیماریاں وغیرہ وغیرہ۔

طبی سامان کی ترسیل بہت ہی کم ہے۔ ’’جنگ سے پہلے بھی دواؤں اور طبی سامان کی ناکہ بندی کی وجہ سے بہت کمی تھی۔ الشفا اسپتال ایک طبی عجائب گھر لگتا ہے گوکہ وہاں اعلیٰ پایے کا اسٹاف موجود ہے جو کسی بھی یونیورسٹی یا اسپتال میں کام کرسکتا ہے۔ ہم نے اپنے قیام کے دوران بھی دوائیں اور طبی سامان وافر مقدار میں آتے نہیں دیکھا۔ اسرائیلی کہیں گے کیا مسئلہ ہے سارا طبی سامان تو پہنچایا جا رہا ہے جب کہ حقیقت ہے کہ یہ بہت تاخیر سے اور بہت قلیل مقدار میں پہنچ رہا ہے۔‘‘

میڈیا میں آنے سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال ہے۔ ڈاکٹر گلبرٹ نے خود تصویریں کھینچی ہیں جن سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے اور جنگ کا اصلی چہرہ سامنے ہے۔ صورت حال اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے جوکہ میڈیا میں ہمیں بتائی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس عرصے میں طبی سہولتوں کا فقدان جب کہ زخمیوں کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ دواؤں کی مسلسل ترسیل کا نہ ہونا اور طبی عملے کے کام میں رکاوٹ لوگوں کے صحت کے بنیادی حق کی نفی ہے۔ ان کے علاج کی ضرورتوں کا احترام نہ کیا جانا میرے نزدیک نسل کشی کی تعریف میں آتا ہے۔

ڈاکٹر گلبرٹ کہتے ہیں ’’اس صورت حال کے ذمے دار تنہا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نہیں ہیں بلکہ امریکا کے صدر اوباما اور یورپی یونین کی قیادت بھی ذمے دار ہے۔ گزشتہ رات فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد 1210 ہوگئی جس میں 287 بچے تھے۔ ذرا سوچیے اگر فلسطینی فوج تین ہفتے میں 1210 اسرائیلی مار دیتی تو کیا ہوتا۔ اور کیا وہ ایسا ہونے بھی دیتے؟ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ یہ فلسطینیوں کے خلاف نسلی تفریق کا نظام ہے اور یہ اس کی ایک مثال ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔

غزہ کے دوسرے اسپتالوں کی طرح الشفا اسپتال کی صورتحال بھی ڈرامائی ہے۔ جب میں پچھلے ہفتے وہاں سے نکلا تو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں مریضوں کی تعداد 160 تھی جن کی سرجری کی گئی تھی اور ہر روز ایسے مریض آتے ہیں جنھیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی ہمیں تین سرجیکل ٹیموں کے ساتھ صرف ایک مریض پر کام کرنا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کیوں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دوائیں اور طبی سامان وہاں نہیں پہنچا رہی ہے؟ وہ ہوائی راستے سے مریضوں کا انخلا کیوں نہیں کر رہے ہیں؟

ہماری حکومتیں فلسطینیوں کے دکھ درد کیوں خاموشی سے دیکھ رہی ہیں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ اسپتال حماس کا ہیڈکوارٹر تو نہیں ہے؟ کم ازکم ہم نے تو اخباروں میں یہی پڑھا تھا۔ ہم دن و رات اسی اسپتال میں ٹھہرے اور ہمیں اسپتال کے کسی بھی حصے میں آنے جانے اور لوگوں سے بات چیت کی مکمل آزادی تھی۔ ہم نے کسی جگہ کوئی مشکوک چیز نہیں دیکھی یہ صحیح ہے کہ باہر دروازوں پر پولیس تعینات ہے تاکہ مریضوں کو ایک طریقے سے ایمرجنسی روم تک پہنچا سکے لیکن میں نے اسپتال میں کسی کے ہاتھ میں بندوق نہیں دیکھی۔ یہ درست ہے کہ فلسطینی سویلین حکام وہاں جاتے ہیں کبھی وہاں کی صورت حال کا جائزہ لینے کوئی وزیر دن رات وہاں ہوتے ہیں مگر ایک فوجی ہیڈکوارٹر ؟ اگر ایسا کچھ ہے تو انھوں نے بہت کمال سے چھپایا ہوگا۔

حالانکہ ڈاکٹر گلبرٹ کو احترام سے فلسطین کا اعزازی شہری کہا جاتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ اعزاز تو فلسطین کے طبی عملے کے لیے ہے جس نے اپنی زندگی میں اتنا خون نہیں دیکھا جتنا کہ پچھلے کچھ ہفتوں میں دیکھا ہے مگر میں نے اپنی عمر میں اتنی بہادری بھی کبھی نہیں دیکھی۔ فلسطینی طبی عملہ جانفشانی ، صلاحیت اور ہمت سے ہزاروں مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ڈاکٹر گلبرٹ کے لیے فلسطین امید کی علامت ہے۔

یہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کی بات نہیں بلکہ فلسطین کے لوگوں کے خلاف جنگ ہے غزہ اپنی مزاحمت میں متحد ہے اور اپنے تمام نقصان کے باوجود مستقل مزاجی سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔آخر میں انھوں نے مطالبہ کیا ’’بمباری فوراً بند ہونی چاہیے۔ شہریوں کی جان کی حفاظت ضروری ہے اسرائیل فوری ناکہ بندی ختم کرکے بین الاقوامی انسانی قوانین کا احترام کرے اور فلسطینیوں کو برابر کے حقوق دیے جائیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔