قومی ہاکی بے بسی کی تصویر کیوں؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 17 اگست 2014
دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھنتے جا رہے ہیں۔  فوٹو : فائل

دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھنتے جا رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

 یہ 15 نومبر2010 ء کی عام سی شام تھی لیکن پاکستان ہاکی ٹیم کی ایشیائی سطح پر20 برس بعد کامیابی نے اسے خاص بنا دیا، گرین شرٹس کا ایشینز گیمزکا ٹائٹل اپنے نام کرنا تھا کہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور لوڈشیڈنگ کی ماری قوم اپنی ساری تکلیفیں اور مصیبتیں بھول کر قومی ٹیم کی خوشیوں میں شریک ہو گئی۔

اس بڑی کامیابی کا سہرا یقینی طور پر کھلاڑیوں بالخصوص گول کیپر سلمان اکبر کے سر تھا جنہوں نے فائنل مقابلے میںحریف ٹیم ملائشیا کے پنالٹی سٹروکس اپنی چھاتی پر روک کر مرجھائی ہوئی قوم کے چہروں پر خوشیاں بکھیر دیں۔ سابق کپتان کو اس کارنامے کا صلہ ہم نے یہ دیا کہ اس کے لئے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اسے بینک کی نوکری کو خیر باد کہہ کردیارغیر کی راہ لینا پڑ گئی، ان دنوں سلمان اکبر ہالینڈ میں ایک کلب کے ساتھ بلامعاوضہ لیگ ہاکی کھیلنے پر مجبور اور فارغ اوقات میں وہاں کے کلبوں کی کوچنگ کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔

ایک اور سابق قومی کپتان ریحان بٹ نے 15 برس تک اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم بلند رکھنے کیلیے سخت محنت کی، زندگی بھر کی جمع پونجی سے سیکنڈ ہینڈ کار خریدی، گاڑی میں سیر سپاٹے کی حسرت ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ اسے چور لے اڑا اور 8 ماہ کی انتھک کاوشوں اور کوششوں کے باوجود اس گاڑی کو تاحال بازیاب نہیں کرواسکا، اپنے کھیل کے ذریعے حریفوں بالخصوص بھارتی ٹیم کے لئے دہشت کی علامت سمجھا جانے والا یہ عظیم کھلاڑی ان دنوں پرانے ماڈل کی ایک موٹر سائیکل پر سفر کرنے پر مجبور ہے۔

اپنے محکمے سے جتنی تنخواہ ملتی ہے، اس سے تو بمشکل بجلی کا بل یا گھر کے دوسرے اخراجات ہی پورے ہوتے ہیں، ہر وقت اسے بچوں کی فیسیں بر وقت جمع کروانے کی فکر کھائے رہتی ہے۔ گول کیپر قاسم کھیل کے دوران چھاتی پر گیند لگنے کی وجہ سے زخمی ہوا، بروقت مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرض بگڑ کر کینسر کی شکل اختیار کر گیا اور وہ غربت اورمرض سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا۔ اولمپئنز کی بڑی تعداد سمیت سینکڑوں انٹرنیشنل کھلاڑی پیدا کرنے والا گوجرہ کا استاد روڈا بھی مفلسی اور بے بسی کی حالت میں بیماری سے لڑنے کے بعد منوں مٹی تلے دفن ہو گیا۔اس جیسے نہ جانے اور کتنے کھلاڑی ہیں جو انٹرنیشنل ہاکی کو خیر باد کہنے کے بعد بیماری اور فاقوں سے تنگ آ کر دنیا کا یہ بھرا میلہ چھوڑ گئے۔

ان پلیئرز کا قصور صرف اور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانی قومی کھیل کی خدمت اور عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے گزاری، ان کا یا ان جیسے اور کھلاڑیوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے وزیروں، مشیروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹوں کی خوشامد اور چاپلوسی سے اپنے جائزو ناجائز کام نکلوا کر معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، کسی انقلاب اور آزادی مارچ یا انتخابی جلسے جلسوں میں شریک ہو کر سیاستدانوں کے حق میں نعرے نہیں لگائے۔ اب غربت، بھوک، مفلسی، بے بسی ان کا مقدر ہے۔

چلو! یہ تو سابق کھلاڑی ہیں، جنہوں نے عالمی میدانوں میں اپنا کردار ادا کیا اور چلے گئے، اس لئے روز جینا روز مرنا تو ان کے مقدر میں ہے۔اب پاکستان ہاکی ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کی بھی بات کر لیتے ہیں، قومی ٹیم میں چند ہی خوش قسمت پلیئر ایسے ہیں جو سرکاری محکموں میں مستقل بنیادوں پر نوکریاں کر رہے ہیں جبکہ سابق کپتان اور موجودہ ٹیم کے سینئر کھلاڑی شکیل عباسی سمیت متعدد مختلف ڈیپارٹمنٹس میں عارضی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں، اور ان کو محکموں سے جتنی تنخواہیں ملتی ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ پیسے تو ہمارے ملک میں ریڑھی لگانے یا چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے کما لیتے ہیں۔ عبدالحسیم خان ٹیم کا اہم رکن ہونے کے باوجود بے روزگاری کی زندگی اس لئے گزار رہے ہیں کہ ان کے محکمے پورٹ قاسم نے انہیں ترقی دینے کی بجائے تنخواہ میں کمی کر کے نوکری جاری رکھنے کی شرط رکھ دی تھی۔ سابق صدر پی ایچ ایف قاسم ضیاء کے دور میں پہلی بار کھلاڑیوں کو سنٹرل کنٹریکٹ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

فیڈریشن کی جانب سے اچانک مراعات ملنے کے بعد پلیئرز کی زندگی میں بھی بہتری کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے تھے لیکن یہ سلسلہ بھی گزشتہ 20 ماہ سے بند پڑا ہے، وجہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خزانے کا خالی ہونا ہے، عہدیدار حکومت سے فنڈز کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود فیڈریشن کو وفاقی حکومت سے وعدوں اور تسلیوں کے سوا کچھ نہیں مل سکا ہے۔ پی ایچ ایف نے حکومت سے مختلف سرکاری محکموں میں سپورٹس بنیادوں پر نوکریاں دینے کا مطالبہ کیا جس کا الٹا اثر یہ ہوا ہے کہ محکموں نے سپورٹس کے شعبے ہی بند کر دیئے ہیں یا مزید کھلاڑیوں کی بھرتی پر پابندی عائد کر دی۔

اس رجحان کی وجہ سے پلیئرز دھڑا دھڑ فارغ ہوکر گھر بیٹھ گئے اور مزید بھی ہونگے، ان محکموں میں پولیس، کسٹم، حبیب بینک، الائیڈ بینک اور پی ٹی سی ایل قابل ذکر ہیں۔ پاکستان سنیئر اور جونیئر ٹیموں کا حصہ بننے والے بہت سے کھلاڑی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر قومی کھیل کی طرف آئے، موجودہ صورت حال کے بعد اب وہ ادھر کے رہے ہیں اور نہ ہی ادھر کے ہیں۔ طعنے، رسوائیاں اور تاریکیاں ان کا مقدر بنتی نظر آرہی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کے لیے نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، رانا مجاہد علی، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید،آصف باجوہ، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، دانش کلیم سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے ذاتی معاشی حالات کو استحکام دیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔

وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل  سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب  حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے۔

کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں، دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھنتے جا رہے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ سے محروم ہونے کے بعد عالمی رینکنگ میں ابتدائی 10 پوزیشنوں سے بھی باہر ہو گئی ہے، اب اگر حالات جوں کے توں رہے تو وہ دن بھی دورنہیں جب لوگ یہ کہیں گے کہ دنیا بھر کو ہاکی سکھانے والے پاکستان کی اس کھیل میں اپنی کوئی شناخت بھی باقی ہے یا نہیں۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔