دہشت گردی کا خاتمہ اولین ترجیح ہونی چاہیے

ایڈیٹوریل  پير 18 اگست 2014
دہشت گردی کے باعث عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج متاثر ہوا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔  فوٹو: اے ایف پی/ فائل

دہشت گردی کے باعث عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج متاثر ہوا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہفتے کو سمنگلی اور خالد ایئربیس پر فوجی اہلکاروں، پاک فضائیہ، ایف سی اور پولیس کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے چھٹکارے کے لیے مشترکہ قومی سوچ کی ضرورت ہے، پوری قوم نے دہشت گردی کو مسترد کر دیا، وہ تمام دہشت گردوں سے نجات چاہتی ہے، قوم اور سیکیورٹی فورسز مل کر اس لعنت کا خاتمہ کریں گے اور بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں میں پائیدار امن کو یقینی بنائیں گے۔

چودہ اگست کی رات دہشت گردوں نے کوئٹہ میں سمنگلی ایئربیس اور خالد ایئربیس پر حملہ کر دیا تھا، سیکیورٹی ہائی الرٹ ہونے کی وجہ سے وہ ائیر بیس میں داخل نہیں ہو سکے تھے۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے 11 دہشت گرد مارے گئے جب کہ تین کو گرفتار کر لیا گیا، اس مقابلے میں چودہ سیکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سمنگلی ایئربیس اور الخالد ایوی ایشن بیس کے دورے کے موقعے پر حملہ ناکام بنانے والے سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو شاباش دی اور ان کی کارکردگی کی تعریف کی۔

فوج نے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے جس طرح دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچایا ، پوری قوم نے اس پر سکون کا سانس لیا ہے۔ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا آخری محفوظ اور مضبوط گڑھ تھا، یہ علاقہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد دہشت گرد مختلف علاقوں میں فرار ہو گئے ہیں۔کوئٹہ میں ائیر بیس پر حملہ آپریشن ضرب عضب کا ردعمل ہے، تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ یہ حملہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دہشت گرد اب بلوچستان کے مختلف علاقوں کو اپنی پناہ گاہ بنا رہے اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔

حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو اس مسئلے کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے کہ اگر دہشت گردوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں پھیل کر اپنی کارروائیاں شروع کر دیں تو اس سے بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ معاملہ شدت اختیار کر جائے، اس پر قابو پانے کے لیے ابھی سے کوئی لائحہ عمل طے کر لیا جانا چاہیے۔ متعدد بار یہ اطلاعات بھی منظر عام پر آ چکی ہیں کہ ملک میں موجود دہشت گردوں اور مختلف مسلح تنظیموں کے درمیان باہمی رابطے موجود ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے وہ ایک دوسرے سے معاونت کرتے ہیں۔

حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بار اس امر کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطے کا مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔ کوئٹہ میں ایئربیسز پر حملے سے دہشت گردوں نے اپنے وجود کی موجودگی کا واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ آپریشن ضرب عضب سے تتربتر تو ہو گئے ہیں مگر اب بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ حکومت بلوچستان سمیت ملک بھر میں مربوط انٹیلی جنس شیئرنگ کا نظام فی الفور تشکیل دے تاکہ دہشت گردی کی کسی کارروائی کو پہلے ہی ہلے میں ناکام بنایا جاسکے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ دہشت گردی سے چھٹکارا پانے کے لیے مشترکہ قومی سوچ کی ضرورت ہے۔ جب تک سیکیورٹی اداروں کو عوام کا اعتماد اور تعاون حاصل نہ ہو وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دہشت گردی کسی ایک گروہ کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پوری قوم متاثر ہو رہی ہے۔ اس لیے اس ناسور کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحد ہو جائیں اور گراس روٹ لیول پر عوام کو بھی متحرک کریں۔ اگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اس مسئلے کو معمولی سمجھتے ہوئے نظرانداز کیا تو یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو گا اور مستقبل میں ملکی بقاء اور سلامتی کے لیے بدستور خطرے کی صورت میں موجود رہے گا۔

دوسری جانب حکومت پر بھی یہ لازم آتا ہے کہ وہ اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے عوامی سطح پر بھرپور مہم چلائے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی تربیت جس انداز میں ہوئی ہے وہ دہشت گردوں کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس لیے دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے پولیس کو جدید ہتھیاروں اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہو گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاک فوج بلوچستان میں امن و امان یقینی بنانے، ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت بڑھانے میں زیادہ سے زیادہ تعاون جاری رکھے گی جب کہ فوج نے پولیس کو تربیت اور اسلحہ فراہم کیا ہے۔

دہشت گردی کے باعث عالمی سطح پر بھی پاکستان کا امیج متاثر ہوا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ملکی سرمایہ کار تو ایک طرف، غیرملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ حکومت بھی کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پوری طرح مستعد ہے اور وہ اس مسئلے پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ جب تک دہشت گردی کا خطرہ موجود رہے گا، ملک میں ترقی اور خوشحالی کا کوئی منصوبہ بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردوں کو کون سی قوتیں مالی اور اسلحی طاقت فراہم کر رہی ہیں ان پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ جب تک دہشت گردوں کو اندرون یا بیرون ملک مدد ملتی رہے گی، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔