تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پُرزے

انتظار حسین  پير 18 اگست 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

14 اگست کی تاریخ نے اب کے عجب گل کھلایا۔ ہر سال آتی تھی، لوگ اپنے اپنے انداز سے اس تاریخ کو یوم آزادی کے طور پر مناتے تھے۔ سرکاری تقاریب اپنی جگہ، نوجوانوں کا ہلہ گلا اپنی جگہ، اسکوٹروں کی ایک فوج ظفر موج شہر کی نمایاں شاہراہوں پر، یعنی مال روڈ پر، کنال روڈ پر، جیل روڈ پر ایسی ساری سڑکوں پر یہاں سے وہاں تک رواں دواں اسکوٹر قطار اندر قطار موٹر سوار موج در موج۔ ان سے بڑھ کر ان کے ہارن کی پوں پوں۔ اتنا شور جیسے آج کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ پس یاران شہر نے خوشی کی تقریب منانے کا یہی طور نکالا تھا۔

مگر اس 14 اگست کو یار ڈھونڈتے پھرے۔ اس کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا۔ 14 اگست اس برس کچھ اور ہی رنگ سے اپنی نمود مانگ رہی تھی۔ نمودار ہونے سے پہلے وہ ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکی تھی۔ عمران خان کا آزادی مارچ اس سے بڑھ کر ڈاکٹر طاہر القادری کا سمندِ انقلاب؂

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

قیامت۔ قیامت۔ قیامت لاہور سے طوفان امنڈے گا اور اسلام آباد میں جا کر پھٹ پڑے گا۔ جو راہ میں آئے گا پِس جائے گا۔ جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی۔ اور تاج گرائے جائیں گے۔

جوں جوں 14 اگست کی تاریخ قریب آ رہی تھی، عوام و خواص کے دل دھڑ دھڑ کر رہے تھے۔ یا الٰہی خیر کیجیو۔ کیا ہونے والا ہے۔ قیامت۔ اور پھر قیامت۔ دو تو چون کے بھی برے ہوتے ہیں اور یہ تو دو قیامتیں ہیں۔ یک نہ شد دو شد۔

لیجیے آخر 14 اگست کی صبح بھی نمودار ہو گئی۔ اسلام آباد شہر لرزہ بر اندام ہے؂

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے

رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے

قیامت کی آمد کا انتظار بھی ہے اور قیامت کی آمد کے خیال سے دل اندر ہی اندر تھر تھر کانپ بھی رہے ہیں۔ سمجھ لیجیے کچھ ایسے ہی عالم میں؂

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

قیامت تھی کہ نمودار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ صبح سے شام ہوئی، شام سے پچھلا پہرا۔ کمبخت قیامت کب آئے گی۔

کونسی وادی میں ہے کونسی منزل میں ہے

عشق بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں

پوری رات انتظار میں گزر گئی اور عشق بلاخیز کا قافلہ رستے میں جانے کہاں پھنس گیا۔
دوسرا بولا کہ ’’یار یہ تو ویٹنگ فار گوڈو‘‘ والا ڈرامہ بنتا جا رہا ہے۔ ہم عمران خان کا انتظار کر رہے ہیں یا گوڈو کا انتظار کر رہے ہیں۔

اگلا دن جمعے کا تھا۔ انتظار کرتے کرتے کتنوں نے ٹی وی کو بند کیا۔ جلدی جلدی وضو کیا اور مسجد کی طرف دوڑے چلے گئے۔ آخر جمعۃ المبارک کی نماز بھی تو ضروری تھی۔

جمعے کے بعد عصر، عصر کے بعد مغرب، انتظار کی گھڑیاں لمبی کھنچتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ رات گئے کسی وقت یہ قافلۂ سخت جاں اسلام آباد میں پہنچا۔ راستے میں تھوڑا اینٹ کھڑکا ہوا تھا۔ اس سے آس بندھی تھی کہ اب کوئی طوفان اٹھے گا۔ مگر جلد ہی تھوڑی پکڑ دھکڑ۔ اور پھر بیچ بچاؤ۔ خیریت سے اسلام آباد پہنچ گئے۔ مگر لمبے انتظار نے یاروں کو اتنا تھکا دیا تھا کہ جب انھیں آمد کی خبر سنائی گئی تو انھوں نے آنکھیں کھولیں۔ سنا۔ اور پھر آنکھیں بند کر لیں اور پھر خراٹے لینے لگے۔

لمبا انتظار اچھے اچھے ڈرامے کو لے بیٹھتا ہے۔ یا پھر ڈرامے کا موضوع ہی انتظار ہو۔ لو جس فرانسیسی ڈرامے کا ہم نے حوالے دیا اس میں یہی تو ہے کہ گوڈو کا انتظار کیا جا رہا ہے اور گوڈو نہ اب آتا ہے نہ تب آتا ہے۔

خیر اسلام آباد میں جس گوڈو کا انتظار کیا جا رہا تھا وہ آن پہنچا تھا۔ مگر وہ خود آن پہنچا۔ قیامت کو ہمرکاب آنا تھا وہ کہاں رہ گئی۔ تو وہ جو خبر گرم تھی کہ بس دیکھنا غالبؔ کے پرزے اڑیں گے۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس یہ حساب لگایا جا رہا ہے کہ کہاں بیٹھ کر دھرنا دینا ہے اور کہاں جلسہ کرنا ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ کہانی لمبی چلے گی۔ یہ ذکر ہو رہا تھا کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ ارے وہاں سرفراز نے سینچری بنا لی۔

’’اچھا۔ کمال ہو گیا‘‘ بس اسی کے ساتھ چینل بدلا اور میچ دیکھنا شروع کر دیا۔ تو اب شوق اور تجسس دو طرفہ ہے۔ بار بار چینل بدل کر دیکھا جا رہا ہے کہ ادھر کچھ ہوا۔ ٹی وی کمنٹیٹر اپنی طرف سے بہت زور لگا رہی ہے کہ دم دم کی خبر اس طرح سنائی جائے کہ اس سے کوئی ڈرامائی صورت حال ہوتی نظر آئے۔ مگر ادھر سرفراز کریز پر جما کھڑا ہے اور آہستگی سے رن بناتا چلا جا رہا ہے۔

اس کے سوا بھی دھیان بٹنے کے سامان پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بارش کے آثار ہیں۔ ارے کچھ آموں کا بھی انتظام کرو۔ ایسے عالم میں کہ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہو اور دم دم کی خبر سنائی جا رہی ہو۔ سو اب کچھ ہوا، اب قیامت اٹھی۔ اور قیامت جُل دے جائے تو پھر ڈرامے میں دلچسپی کتنی دیر برقرار رہ سکتی ہے۔

تو صورت حال یہ ہے کہ قیامت کا انتظار بہت کیا وہ تو نہیں آئی۔ غالبؔ کے پرزے ابھی تک تو اُڑے نہیں ہیں۔ آیندہ کی خبر نہیں۔ تو بس اب یہ تو معمول کا سیاسی عمل ہے۔ مذاکرات ہوں گے ہوتے چلے جائیں گے۔ سو طرح کے پیچ بیچ میں پڑیں گے۔

استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ادھر سے واقعی استعفا آ جائے تو کتنا بڑا دھماکا ہو۔ مگر اس کے امکانات کتنے ہیں۔ کہاں وہ شورا شوری، کہاں یہ بے نمکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔