جمہوریت بچاؤ، پاکستان بچاؤ

مقتدا منصور  پير 18 اگست 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جمعے کی شب جب یہ اظہار یہ لکھنے بیٹھا تو اس وقت عمران خان کا آزادی اور علامہ قادری کا انقلاب مارچ راولپنڈی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ دوپہر کے وقت عمران خان کے جلوس کے گجرانوالہ سے نکلتے وقت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان نصف گھنٹے تک تصادم ہوا۔ لیکن دونوں جانب سے دور اندیشی، تحمل اور برداشت کے مظاہرے کے نتیجے میں بڑا تصادم ٹل گیا۔

اس سے قبل پنجاب حکومت کسی بھی طور علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک کو لانگ مارچ کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے پس پردہ کوششیں کیں۔ بالآخر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے وفاقی حکومت اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے گورنر پنجاب چوہدری سرور سے رابطے کے نتیجے میں عوامی تحریک کو بھی اسلام آباد تک جانے کی اجازت مل گئی۔ یوں یہ دونوں جلوس ایک مختصر وقفے سے روانہ ہوئے۔

اس وقت سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت دونوں جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ٹیمیں تشکیل دے، تاکہ اس امڈتے طوفان کو کنٹرول کر کے جمہوری عمل کے تسلسل کو جاری رکھا جا سکے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اس سلسلے میں سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جس روز یہ اظہارئیہ شایع ہوگا، معاملات خاصی حد تک بہتری کی طرف جا چکے ہوں گے، بشرطیکہ کوئی انہونا واقعہ رونماء نہیں ہو گیا۔ لیکن پیدا ہونے والی اس نازک اور حساس صورتحال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اول، اس صورتحال کا فائدہ کن اندرونی و بیرونی قوتوں کو پہنچے گا؟ دوئم، ملک میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہو گا؟ سوئم، اس صورتحال کے نتیجے میں ملک کا آیندہ سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟

اب جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بعض بین الاقوامی قوتیں مشرقِ وسطیٰ اور وسطِ ایشیاء میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان میں سیاسی انتشار (Chaos) کو ہوا دینا چاہتی ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ خطے کے معاملات میں کمزور پوزیشن کے باعث پاکستان کی ان قوتوں کے من مانے فیصلوں میں رکاوٹ نہیں بن پائے گا۔ دوسرے پاکستان کی کمزور معیشت خطے میں اس کے فیصلہ کن کردار میں مانع ہے۔ جب کہ خطے کی بعض دیگر قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہو۔ کیونکہ اس کے اثرات پورے خطے کی سیاست پر مرتب ہوں گے اور جنوبی ایشیاء کا ترقیاتی ایجنڈا متاثر ہو سکتا ہے۔

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو حالات جس سمت میں رواں دواں ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں بعض سیاسی قوتیں دانستہ جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ سیاست و صحافت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر میرا خدشہ یہ ہے کہ اس قسم کے رجحانات پاکستان میں نظم حکمرانی(Governance System) کو بری طرح متاثر کر کے اسے مستقبل میں ناقابل حکمرانی (Ungovernable) بنانے کا موجب بن سکتے ہیں۔ جس کے قومی وحدت پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ67 برس گزر جانے کے باوجود پاکستانیت کی بنیاد پر قومی تشخص کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی عملی کوشش نہیں کی جا سکی ہے۔ جس کے باعث قومیتی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مسلکی تقسیم ہر آنے والے دن مزید گہری ہوئی ہے۔

تیسرا سوال کا جائزہ لیں تو دو باتیں سامنے آتی ہیں:

اول: اگر اسلام آباد میں تناؤ بڑھتا ہے اور فریقین کسی قابل عمل فارمولے پر متفق نہیں ہوتے تو جمہوری نظام کا لپیٹے جانے کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ بات ہر ایک کے ذہن میں رہنا چاہیے کہ بدامنی یعنی Chaos کی صورتحال کسی بھی ریاستی ادارے کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی اور وہ اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ماورائے آئین اقدام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ بحران جس قدر جلد ہو سکے حل ہو جانا چاہیے اور کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر عمل ہونا چاہیے۔

دوئم: غیر ریاستی عناصر اس بدامنی اور انتشار کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملک میں عراق جیسی صورتحال پیدا ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس بحران سے نمٹنے کے لیے فریقین کو لچک دار رویہ اختیار کرنا ہو گا، جب کہ دیگر جماعتوں کو فعالیت کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور فریقین پر کسی کلیے پر متفق ہونے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالنا ہو گا۔

میں نے ایک سے زائد مرتبہ انھی صفحات پر لکھا ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی جانب سے پیش کردہ مطالبات اپنے اندر وزن رکھتے ہیں، مگر جو راستہ انھوں نے اختیار کیا ہے، وہ یقینی طور پر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی، انتخابی عمل میں اصلاحات، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، نادرا میں ایک غیر جانبدار اور پیشہ ور مہارت کے حامل شخص کی تقرری اور پورے ملک میں مقامی حکومتوں کا یکساں نظام اور اس کے تحت اسی سال انتخابات ایسے مطالبات ہیں، جن پر حکومت کے ساتھ گفت و شنید ممکن ہے لیکن وزیر اعظم سے مستعفی ہونے یا اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ غیر جمہوری کے علاوہ غیر فطری بھی ہے۔ اس لیے یہ کسی بھی طور قابل عمل نہیں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ روایت پڑ گئی تو ہر گروہ یا سیاسی جماعت جب چاہے چند ہزار افراد کے ساتھ وفاقی یا صوبائی دارالحکومت کا گھیراؤ کر کے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ سے مدت کی تکمیل سے قبل مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ایسے مطالبات سے گریز ضروری ہے۔

میں پھر وہی سوال دہراؤں گا جو 14 اگست کے اظہاریے میں اٹھایا تھا یعنی کہ اگر عمران خان اور علامہ قادری موجودہ حکومت کو ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا عمران خان نے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے کہ ان کی تجویز کردہ ٹیکنوکریٹ حکومت ان اہداف کو پورا کر سکے گی جو ان کے اور ان کی جماعت کا مطمع نظر ہیں۔ پھر کیا انھوں نے اس سوال پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ نئی قائم ہونے والی حکومت کی مانیٹرنگ کا Modus Operandi کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ الیکشن کمیشن کی تنظیم نو اور انتخابی اصلاحات کے لیے کون سا فورم استعمال کیا جائے گا؟ کیا اس سلسلے میں فوج یا پھر سول بیوروکریسی سے مدد لی جائے؟

اگر ایسا ہوا تو کیا عوام کو ایسا کوئی الیکشن کمیشن یا انتخابی اصلاحات قابل قبول ہوں گی؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستانی عوام نے آمروں کی جانب سے متعارف کردہ بعض انتہائی عمدہ فیصلے محض اس لیے رد کر دیے، کیونکہ یہ کسی عوامی فورم (پارلیمان) سے منظور ہو کر نہیں آئے تھے۔ جب کہ منتخب پارلیمان کے منظور کردہ بعض غلط فیصلوں کی کھلے دل سے توثیق کی۔ یہ طے ہے کہ جلسے اور جلوسوں کے ذریعے حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنا جمہوری عمل کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اس عمل کو ایک حدود کے اندر رہنا چاہیے اور گفت و شنید اور ڈائیلاگ کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ غیر لچک دار رویے، انا اور ہٹ دھرمی غیر جمہوری ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی مزید فعالیت کا مظاہرہ کریں اور فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو پر آمادہ کریں۔ تا کہ اسلام آباد آنے والے عزت کے ساتھ واپس جا سکیں، جب کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ مختلف محکموں کی تقرریوں میں اقربا پروری کے بجائے میرٹ کو فوقیت دے۔ NADRA کے لیے نئے اور غیر جانبدار چیئرمین کی فوری تقرری عمل میں لائی جائے۔ انتخابی عمل کی اصلاحات کے لیے قائم کمیٹی کو مزید فعال کیا جائے اور اسے مخصوص مدت کے دوران اپنی تجاویز پیش کرنے کا پابند بنایا جائے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو کا متفقہ فارمولا ترتیب دیا جائے اور کمیشن میں صرف عدلیہ پر انحصار کرنے کے بجائے اچھی شہرت کے بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس کو بھی آزمایا جائے۔ پورے ملک میں یکساں مقامی حکومتی نظام کے نفاذ کے لیے چاروں صوبوں کے وزیر بلدیات پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا جائے جو 30 دن میں مقامی حکومت کا مسودہ تیار کر کے دیں، تا کہ اس سال کے اختتام سے پہلے مقامی حکومتی نظام پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ ہو سکے۔ حکومت کا دباؤ کے تحت خاتمہ اس ملک کی بہت بڑی بدنصیبی ہو گی۔ لہٰذا اس ملک کے تمام شراکت داروں بشمول سیاسی جماعتوں کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ پاکستان کو بچانے کے لیے جمہوریت کو بچانا نہایت ضروری ہو چکا ہے اور اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔