فیصلہ کن مرحلہ

ظہیر اختر بیدری  پير 18 اگست 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں جمہوریت کا آغاز قیام پاکستان کے 22 سال بعد اس وقت ہوا جب 1970 میں پہلے عام انتخابات کرائے گئے اگرچہ یہ انتخابات یحییٰ خان کے مارشل لائی دور میں ہوئے لیکن یہ انتخابات بڑی حد تک دھاندلیوں سے پاک سمجھے جاتے تھے۔

البتہ ان انتخابات کا ایک المیہ یہ تھا کہ ملک 1971 میں دو لخت ہوگیا اس کا دوسرا المیہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب کی عوامی جمہوریت آہستہ آہستہ وڈیرہ شاہی جمہوریت میں بدل گئی اس کے بعد جتنی جمہوری حکومتیں وجود میں آئیں وہ اس حوالے سے متنازعہ رہیں کہ اہل سیاست اہل دانش کا ایک حلقہ ان جمہوریتوں کو وڈیرہ شاہی جمہوریت کا تسلسل کہتا رہا اور دوسرا حلقہ اس جمہوریت کو پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دے کر اس کی حفاظت کی تلقین کرتا رہا۔

جمہوریت کے حوالے سے یہ تقسیم عموماً نظریاتی رہی لیکن یہ تقسیم اس وقت نظریاتی کشمکش سے آگے بڑھ کر سیاسی محاذ آرائی میں بدل گئی جب 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہر سیاسی جماعت نے کرنی شروع کی۔ تحریک انصاف کے رہنما کو اس حوالے سے سب سے زیادہ شکایت رہی اور اس کے ازالے کے لیے عمران خان نے پنجاب کے چار حلقوں میں ازسرنو ووٹوں کی گنتی اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ (ن) لیگ کی حکومت نے عمران خان کے اس مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

اسی دوران پاکستان عوامی تحریک کے رہنما علامہ طاہر القادری نے اس جمہوریت کو فراڈ جمہوریت قرار دے کر اس پورے نظام کی تبدیلی کا مطالبہ شروع کیا اور اس کے خلاف تحریک کے آغاز کے لیے منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ میں بڑی تعداد میں کارکن جمع کر لیے قادری کے اس خطرے کو گربہ کشتن روز اول کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے حکومت پنجاب نے منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ پر پولیس کے ذریعے اس بہیمانہ انداز میں گولیاں چلوا دیں کہ اس سانحے میں 14 کارکن جاں بحق ہوگئے اور 100 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔

پنجاب حکومت کے اس عاقبت نااندیشانہ اقدام نے جہاں منہاج القرآن کو چراغ پا کر دیا وہیں عمران خان بھی میدان میں نکل آئے اور (ن) لیگ کی انتخابی دھاندلی کے خلاف لاہور سے آزادی مارچ نکالنے کا اعلان کر دیا ادھر طاہر القادری نے اس فراڈ جمہوریت اور اس پورے سسٹم کے خلاف انقلابی مارچ کی کال دے دی۔ حکومت نے ان تحریکوں کی گیرائی اور گہرائی کو سمجھنے اور اس کا کوئی سیاسی حل نکالنے کے بجائے ریاستی طاقت کے ذریعے ان تحریکوں کو دبانے کی کوشش کی اور منہاج القرآن کے مزید 8 کارکن اس ریاستی طاقت کی بھینٹ چڑھ گئے۔

حکومت کے اس رویے کے خلاف عمران خان اور طاہر القادری نے 14 اگست کو آزادی مارچ اور انقلابی مارچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اور اس بات پر متفق ہو گئے کہ میاں برادران کی حکومتوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ عمران خان نے نواز شریف سے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا اور اس وقت تک حکومت سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کر دیا جب تک نواز شریف وزارت عظمیٰ سے مستعفی نہیں ہو جاتے۔

حکومت نے ان تحریکوں کو روکنے کے لیے ایسی ایسی اوچھی حرکتیں کیں کہ یہ تحریکیں کمزور ہونے کے بجائے اور مضبوط ہو گئیں۔ علامہ طاہر القادری کی جذباتی تقاریر کے خلاف حکومت نے کئی مقدمات قائم کر دیے اور طاہر القادری کو گرفتار کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

حکومت کا رویہ عمران خان کے حوالے سے کسی حد تک لچکدار رہا لیکن طاہر القادری کے حوالے سے حکومت کا رویہ بہت جارحانہ رہا۔ عمران خان نے تو بہت پہلے 14 اگست کو اسلام آباد تک آزادی مارچ کا اعلان کر دیا تھا لیکن طاہر القادری نے اپنے انقلاب مارچ کی کوئی تاریخ طے نہیں کی تھی حکومت کی احمقانہ پیش بندیوں کی وجہ طاہر القادری نے بھی 14 اگست کو انقلابی مارچ کا اعلان کر دیا یوں ان مارچوں کی طاقت میں اضافہ ہو گیا۔ حکومت نے لاہور اور اسلام آباد کی گلیوں، سڑکوں کو کنٹینرز سے بند کر دیا دفعہ 144 نافذ کر دی پٹرول اور سی این جی اسٹیشن حتیٰ کہ موبائل سروس تک بند کر دی۔

عمران خان اور طاہر القادری 14 اگست کو اسلام آباد جانے پر بضد تھے اور حکومت انھیں ریاستی طاقت کے ذریعے روکنے پر بضد تھی ایسا لگ رہا تھا کہ لاہور ہی میدان جنگ بن جائے گا کہ ’’اوپر سے‘‘ یہ انتباہ آیا کہ لاہور میں کسی قسم کے خون خرابے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ انتباہ کام کر گیا اور حکومت نے پسپائی اختیار کر لی یوں انقلاب اور آزادی ریلیاں لاہور سے اسلام آباد کے لیے نکلیں۔ راستے میں کئی جگہوں پر ان ریلیوں پر (ن) لیگ کے کارکنوں کی طرف سے پتھراؤ کیا گیا لیکن ریلیوں کے شرکا نے ان کا جواب نہیں دیا بلکہ بعض مقامات پر چھوٹے موٹے تصادم ہوئے یوں یہ ریلیاں 15 اگست کی رات کو اسلام آباد پہنچ گئیں۔

پاکستانی برانڈ میں جمہوریت کی دو حصوں میں فکری تقسیم بھٹو ہی کے دور سے شروع ہوئی تھی اب وہ ایک خطرناک قسم کے عملی حدود میں داخل ہو گئی ہے۔ سوائے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور چند چھوٹی مذہبی جماعتوں کے باقی پارلیمانی پارٹیاں جمہوریت کو کسی قیمت پر ڈی ریل نہ ہونے دینے پر اصرار کر رہی ہیں ان جماعتوں میں وہ مڈل کلاس جماعتیں بھی ہیں جنھیں اصولاً اس نام نہاد جمہوریت کے خلاف آزادی اور انقلاب مارچ کا ساتھ دینا چاہیے تھا سندھ اور بلوچستان کے مڈل کلاس قوم پرست جماعتیں بھی جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کی دہائیاں دے رہی ہیں۔ کیا یہ جماعتیں پاکستان برانڈ خاندانی جمہوریت کے اسرار و رموز سے واقف نہیں، کیا ذاتی اور جماعتی مفادات انھیں خاندانی جمہوریت کی حمایت پر اکسا رہے ہیں؟

ہر استحصالی اقتصادی نظام اپنے استحصالی کردار کی پردہ پوشی کے لیے کوئی نہ کوئی ڈھال استعمال کرتا ہے سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام اپنے آغاز کے ساتھ اپنے استحصالی کردار کو چھپانے کے لیے جس ڈھال کو استعمال کیا وہ ہے جمہوریت، ترقی یافتہ ملکوں میں تو سرمایہ دارانہ جمہوریت نے کسی نہ کسی طرح اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا اہتمام کر لیا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں نافذ جمہوریت نصف صدی کا عرصہ گزرنے کے باوجود اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے بلکہ اس حوالے سے صورتحال اس قدر بدتر ہے کہ آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور بھوک سے تنگ آئے ہوئے لوگ انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں۔

غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے قومی دولت چند خاندانوں کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے حکمران طبقات اور اس کے ہمنوا دھڑلے سے اربوں روپوں کی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر طاہر القادری اور عمران خان زرعی اصلاحات انتخابی نظام میں تبدیلی بلدیاتی انتخابات اور احتساب کے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر آ رہے ہیں تو انھیں عوام کی حمایت حاصل ہونا ایک فطری بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان اور قادری صاحب اپنے ایجنڈے پر قائم رہیں گے؟

پاکستان کے عوام 66 سال سے مسلط جعلی جمہوریت سے بیزار ہیں وہ امید کر رہے ہیں کہ عمران خان اور قادری صاحب انھیں اس جعلی جمہوریت سے نجات دلائیں گے اگر عمران خان اور قادری کسی مرحلے پر حکومت سے کوئی ڈیل کر لیتے ہیں تو عوام کی مایوسی انھیں عرب بہار کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ ریلیوں کے لاکھوں شرکا جن میں چھوٹے چھوٹے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں موسلا دھار بارش میں بھیگ رہے ہیں انھیں بیماریوں سے بچانا اور ان کے کھانے پینے کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔

قادری صاحب اور عمران خان میں اتحاد اور اعتماد اس تحریک کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرط ہے۔ دھرنا شروع ہو چکا ہے عدلیہ نے مارچ اور دھرنے کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے صورتحال بہت سنگین ہے میاں برادران کا دعویٰ ہے کہ پنجاب کے عوام ان کے ساتھ ہیں تو پھر انھیں دوبارہ انتخابات لڑنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے موجودہ سنگین صورتحال سے نکلنے کا یہی ایک آبرومندانہ طریقہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔