ایک خاص الخاص گاڑی چاہیے۔۔۔

شیریں حیدر  پير 18 اگست 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اس ملک میں اور بیرون ملک میں گاڑیاں بنانے والی جانے کتنی ہی کمپنیاں ہیں ۔۔۔ گاڑیاں بنانے والی یہ کمپنیاں customised گاڑیاں بھی بناتی ہیں، اس لیے میں نے ایک خاص گاڑی بنوانے کا مطالبہ کرنے کا سوچا ہے، اگر وہ ایسی گاڑی بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو مجھے امید ہے کہ انھیں مزید گاڑیوں کا آرڈر ملے گا۔

آپ سوچ رہے ہیں نا کہ مجھے خاص گاڑی کی ضرورت کیوں پڑگئی ہے۔۔۔ آپ کی سوچ کے سوال کا جواب ہے کہ میں ایک عام پاکستانی ہوں، اس لیے مجھے ایک خاص گاڑی کی ضرورت ہے، ہے نا مضحکہ خیز بات کہ عام آدمی اور خاص گاڑی کی ضرورت؟؟؟ جس ملک میں عام آدمی کو گاڑی میں ڈالنے کے لیے پٹرول میسر نہیں ہوتا وہاں عام آدمی کے خاص گاڑی کے مطالبے پر بھی پابندی ہونا چاہیے۔

مگر آپ بھی پاکستانی ہیں اور جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں ہر روز مظاہرے، جلوس، جلسے اور دھرنے ہوتے ہیں، گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے، لوگ اپنی گاڑیوں میں پھنس جاتے ہیں، خواہ کوئی مریض ہو یا مسافر، جان کنی میں مبتلا یا جان بچانے والا۔۔۔ کام کرنے والا یا کروانے والا، پڑھنے والا یا پڑھانے والا، مرنے والا یا پیدا ہونے والا۔۔۔ اب یہ حالات ہر روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔

اب ہمیں ان کا عادی ہو جانے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ کو ضرورت کے حساب سے لیس کرنے کی، اسی لیے میں نے بہت سوچ کر ایسی گاڑی order کرنے کا سوچا ہے کیونکہ میں نے حالیہ بحران کے دوران گھنٹوں تک خود کو سڑکوں پر بے بس اور مجبور پایا ہے۔۔۔ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ تھا، اب چونکہ ہمارے ہاں کئی قسم کے ’’ کھلاڑی‘‘ وارد ہو کر اپنی اپنی تماشہ گاہیں سجائے، کرسی کے خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ تماشہ ہر روز ہونے والا ہے۔

۔۔۔ سب سے پہلی شرط یہ کہ اس گاڑی کو بہت چھوٹا ہونا چاہیے تا کہ اگرمجھے کسی جگہ پھنس کر معلوم ہو کہ واپس مڑنا ہے تو میں اسے ٹریفک کے اژدہام سے باآسانی نکال سکوں ۔۔۔ مگر اس گاڑی کو اتنا بڑا بھی ہونا چاہیے کہ میں اس میں ہمہ وقت کئی دن کا سامان رکھ سکوں کہ معلوم نہیں کسی دن کام کے لیے بھی گھر سے نکلوں تو گھر واپس آنے کے راستے بند ہوں اور کہیں اور بسیرا کرنا پڑے۔۔۔ بڑی اور آرام دہ سیٹیں ہوں ، سامان رکھنے کو بڑی ڈگی ہو اور پٹرول کے لیے بڑی سی ٹنکی کہ معمول کا طے شدہ عام سفر جانے کب کبھی نہ ختم ہونے والا سفر بن جائے۔۔۔

گاڑی میں ہیٹر بھی ہو اور اے سی بھی مگر ان کے چلنے سے گاڑی کا پٹرول نہ ختم ہو بلکہ انھیں سولر انرجی پر ہونا چاہیے کیونکہ بسا اوقات گاڑی ایک انچ نہیں چلتی اور چلتا ہوا اے سی اور ہیٹر پٹرول کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ گاڑی میں درج ذیل اشیاء کا ہونا از حد ضروری ہے، ان سب کے استعمال کی تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں۔ فرج، استری، مائیکرو ویو اوون، چائے بنانے کی کیتلی، ٹیلی وژن، لیپ ٹاپ، ٹیلی فون چارجر، کتب اور ذاتی استعمال کی دیگر ڈھیروں اشیاء۔۔۔

گاڑی میں رات گزارنا پڑ جائے تو بستر بھی چاہیے ہوتا ہے، صبح اٹھ کر منہ ہاتھ اور دیگر ضروریات سے فارغ ہونے کا بندوبست بھی ہونا چاہیے، ناشتے اور کھانے کا سامان وافر سامان ساتھ رکھنے کی گنجائش ہو نا چاہیے۔ بچے ساتھ ہوں تو یہ ضروریات بڑھ جاتی ہیں اس کے مطابق زیادہ سے زیادہ گنجائش ہونا لازم ہے۔ گاڑی کو بلٹ، بم اور ڈنڈا پروف ہونا چاہیے کیونکہ آپ لاکھ پر امن ہوں اور بے قصور بھی مگر گولی اور ڈنڈے کی آنکھ نہیں ہوتی اور انھیں چلانے والوں کے پاس دماغ ندارد۔۔۔ گاڑی کو ہتھیاروں کے سلسلے میں خود کفیل ہونا چاہیے اور ہر طرح کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے لیس۔

ہم بے وقوف عوام ہیں مگر اتنے بھی نہیں کہ ہمارے لیڈر حضرات تو ’’ فائیو اسٹار‘‘ کنٹینرز میں سفر کریں، بیچ بیچ میں بلٹ پروف گاڑیوں میں منتقل ہو جائیں اور اپنے پر تعیش گھروں میں جا کر آرام اور ورزش کر کے تازہ دم ہو کر دوبارہ ہمارے بیچ آ جائیں اور ہمیں یہ حق بھی نہیں کہ ہم ایک ’’ فائیو اسٹار ‘‘ گاڑی کی خواہش بھی دل میں پال لیں؟؟

وہ گھٹیا کامیڈی جیسے فضول ڈارمے کرکے ہمیں بتانے کی کوشش کریں کہ ان کی جان کو کس قدر خطرہ ہے اور ہم ان پر من و عن یقین کر لیں؟؟ ہمیں سڑکوں پر لا کر وہ مرنے مارنے کی ترغیب دیں اور ہم آنکھیں بند کر کے ان کی حکم کی تعمیل کریں ؟؟ عوامی لیڈر کو عوام کی سطح پر اور عوام کے بیچ میں ہونا چاہیے نہ کہ اپنی سیکیورٹی کے حصار میں۔۔۔ جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے عام لوگوں کے بیچ اپنی جگہ بناتے ہیں، عوام ان کی حفاظت خود کرتے ہیں، ان کے کہے بغیر ہی کٹنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں !!!

کیا گاڑی ایسی تیار ہو سکتی ہے کہ جو ضرورت بننے پر کبھی کرسی بن جائے تو کبھی میز۔۔۔ کبھی صوفہ بن جائے تو کبھی پلنگ؟ کبھی وہ پھیل کر بڑی ہو جائے کہ اس میں کئی گنا گنجائش پیدا ہو جائے تو کبھی وہ سکڑ کر رکشے کے برابر ہو جائے تو اسے گاڑیوں اور بسوں کے اژدہام میں سے نکال کر لے جانا آسان ہو۔ آپ سوچ رہے ہوں گے نا کہ ایسی گاڑیاں تو صرف کارٹون فلموں میں ہی پائی جا سکتی ہیں۔۔۔ تو کیا ہوا!!!! کیا ہم سب کارٹون کہانیوں کے کردار نہیں ہیں؟؟؟ کیا ہمارے لیڈرکارٹون کرداروں سے کم مزاحیہ باتیں اور حرکتیں کرتے ہیں، کیا انھوں نے ہم سب کو، اس ملک کے سادہ لوح عوام کو کارٹون نہیں بنا رکھا ہے؟

جب ہم سب نے پاکستان کو کارٹونستان بنا رکھا ہے۔۔۔ اپنے اپنے مزاحیہ کردار نبھا رہے ہیں تو کیا ہوا اگر ہم ایک کارٹون نما گاڑی کی خواہش کر لیں؟؟ کارٹون فلموں کے کردار بن کر رہ گئے ہیں ہم سب لوگ۔۔۔ پہلے ہر بات پر آتی تھی، اب کسی بات پر نہیں آتی۔۔۔ ٹھیک سمجھے!!! ہنسی۔۔۔ حکمران ہوں یا ان کی مخالف جماعتیں، سب بوکھلائے ہوئے لگتے ہیں مگر غور سے دیکھیں تو سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور’’ ۔۔۔ جان دیو، ساڈی واری آن دیو !!!‘‘ گاتے ہوئے۔

وفاقی دارالحکومت میں عوام ان اجتماعات کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں اورٹیلی وژن پر چیخ چیخ کر کہا جا رہا ہے کہ گھروں سے نکلو۔۔۔ اپنے مہمانوں کی ضروریات پوری کرنے کا خیال رکھو،انھیں کھانا دو، انھیں ضروریات زندگی فراہم کرو۔۔۔ جو اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لائق نہیں کہ آپ نے سارے کاروبار زندگی کو معطل کر رکھا ہے، وہ آپ کی ضروریات کو کیا پورا کریں ؟ لیڈروں کی ضروریات اور ان کا پورا ہونا اہم ہے، عام آدمی کو آپ بھول جائیں!!!!

ایک کہتا ہے کہ فوج آئی تو تمہارا قصور ہو گا، دوسرا کہتا ہے مارشل لاء لگا تو اس کی ذمے داری تم پر ہو گی۔۔۔ تیسرا کہتا ہے کہ مارشل لاء ہماری لاشوں پر سے گزر کر آئے گا۔۔۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں سب ’’ دانا‘‘ لیڈر کہہ رہے ہیں کہ مارشل لاء آ جانا چاہیے، اسی سے سب کو safe passageمل سکتا ہے۔ یہی لوگ جو آج اپنی نااہلیوں کے باعث فوج کو دعوت دے رہے ہیں اور حالات کو اس نہج پر پہنچا رہے ہیں کہ فوج کو مداخلت کرنا پڑے، یہ وہی نادان ہیں جنہوں نے تاریخ سے کبھی سبق سیکھا اور نہ سیکھیں گے، دعوت دے کر ، چیخ چیخ کر فوج کو ملک کے انتظامی معاملات اور سیاست کے گندے تالاب میں گھسیٹتے ہیں، اس ادارے کی مٹی پلید کرتے ہیں اور کئی سال تک اسی بات کو جواز بنا کر اس ادارے کو بدنام کرنے والی باتیں کرتے ہیں۔

سادہ سا کھیل ہے مگر اسے سادہ لوگ نہیں سمجھ سکتے، بد دیانتی اور کرپشن کے ایسے کھیل اقتدار کے اونچے ایوانوں میں کھیلے جاتے ہیں، انھیں sponsor کرنے والی قوتیں ہمارے ملک سے سیکڑوں اور ہزاروں میل دور ہیں۔۔۔ عوام کو ان میں مہروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد ۔۔۔ انھیں ٹشو پیپر کی طرح dispose off کر دیا جاتا ہے۔

اس بات پر بھی بحث نہیں کہ بحث سے کچھ حاصل نہیں، فی الحال تو اس بات پر توجہ دیں کہ مجھے کس طرح کی گاڑی چاہیے کیونکہ مجھے اس ملک میں رہنا ہے جس میں سال میں میرا آدھا وقت سڑکوں پر گزرتا ہے اور باقی آدھا وقت گھر میں محصور ہو کر۔۔۔ آپ بھی پاکستان میں رہتے ہیں ناں تو آپ کو بھی ایسی ہی گاڑی چاہیے، کیا خیال ہے آپ بھی ایسی گاڑی کا آرڈر دینا چاہیں گے؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔