خواب اور انقلاب

عمر قاضی  پير 18 اگست 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

چلی کے نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا کی معصومانہ انداز سے لکھی گئی بایوگرافی The Dreamer پڑھتے ہوئے مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ ’’جو شخص خواب نہیں دیکھتا وہ انقلابی کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ کیوں کہ انقلاب سیاسی سازش کا نام نہیں ہوتا۔ انقلاب تو عوام کی عظیم بیداری کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو تاریخ کے دھارا کو تبدیل کردیتا ہے۔

ہم جب بھی کسی انقلابی کی سر گزشت پڑھتے ہیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ وہ عملی طور پر بھلے پرچم نہ لہرائے اور روڈ پر ٹائر نہ جلائے اور حکومت وقت کو پریشان نہ کرے مگر اس میں خواب دیکھنے کی صلاحیت ضرور ہونی چاہیے۔کیوں کہ جب کسی حساس شخص کے لیے اپنے ملکی حالات ناقابل برداشت بن جاتے ہیں تو وہ خوابوں میں کھوجاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ خواب پہلی بغاوت ہوا کرتے ہیں۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو روس کا عظیم مفکر اور معروف انقلابی لیون ٹراٹسکی اپنی مشہور کتاب Revolution and Literature میں یہ الفاظ کیوں لکھتا کہ ’’جب کوئی بھی معاشرہ فکری اورذہنی طور پر اتنے زوال کا شکار ہوجاتا کہ وہ بہتری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تو اس معاشرے کے ساحل پر خوابوں کے سوداگر اترتے ہیں اور وہ لوگوں کی آنکھوں میں عظیم تبدیلیوں کے خواب بھرتے ہیں۔

لوگ ان خوابوں سے اس قدر پیار کرنے لگتے ہیں کہ وہ اپنا معاشرہ اور اپنا ماحول ان خوابوں جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی جب لوگ خواب دیکھنے کے بعد ان کی تعبیروں کا پتہ پوچھتے ہیں، تب معاشرے میں وہ انقلابی جنم لیتے ہیں جنہیں خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کا آرٹ آتا ہے۔ اس طرح انقلاب کے ابتدائی مراحل شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے جس انقلاب کی بنیاد میں کوئی خواب نہ ہو وہ انقلاب ہی نہیں۔

انگریزی ادب کے رومانوی دور سے تعلق رکھنے والے شاعر اور ادیب کہا کرتے تھے کہ ’’محبت ایک انقلاب ہے‘‘ اگر ہم محبت کو سمجھنے کی کوشش کریں تب بھی ہمیں انقلاب سمجھ میں آجائے گا۔ انسان محبت کرنے سے پہلے محبت کے خواب دیکھتا ہے۔ جب کسی انسان کی عمر کا سفر اس موڑ میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اسے اپنی ذات کی تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے تب وہ اپنے ساتھی کی تمنا کرتا ہے اور محبت کی شدت سے اسے یاد کرنے لگتا ہے۔

اس کی زندگی میں پیدا ہونے والی وہ کمی خوابوں کی صورت اختیار کرتی ہے اور پھر وہ کچھ عرصہ خوابوں میں کھوئے رہنے کے بعد حقیقی زندگی میں ایسا انسان تلاش کرتا ہے جو اس کے خوابوں جیسا ہو۔ اگر ہم محبت کے بجائے دنیا میں سائنس کے کارناموں کو دیکھیں تب بھی ہمیں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ ہر سائنسی ایجاد سب سے پہلے ایک خواب ہوا کرتی ہے۔

یہ انسان کا خواب تھا کہ وہ ہواؤں میں پرندوں کی طرح پرواز کرے اور اس لیے ہوائی جہاز کی ایجاد ممکن ہوئی۔ یہ انسان کا خواب تھا کہ اسے موسم گرما میں ٹھنڈ نصیب ہو اور موسم سرما میں گرمی۔ اسی وجہ سے ایئر کنڈیشنر اور ہیٹر وجود میں آئے۔ یہ انسان کا خواب تھا کہ وہ فاصلے پر ہوتے ہوئے بھی جس سے چاہے گفتگو کرسکے اس لیے ٹیلیفون کی ایجاد ممکن ہوسکی۔

یہ دنیا خواب اور حقیقت کا سنگم ہے۔ وہ حقیقت جس کی بنیاد میں کوئی خواب نہیں اس کی کیا اہمیت؟ یہی سبب ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں انقلاب کے لیے راستہ ہموار ہونے پر اصرار ہوا کرتا ہے تو سب سے پہلے ادیبوں اور شاعروں کی ہمت افزائی کی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح لیون ٹراٹسکی نے معاشرے میں خواب دکھانے والوں کا تذکرہ کیا ہے۔ مگر ہم جس دور میں جینے کی سزا بھگت رہے ہیں وہاں انقلاب کی باتیں تو بہت ہو رہی ہیں مگر کسی خواب کا تذکرہ نہیں ہو رہا۔

وہ لوگ کیسا انقلاب لائیں گے؟ جو اپنے چہروں کو نقابوں سے چھپاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ڈنڈے لہراتے ہیں اور ریاست کو کم اور ہمیں بہت ڈراتے ہیں۔ جو ڈرائے اور جو خوف کا شکار بنائے وہ کیسا انقلابی ہے؟ وہ انقلابی نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ انقلابی تو محبت کا مبلغ ہوا کرتا ہے۔ میں جب اپنے آس پاس اور میڈیا میں انقلاب کی باتیں اور انقلاب کے نعرے لگانے والوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی خواب دیکھا ہوگا؟ کیا انھوں نے کبھی کسی سے محبت کی ہوگی؟ جو محبت نہیں کرتا وہ کیسا انقلابی ہے؟

اس سوال کا جواب ہمیں پابلو نرودا پر لکھی گئی کتاب The Dreamer میں ملے گی۔ کیوں کہ اس کتاب میں مصنف نے یہی بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ پابلو نرودا بنیادی طور پر خوابوں میں رہنے والا انسان تھا۔ اسے خوابوں سے عشق تھا۔ اور اس نے اپنے خوابوں کو قلمبند کیا تو شاعری کی شکل میں اور اس کی محبت بھری نظمیں پڑھنے کے بعد اس کے ملک چلی کے لوگوں نے ایسے معاشرے کی تعمیر کی تمنا کی جس میں انسان آزادی سے محبت کرسکے۔

اس لیے چلی میں دنیا کا پہلا پرامن اور جمہوری انقلاب آیا تھا۔ وہ انقلاب بندوق کی نالی سے نہیں بلکہ ایک شاعر کے قلم سے نکلا اور اس انقلاب نے لاطینی امریکا کو یہ یقین دلایا کہ ہم اپنی مرضی سے اور کوئی توڑ پھوڑ کیے بغیر انقلاب لاسکتے ہیں۔ اس لیے میں چلی کے انقلاب کو محبت کا انقلاب سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ وہ محبت سے آیا۔ اس انقلاب نے لوگوں کے دلوں میں جنم لیا۔ مگر ہم کسی کو کیا کہیں؟ کسی کو کس طرح سمجھائیں کہ بھائی انقلاب ڈنڈے کا نہیں بلکہ پھول کا نام ہے۔

میری شدید خواہش ہے کہ انقلاب کا نعرہ لگانے والے بھی یہ کتاب ضرور پڑھیں۔ وہ The Dreamer  کے معرفت اپنے پیش کیے جانے والے انقلاب کا ازسرنو جائزہ لیں  اور سوچیں کہ کیا انھوں نے انقلاب لانے سے پہلے لوگوں کو انقلاب برپا کرنے والے خواب دکھائے ہیں؟ کیا ان  کا انقلاب خوابوں پر بنیاد رکھتا ہے؟ کیا ان کا انقلاب محبت کی بات کرتا ہے؟ کیا ان کا انقلاب ان پسے ہوئے انسانوں کے مایوس دلوں میں امید کے چراغ روشن کرتا ہے؟ جب لوگوں کے سینے امیدوں سے منور ہوجائیں گے تب انقلاب کے حالات خود بہ خود پیدا ہونے لگیں گے۔

اس لیے انقلاب کی بات کرنے والے رہنمائوں کو پہلے اس شخص کا کردار ادا کرنا ہوگا جو گلیوں میں خواب بیچنے نکلتے ہیں اور دور دور تک صدائیں دیتے جاتے ہیں کہ ’’خواب لے لو خواب‘‘ان رہنمائوں  نے  ہم سے کبھی کسی خواب کی بات نہیں کی انھوں نے تو ڈائریکٹ انقلاب کی بات کی ہے۔ انقلاب کبھی بھی ڈائریکٹ نہیں آتا۔ انقلاب شاہراہ دستور پر چلتا ہوا نہیں آتا۔

انقلاب کا راستہ تو دلوں سے نکلتا ہے۔ جو انقلاب دلوں سے جھرنوں کی طرح نہ پھوٹے وہ انقلاب نہیں کچھ اور ہوگا۔ ہم تو صرف اس انقلاب کو جانتے اور مانتے ہیں جس کی بنیاد خوابوں پر رکھی ہو  اور وہ پرامن انداز سے حقیقت میں ڈھل جاتا ہے۔ اور بغیر کسی تشدد کے معاشرے کا موسم بدل جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔