میڈیا کی آزادی

ڈاکٹر منصور نورانی  منگل 19 اگست 2014
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

ہمارے یہاں الیکٹرانک میڈیا کواظہارِ رائے کی جو آزادی آج کل میسر ہے اُس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ  پرویز مشرف کی مرہونِ منت ہے۔ چونکہ یہ سب نئے پرائیویٹ چینلز اُنہی کے دور میں شروع کیے گئے اِسی لیے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ سب اُنہی کی سخاوت اور فیاضی کی بدولت ممکن ہوا۔

پاکستان عوامی لیگ کی سربراہ  شیخ رشید  بھی یہ کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے سے قطعاً ہچکچاتے نہیں ہیں کہ نئے نجی چینلوں کی ابتدا اُنہی کے دورِ وزارت میں ممکن ہوپائی، گویا بصورتِ دیگر یہ کام کوئی دوسرا شخص کر ہی نہیں سکتا تھا۔یہ صرف اُنہی کی فراخدلی اور کشادہ دلی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر کوئی اظہارِ رائے کی آزادی سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہے۔کوئی بھی اینکر اور کوئی بھی تبصرہ نگار جو چاہے اور جس طرح چاہے میڈیا پر آکے اپنے دل کا غبار بڑی آسانی سے دور کرسکتا ہے۔حکمرانوں کو جتنا بُرا بھلا کہنا چاہے کہہ سکتا ہے کوئی طاقت اُسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی۔

آج کی دنیا بڑی تیزی کے ساتھ سائنسی ترقی کے مراحل سے گذر رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اورآئی ٹی کی کرشمہ سازی نے ساری دنیا کو سکیڑ کر ایک گلوبل ویلج بنا کر رکھ دیا ہے۔ راکٹ ، میزائل، ڈرون طیارے، مصنوعی سیارے، کمپیوٹر اور موبائل فون سمیت بے تحاشہ ایجادیں ہر ملک اور قوم کی دسترس میں دے دی گئی ہیں۔ دنیا کے پسماندہ سے پسماندہ ملک کاایک عام شہری بھی موبائل فون کی سہولتوں سے محروم نہیں ہے۔ اِسی طرح نئے ٹی وی چینلز بھی اِسی نئے دور کی ارتقاء کا ایک مظہر ہے۔

نئے چینلز صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں آئے بلکہ یہ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں ہزاروں کی تعداد میں حالیہ چند برسوں میں یکدم شروع کیے گئے۔ہمارے یہاں تو نئے چینلز کی تعداد ابھی اتنی زیادہ بھی نہیں ہے جتنی ہماری حیثیت کے دیگر دوسرے ملکوں میں ہو چکی ہے۔سائنس اورجدید ٹیکنالوجی کی اِس برق رفتار ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اور یہ اب ممکن بھی نہیں رہا کہ کوئی ملک اِس کی سہولت اور افادیت سے محروم رہ جائے۔اِس لیے اِس کا کریڈٹ کسی ایک حکمراں کے کھاتے میں ڈالنا ہر گز مناسب نہیں ہے۔ یہ تیزی سے بدلتے جدید دور کی ایک ناگزیر تبدیلی ہے۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جب ہمارے یہاں موبائل فونز آئے تو میاں نواز شریف کا دور تھا اور جب نئے چینلوں کی ابتدا ہوئی تو  پرویز مشرف کا دور تھا۔بالکل اُسی طرح جب چاند پر انسان نے پہلا قدم رکھا تو ہمارے یہاں ایک غیر جمہوری حکمران  یحیٰی خان کا دور تھا اور امریکا میں اُس وقت رچرڈ نکسن کا دور تھا۔

چاند کی اِس خوبصورت تسخیر کو ہم اُس وقت کے امریکی حکمراں کی کامیابی سے تشبیہ نہیں دے سکتے ہیں۔اور نہ کبھی خود رچرڈ نکسن نے اِس کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی۔یہ تو امریکی ادارے ناسا کی برسہا برس کی کامیابی کا نتیجہ تھی جسے ایک نہ ایک دن پورا ہونا تھا۔ وہ چاہے کسی بھی صدر کے دور میں ہوسکتی تھی۔لہذا ہمارے یہاں وقت اور حالات کے بہاؤ میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں اُنہیں کوئی بھی حکمراں اپنی قابلیت اور اہلیت کے زمرے میں نہیں شامل کر سکتا۔

پاکستان میں ایک عرصے تک صرف سرکاری ٹی وی کی اجارہ داری  رہی ہے۔وہاں جو کچھ دِکھایا اور سنایا جاتا وہ صرف حکمرانوں کی مرضی و منشاء کے مطابق ہوا کرتا تھا ۔ اپوزیشن کی آواز کو وہاں کوئی شنوائی حاصل نہ تھی۔ جو صحافی اور تجزیہ نگارحکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا تھا اُسے وہاں بولنے کا اختیار بھی نہیں مل پاتا تھا۔آزادی اظہار جیسی صنف اور نعمت کا وہاں کوئی گذر بسر نہیں تھا۔رائے عامّہ کو اپنی مرضی سے کوئی بات کرنے کا استحقاق حاصل نہیں تھا۔

صحافیوں ،ادیبوں اور دانشوروں کی تقریباً پچاس سالہ جدوجہد کا یہ نتیجہ تھا جو پرائیویٹ چینلز کی شکل میں اُنہیں اُس وقت ملا جب ساری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا میں ایک انقلاب رونما ہو چکا  تھا۔ منہاج برنا ،نثار عثمانی، احفاظ الرحمان ، عبدالحمید حمید چھاپرہ، ضمیر نیازی اور دیگر نڈر صحافیوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔پاکستان اِس عالمی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا۔  پرویز مشرف نہ چاہتے ہوئے بھی اِس سیلاب کو نہ روک سکے اور بالآخر طوعاً وکرہاً وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوگئے۔اِن چینلوں پر سچ اور درست بات کرنے کا حق کسی نے اُنہیں اپنے طور پر خوشی سے نہیں دیا۔

یہ حق اُنہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا۔اِس جدوجہد میں اُنہوں نے سخت سزائیں بھی کاٹیں، جیلیں بھی سہیں اور کوڑے بھی کھائے۔اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے جس فکری تحریک کاآغاز ، فیض احمد فیض، آغا شورش کاشمیری اور حبیب جالب جیسے دلیر، باہمت اورپُر عزم لوگوں نے شروع کیا تھا وہ بالاخر خودمختار ٹی وی چینلوں کی خوب صورت اور حسین شکل میں ہمیں اب جا کے ملا ہے۔جناب پرویز مشرف نے تو اِس کی اجازت خوشی دلی سے ہرگز نہ دی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اُنہیں جب موقعہ ملا اُنہوں نے اُن تمام چینلز کی نشریات پر یکدم قدغن اور پابندی لگا دی جو اُن کی حکومت اور پالیسیوں پر سخت تنقید کر رہے تھے۔

3نومبر2007کو ایک نئے پی سی او کے تحت عدلیہ سمیت اِن سب نجی ٹی وی چینلز پر زباں بندی کا ایک فرمانِ امروز جاری کردیا جو حکومت کی  پالیسیوں کے خلاف تھے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں ہمارے ایک ساتھی  نے پرویز مشرف سے متعلق ایک بہت خوبصورت بات کہی کہ جب بھی میڈیا کی جانب سے اُن کے اقتدار کی قانونی اور آئینی  حیثیت(ELIGIBILITY LEGAL  )کو چیلینج کیا گیا اُن سے برداشت نہ ہوا اور اُنہوں نے میڈیا پر شبِ خون دے مارا۔لیکن جمہوری حکمراں ایسا ہرگز نہیں کیا کرتے۔سابقہ پیپلز پارٹی دور میں  آصف علی زرداری کو کیا کچھ نہیں کہا گیا۔

ٹی وی ٹاک شوز میں اُنہیں کتنا بُرا بھلا کہا گیا لیکن اُنہوں نے چُوں چرا تک نہ کی۔یہی حال آج کی ن لیگ حکومت کا ہے۔میڈیا پر اُن کے خلاف کُھل کر تنقید کی جاتی ہے اور وہ سب کچھ برداشت کرتی ہے ۔ یہی وہ واضح فرق ہے ایک غیر جمہوری حکمراں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں میں۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج کی آزادیء اظہار رائے ایک ڈکٹیٹر کا دیا ہوا تحفہ ہے تو وہ قطعاً یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں۔ نئے چینلوں کا اجراء آزادی اظہار ہرگز نہ تھی و ہ تو محض پرائیویٹ چینلز کھولنے کا ایک سرکاری اجازت نامہ تھا جو باقی دنیا کو سامنے رکھ کر مجبوراً جاری کر دیا گیا۔

آزادی کبھی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی جاتی اِس کے لیے بڑی جدوجہد اور قربانی دینا پڑتی ہے۔دانشوروں،تجزیہ نگاروں اورصحافتی برادری کو آج سچ بولنے اور سچ لکھنے کی جو کُھلی چُٹھی ملی ہوئی ہے اُس کے پیچھے اُن کے پیش روؤںکی قربانیوں کی ایک لمبی کہانی ہے۔ ہم لوگ آج جس نعمتِ مترقبہ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اُس کے اصل حق دار اور وصول کنندہ تو اُنہیں ہونا چاہیے تھا جنہوں نے اِس کے حصول اور انتظار میں اپنی عمریں اور زندگیاں گذار دیں۔ مگر افسوس کہ یہ ہو نہ سکا۔ اب یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اِس اظہارِ رائے کی آزادی کی حتی المقدور بھر پور حفاظت کریں اور کسی طالع آزما کو یہ موقعہ ہرگز نہ دیں کہ وہ پھر سے ہمارا یہ حق ہم سے چھین لے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔