خارجہ سیکریٹری بات چیت کی بحالی ناگزیر

ایڈیٹوریل  منگل 19 اگست 2014
 پاکستان کی طرف سے مسلسل کوششوں کے باوجود بھارتی موقف اور حکمت عملی کی فرسودہ برف پگھلتی نظر نہیں آتی  فوٹو: فائل

پاکستان کی طرف سے مسلسل کوششوں کے باوجود بھارتی موقف اور حکمت عملی کی فرسودہ برف پگھلتی نظر نہیں آتی فوٹو: فائل

پاک بھارت تعلقات کے معمول پر آنے کا عمل بلاشبہ تاریخی ارتقا اور سیاسی و جمہوری عمل سے مربوط ہے، تقسیم ہند کے بعد برصغیر میں حکومتوں کے عروج وزوال کی تہہ سے جڑے ہوئے وہ دیرینہ تصفیہ طلب مسائل اور بنیادی تنازعات ہیں جن کو پاک بھارت وزرائے اعظم، وزرائے خارجہ اور سیکریٹریز سطح کی ملاقاتوں کے ثمر کے طور پر بہر قیمت بریک تھرو مل جانا چاہیے تھا ،لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور بدقسمتی سے اس میں پاکستان کا کوئی دوش نہ تھا، بلکہ اس نے کھلے دل و دماغ سے بھارت کو بات چیت اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں طے کرنے کے لیے خیرسگالی کے کئی پیغام دیے، سنجیدہ بات چیت کی۔

چنانچہ کور ایشوز پر کشادہ نظری کے ساتھ مذاکرات کے لیے کثیر جہتی ایجنڈا مشترکہ طور پر تیار ہوتا تو برابری کی سطح پر دو پڑوسی ملکوں کے مابین امن ، مفاہمت اور دو طرفہ تعلقات کا نیا دور بھی شروع ہوسکتا تھا ، مگر اس باب میں پاکستان کو بھارتی رویے کے باعث بات چیت کے ہر اختتام پر گرد پس کاررواں جیسی تصویر نظر آئی ، جب کہ مل بیٹھ کر حل کی منزل تک کا سفر باہمی طور پر طے کیا جاسکتا ہے ، جنگ اور کشیدگی یا حقائق سے چشم پوشی کرکے بھارت اپنی تاریخی ذمے داریوں سے پہلو تہی نہیں کرسکتا، اسے آج نہیں تو کل بات چیت کی میز پر آکر تنازعات کا منصفانہ ، باوقار اور پائیدار حل ڈھونڈنا ہوگا۔

تاہم المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے مسلسل کوششوں کے باوجود بھارتی موقف اور حکمت عملی کی فرسودہ برف پگھلتی نظر نہیں آتی ،ایک کرن کبھی پھوٹتی ہے کہ اچانک بد مزگی، مخاصمت ،الزام اور برہمی کا کوئی دوسرا مسئلہ بیچ میں آجاتا ہے۔ پوری پاک بھارت مذاکراتی تاریخ اسی نشیب وفراز سے عبارت ہے ۔ دو طرفہ زمینی حقائق اور خطے کی اور سیاسی ، سماجی اور سفارتی حوالوں سے اس سمت میں پچھلے 67 برسوں میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ ابھی تک کھل جا سم سم کے دائرے میں گردش کررہی ہے ۔

چنانچہ حریت پسند رہنما شبیر شاہ سمیت دیگر رہنمائوں سے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی ملاقات کے بعد بھارت نے خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات ختم کرنے کا جس عجلت میں اعلان کیا ہے، اسے افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے ، تمام بھارتی میڈیا نے اس خبر کو نمایاں شایع کیا ہے، ہندوستان ٹائمز کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے بعد ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے سائیڈ لائن میں مجوزہ نواز مودی ملاقات سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

شبیر شاہ نے بھارتی اعتراض کو غیر ضروری کہا ہے جب کہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان اکبر الدین نے کہا پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت پسند رہنماؤں سے ملاقات سے کئی سوالات اٹھتے ہیں اور اس سے بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا اشارہ ملتا ہے، انھوں نے کہا کہ وزیرِ خارجہ سجاتا سنگھ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو کھلے اور واضح الفاظ میں بتایا کہ بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔

لہجے کی اس رعونت سے قطح نظر بھارتی ارباب اختیار و سفارت کاروں کو اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ ماضی میں جب بھی پاک بھارت مذاکرات ہونے کا امکان نظر آیا حریت پسند رہنمائوں سے ملاقاتیں کور ایشوز اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور سہ فریقی حل کی خواہش سے مشروط رہیں ، حریت پسند لیڈر شبیر شاہ سے عبدالباسط کی ملاقات غیر جارحانہ اور رسمی تھی، یہ کسی سازش تھیوری کا حصہ نہ تھی، بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی مطابق 25 اگست سے اسلام آباد میں شروع ہونیوالے مذاکرات منسوخ کر دیے گئے ہیںْ

اپوزیشن جماعت کانگریس نے پاکستانی ہائی کمشنر کو حریت رہنماؤں سے ملاقات کی اجازت دینے پر بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وزیر مملکت جیتندر سنگھ نے ہائی کمیشن کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان کا یہ اقدام اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، حریت لیڈر شبیر احمد شاہ کے مطابق ملاقات کا مقصد سیکریٹری خارجہ سطح کے مذاکرات سے قبل کشمیریوں کے تحفظات سے آگاہ کرنا ہے ، مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے کشمیری اس مسئلے میں اہم فریق ہیں۔

دریں اثنا بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے کہا ہے جب تک کشمیر کو بنیادی تنازعہ قرار نہیں دیا جاتا اور اسے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ، مذاکرات کے مثبت نتائج نہیں نکل سکتے، پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی منگل کو نئی دہلی میں حریت رہنمائوں میر واعظ عمرفاروق، سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ اور یاسین ملک سے مشاورت کی اطلاع بھی تھی۔

ادھر ترجمان دفتر خارجہ کہا کہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ امور نے آگاہ کیا ہے کہ بھارت کی حکومت نے ہائی کمشنرز کی کشمیری رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں پر اعتراض کرتے ہوئے طے شدہ خارجہ سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ترجمان نے اس امر کا اعادہ کیا کہ یہ دیرینہ سرگرمی ہے کہ پاک بھارت مذاکرات سے قبل مسئلہ کشمیر پر بامقصد بات چیت میں سہولت کے لیے کشمیری رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتیں کی جاتی ہیں ۔ ترجمان نے کہا کہ بھارتی فیصلہ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایہ تعلقات کے فروغ کے لیے ہماری قیادت کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے لیے ایک دھچکا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق مودی حکومت پاکستان کو انگیج رکھنے کے لیے تعلقات کو ایک خاص حد میں دیکھنے کی خواں ہے، جن میں کچھ ریڈ لائنز بھی ہیں اور پاکستانی ہائی کمشنر نے ان میں سے ایک لائن عبور کرلی، اس کے بعد بھی اخبار نے یہ شگوفہ چھوڑا کہ کشمیری لیڈروں سے بات چیت کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بات چیت  میں سنجیدہ نہیں ہے، یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔ حساسیت کا یہ عالم ہے کہ ادھر مودی حکومت نے 25 اگست کی بات چیت منسوخ کردی۔

ادھر کانگریس نے بھارتی حکومت پر پاکستان سے تعلقات استوار کرنے میں جلد بازی کا الزام عائد کردیا، پارٹی نے وزیراعظم نواز شریف کو نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے کے فیصلے پر بھی شدید تنقید کی، اور مودی سرکار کو متنبہ کیا کہ سفارتی معاملات میں کوئی ’’شارٹ کٹ ‘‘ نہیں ہوتا۔ ان ریمارکس میں کانگریس کی پاکستان دشمنی اور مسائل کے حل سے لاتعلقی اور بے نیازی کی جو جھلک ملتی ہے اس پر اظہار تاسف کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنا پاکستانی سفارت کاروں یا سیاست دانوں کے لیے جرم نہیں، وہ ایک بڑے علاقائی تنازع کے اہم اورتنازعہ کشمیر کی پوری درد انگیز کہانی سے جڑے ہوئے کردار ہیں، بھارتی حکام کو بات چیت منسوخ کرنے کے فیصلہ پر فوری نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ ستمبر 2014 میں نیو یارک میں مجوزہ نواز مودی ملاقات کا ایجنڈا وزرائے خارجہ اور خارجہ سیکریٹریزکی اسی قسم کی مثبت اور مفاہمانہ ملاقاتوں کی روشنی میں طے ہونا ہے۔

بھارتی ارباب اختیارکو پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے سیاسی ، سفارتی اور تزویراتی فکر کے نئے زاویے پیش کرنا چاہئیں، بھارتی راجیہ سبھا کے رکن جے رام رمیش نے اپنے ایک حالیہ تجزیہ میں کیا خوب کہا ہے کہ بھارت کے ٹرانفارمیشنل لیڈروں کو ان کی (لچھے دار) تقریروں کے انداز پر نہیں بلکہ ٹھوس عمل پر پرکھنا ہوگا، ایسے لیڈر نہرو نہ سہی واجپائی جتنے قد آور تو ہونے چاہئیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔