ہمارے سیاستدان

نصرت جاوید  بدھ 20 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میرے کالم کے باقاعدہ قاری عمران خان کی سیاست کے بارے میں میرے تحفظات سے خوب واقف ہیں۔ ان کے اندازِ سیاست کا ناقدانہ انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے بے ساختگی میں اکثر مجھ سے ایسے فقرے بھی لکھے جاتے ہیں جنھیں جگت یا پھکڑ پن قرار دیا جا سکتا ہے۔

ان سب باتوں کا اعتراف کرنے کے باوجود میں تحریک انصاف کے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے منطقی نتائج رونما ہونے کے بعد سے شدید اداس ہو گیا ہوں۔ کاش یوں نہ ہوتا والا وسوسہ میری جان ہی نہیں چھوڑ رہا۔ اس وسوسے سے جان چھڑانے کے لیے میں نے بڑے جتن کیے ہیں۔ گھنٹوں اسلام آباد کی ویران سڑکوں پر رات گئے تک پیدل چلتا رہا۔ اپنے پسندیدہ Woody Allen کی بنائی فلمیں دیکھتے ہوئے دھیان دوسری طرف لگانے کی کوششیں بھی کیں۔ موسیقی بھی ٹرائی کی مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔

مئی 2013کے انتخابات کے فوراََ بعد میں نے جو کالم لکھے ان کے ذریعے میں نے بڑے خلوص سے اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان ایک بڑی کرشماتی شخصیت کے ساتھ اُبھرے ہیں۔ بھٹو صاحب نے بنیادی طور پر معاشی حوالوں سے بہت ہی کمزور اور صدیوں سے جی حضوری کی غلامی میں جکڑے ہوئے طبقات کو زبان دی۔ انھیں متحرک کیا اور بالادست طبقات کے سامنے سر بلند کرنے کا حوصلہ بخشا۔

عمران خان کو اس حوالے سے میں بھٹو صاحب سے بھی تھوڑا زیادہ Admire کرنا شروع ہو گیا کہ انھوں نے ہمارے شہروں کی اس پڑھی لکھی کلاس کو متحرک کیا جو عادتاََ سیاست کو ایک گھٹیا کام سمجھتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے یہ ذہین لوگ اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ انھیں جلسے جلوسوں میں عام آدمیوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے گھن آتی تھی مگر وہ عمران خان کو اقتدار دلوانے کے لیے کچھ بھی کرنے کے جنون میں مبتلا ہوگئے۔

ایسے افراد سے کہیں زیادہ متاثر کن حقیقت یہ بھی تھی کہ تحریک انصاف کی صفوں میں ایسی عورتیں اور بچیاں بھی بہت نمایاں نظر آئیں جنھیں سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ ذہین مگر سیاسی حوالوں سے معصوم لوگ عمران خان کو بڑی شدت سے اُمید کی علامت سمجھتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ کرکٹ کی دُنیا کا یہ شاندار کھلاڑی مالی حوالوں سے بدنیت اور بدعنوان نہیں ہے۔ اس نے تن تنہاء جھولی پھیلا کر شوکت خانم اسپتال جیسا محیر العقول ادارہ کھڑا کیا۔

اسے اگر پاکستان میں اقتدار و اختیار مل گیا تو وہ یہاں تبدیلی لائے گا۔ ملک کو ایسی راہ پر ڈالے گا جہاں بالآخر غیر ملکی ایئرپورٹس کے امیگریشن حکام کے سامنے پاکستانی بڑے فخر سے اپنے پاسپورٹ پیش کر سکیں گے۔ میں اس بحث میں اپنا اور آپ کا وقت ضایع کرنے کو ہرگز تیار نہیں کہ عمران خان سے 2013 کا الیکشن چرایا گیا یا نہیں۔

حقیقت جو بھی رہی ہو انتخابی نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف عوامی ووٹوں کے حوالے سے ملک کی دوسری بڑی جماعت بن گئی ہے۔ اس جماعت نے خیبرپختون خوا کے نوجوانوں کو روایتی سیاست دانوں کے مقابلے میں ایک صحت مند متبادل فراہم کیا۔ ملک کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے میں 1985 سے پوری قوت کے ساتھ موجود نواز شریف اور ان کی پاکستان مسلم لیگ کی سیاسی اجارہ داری کو تقریباً ختم کر کے امکانات کی ایک نئی دُنیا کو ہمارے سامنے آشکار کر دیا۔

خیبر پختون خوا اور پنجاب سے کہیں زیادہ جلوہ مگر عمران خان نے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں دکھایا۔ مئی کے انتخابی دنوں میں اس شہر میں اپنی آنکھوں سے میں نے بے تحاشہ لوگوں کو نسلی اور لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر فخریہ انداز میں علی الاعلان عمران خان کی حمایت میں ووٹ ڈالتے دیکھا تھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ پنجاب میں اپنے امکانات کو بھرپور انداز میں آشکار کرنے کے بعد عمران خان اپنی ساری قوت اور توجہ سندھ پر مرکوز کر دیتے اور وہاں کے لوگوں کو نسلی اور لسانی بنیادوں پر ہوئی تقسیم سے باہر لا کر پاکستان کے حقوق اور ذمے داریوں کا احساس رکھنے والے شہری بنانے کی راہ دکھاتے۔ انھوں نے یہ سب کچھ بالکل نہ کیا۔ بس ’’چار حلقوں‘‘ پر اٹک کر رہ گئے۔

یقینا بہت بہتر ہوتا اگر نواز حکومت ان کی اس ضد کو پورا کرنے کا کوئی راستہ آج سے کئی ماہ پہلے ڈھونڈ لیتی۔ ایسا ہرگز نہ ہوا۔ اس کے باوجود عمران خان کے ’’آزادی مارچ‘‘ پر روانہ ہونے سے کئی گھنٹے پہلے وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کیا اور سپریم کورٹ کے ذریعے عمران خان کے انتخابی نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات دور کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ عمران خان کو ان کی اس پیش کش کو اپنے ساتھیوں سمیت خوب غور و خوض کے بغیر رد نہیں کرنا چاہیے تھا۔

وزیر اعظم کا چاہے لاکھوں افراد کا مجمع اکٹھا کرنے کے بعد ہی سہی استعفیٰ مانگنا ایک Maximalist مطالبہ ہے۔ ایسے مطالبات پر سمجھوتوں کی کوئی صورت بن ہی نہیں سکتی۔ تخت یا تختہ والا معاملہ ہو جاتا ہے جب کہ سیاست نام ہی درمیانی راستے ڈھونڈنے کے ہنر کا ہے۔ پاکستان کی مخصوص سیاسی تاریخ یہ بات عیاں کرتی ہے کہ یہاں جب کوئی سیاستدان اپنے مخالف سیاستدان کے ساتھ تخت یا تختہ والی جنگ چھیڑ دے تو بالآخر فائدہ ’’تیسری قوت‘‘ کو ہوتا ہے۔

تخت یا تختہ کی جنگ لڑنے والے سیاستدانوں میں سے کسی ایک کی چونچ اور دوسرے فریق کی دُم گم ہو جاتی ہے۔ ’’تیسری قوت‘‘ یاد رہے کہ صرف مقامی وجوہات کی بنا پر ہی اقتدار نہیں سنبھالتی۔ پاکستان کی معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ امریکا ابھی تک اس نظام کا اصل مالک ہے۔ وہ ’’جمہوریت۔ جمہوریت‘‘ کا ورد تو بہت کرتا رہا ہے مگر پہلی ترجیح اپنے Geo-Strategic مفادات کو دیتا رہا ہے۔

اپنی جغرافیائی حیثیت کی بناء پر پاکستان اس حوالے سے اس کے لیے بہت اہم رہا ہے۔ سوویت یونین مگر 1990 کی دہائی میں شکست کھا کر بکھر چکا ہے۔ امریکا کو اس کی شکست کے بعد افغانستان یاد بھی آیا تو درحقیقت نائن الیون کے بعد۔ اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑنے کے بعد اوباما کا امریکا اب افغانستان ہی سے نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ سے لاتعلق ہو گیا ہے۔ اس نے تو یوکرین کے بارے میں اپنے یورپی اتحادیوں کے خدشات کی بھی کوئی پراہ نہیں کی۔ امریکا کی پہلی ترجیح اب صرف اپنی معیشت کو پوری طرح بحال کرنا ہے۔

عراق ہو یا شام، مصر ہو یا یوکرین وہاں اندرونی خلفشار کی وجہ سے ہزار ہا انسانی جانوں کا ضیاع اسے کوئی کردار ادا کرنے پر مجبور نہیں کر پاتا۔ ہمارے ہاں تخت یا تختہ والی جنگ لڑنے کے بعد نتیجے میں وہی کچھ ملے جو اس سے پہلے ایسی جنگوں کے نتیجے میں ہمارا نصیب ٹھہرا تو عالمی دُنیا ہماری معیشت اور افراتفری سے فوراً لاتعلق ہو جائے گی۔ بہتر یہی تھا کہ ہمارے سیاستدان Maximalist Positions لینے سے اجتناب برتتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔