جشن آزادی اور حقیقی آزادی

ذوالقرنین زیدی  بدھ 20 اگست 2014

آزادی کا جشن تو پچھلے سڑسٹھ سالوں سے بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا رہا ہے مگر اس مرتبہ حکومت نے صرف ایک دن نہیں بلکہ پورے مہینے یہ جشن منانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ شاید اس بار حکومت کو اپنی آزادی کا دائرہ کار پہلے سے زیادہ وسیع نظر آ رہا تھا یا پھر تحریک انصاف کے آزادی مارچ نے بے یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا کر کے اسے یقین محکم بنانے کے لیے ایسے فیصلے پر مجبور کر دیا۔ عجب یقین اور بے یقینی کی سی کیفیت میں ایک ’’انقلاب‘‘ بھی آزادی حاصل کرنے کے لیے امامت کو چھوڑ کر اقتدا میں آ کھڑا ہوا۔

آزادی انقلاب کے پیچھے چلے یا انقلاب آزادی کے، جشن اس قوم کا بنیادی حق ہے، ایک صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ کے بقول ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، جعلی ہو یا اصلی‘‘، کے تحت آزادی بھی ’’آزادی‘‘ ہے، چاہے اس کا جشن 20 کروڑ انسانوں کی محرومیوں، بربادیوں اور وحشتوں پر ماتم کر کے ہی منایا جائے۔

یہ جشن، 25 لاکھ معصوم زندگیوں کی قربانی کا جشن، کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتی ہوئی انسانیت کا جشن، ملک کے طول و عرض میں ان گنت بے گور و کفن لاشوں کا جشن، بم حملوں کا جشن، خود کش دھماکوں کا جشن، ڈرون حملوں کا جشن، سرکاری معیشت سے تین گنا بڑے حجم کے کالے دھن کا جشن، ٹیکس چوریوں کا جشن، آلو پیاز ٹماٹر کی ہوش ربا قیمتوں کا جشن، عدالتی نظام کا جشن، حکومتی رٹ کا جشن، پولیس گردی کا جشن، خود کشیوں کا جشن، زلزلوں اور سیلابوں کا جشن، پینتالیس ڈگری درجہ حرارت میں بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا جشن، اتنے جوش و خروش، ملی جذبوں سے پورے پورے مہینے اگر ہم نہیں منائیں گے تو ہمیں یہ یقین کیسے آئے گا کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں؟۔

اور پھر یہ حق ہمیں حاصل بھی کیوں نہ ہو کہ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ہمارے نام نہاد رہنمائوں کی کرم فرمائیوں کی بدولت آج 20 کروڑ لوگوں میں سے 8 کروڑ کو 24 گھنٹے میں صرف ایک بار کھانا کھانا نصیب ہوتا ہے، 80 فیصد آبادی کو 80 گز یا ایک مرلے کا گھر بھی میسر نہیں، ہر چوتھا شخص بے روزگار ہے، جہاں ڈکیتی کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی، لوگ بڑے سے بڑے نقصان پر بھی عدالت جانے سے گھبراتے ہیں، جہاں عوام کا قتل عام، مسخ شدہ لاشیں، اغوا، تاوان، ڈکیتیاں، زمینوں پر قبضے، رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری اور ایسے دیگر واقعات سرکاری اور سیاسی سرپرستی میں معمول بن چکے ہیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں بھوک، ننگ و افلاس اور وحشت کا ننگا ناچ جاری نہ ہو۔

7 لاکھ 96 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے پاکستان میں نکلنے والی معدنی دولت، دہقانوں کا خون پسینہ پی کر اگنے والی اجناس اس دھرتی پر موجود فیکٹریاں، کارخانے اور ان کی پیداوار، اس کی نہریں، دریا، سمندر، صحرا، میدان اور پہاڑ، ان تمام وسائل اور دولت سے محروم رکھے جانے والے عوام کو ایک پرفریب احساس کیسے دلایا جا سکتا ہے کہ وہ قدرت کی عطا کردہ ان تمام نعمتوں کے مالک ہیں اور ان سے مکمل طور پر استفادہ کر رہے ہیں۔

ہم سچے اور پکے پاکستانی ہیں، ہماری سیاست بیرونی مداخلت سے پاک ہے، ہمارا دفاع مضبوط ہے، ہماری عدالتیں آزاد ہیں مگر افسوس کہ ہم بات بات پر پاکستان کو کوستے ہیں، اپنے وطن کو برا بھلا کہتے ہیں، اپنے ہم وطنوں کے کے لیے تعصب رکھتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں جو ان خرافات کی جڑ ہیں، ہم ان کے گن گاتے ہیں جو ہمیں وزیر اعظم بھی امریکا سے امپورٹ کر کے دیتے ہیں اور اگر کوئی وزیر اعظم ’’منتخب‘‘ ہو کر بھی آئے تو وزیر خزانہ امریکا ہی کی مرضی کا لگواتے ہیں، ایبٹ آباد آپریشن، سلالہ چیک پوسٹ پر حملے اور ڈرون اٹیکس ہمارے مضبوط دفاع کی زبردست مثالیں ہیں، رہا انصاف تو یہ انھی کے لیے جن کے ہاتھ میں طاقت ہے۔

حالیہ معاملات ہی دیکھ لیجیے، امریکی پابندیوں کے باوجود ایران نے گزشتہ برس اپنی خام تیل کی برآمدات میں اٹھارہ فیصد اضافہ کیا ہے، خریداروں میں بھارت اور چین بھی شامل ہیں، دوسری طرف ہماری حکومت نے ایران سے گیس لینے کا معاہدہ تو کر لیا، بلکہ ایران نے تو جھٹ پٹ پائپ لائن پاکستان کے بارڈر تک پہنچادی، پھر حکومت تبدیل ہوئی اور گیس پائپ لائن کی تکمیل کے لیے فنڈ نہ ہونے کے حیلے تراشنے لگی، ایران نے پاکستان میں گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے مالی مدد دینے کا بھی اعلان کر دیا مگر کیا کریں ’’ابوجان‘‘ کی ناراضگی کا ڈر لے بیٹھا، ہمارے مخنث صفت حکمرانوں کو، جو چکر بازیوں سے کام چلا چلا کر فقط اپنی حکومت کا ’’مقررہ‘‘ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔

ملکوں اور قوموں کی عمریں سیکڑوں نہیں ہزاروں سال پر محیط ہوا کرتی ہیں، پاکستان کو تو آزاد ہوئے ابھی صرف سڑسٹھ سال ہی ہوئے ہیں، ہم نے اسے بوڑھا اور ضعیف کر کے رکھ دیا کہ چلنا تو درکنار، پیروں پر کھڑا ہونا بھی اس کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے اور مزید قرضے لیے جا رہے ہیں۔ قرضوں کی مجموعی مالیت کا حجم 18 ہزار 750 ارب روپے سے بڑھ چکا ہے، یہ قرضے اگر ملک کی کل آبادی پر تقسیم کر دیے جائیں تو ملک میں ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی 96 ہزار روپے کا مقروض ہو کر دنیا میں آنکھ کھولے گا۔

ایک اوسط خاندان 6 سے 8 لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے مگر حکمران نے قرضوں پر قرضے چڑھا کر ہماری آزادی ہم سے چھین لی ہے، ہمارا بچا کھچا بھی فروخت کیا جا رہا ہے، ان تیزی سے بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کی فکر ہمارے دانشوروں کو ہے نہ اساتذہ کو، اور نہ ہی ہمارے علمائے دین اپنے ذاتی مفادات کے حصار سے باہر آتے ہیں۔ ہر حکومت عوام کے لیے وہی کچھ کرتی ہے جو اس سے پچھلی حکومت نے کیا، ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو خرابیوں پر مورد الزام ٹھہراتی ہے، مگر کوئی لاحقہ کسی سابقے سے سبق نہیں سیکھتا، یہاں تک کہ خود اپنے ماضی سے بھی۔

وہی مہنگائی، وہی بیروزگاری، وہی لاقانونیت، ہر دور میں کم ہونے کے بجائے اور بھی بڑھتی رہتی ہے، حکومتیں بے بس، قانون نافذ کرنے والے ادارے مال جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں، پانی سر تک آن پہنچا، گروہی سیاست اپنی آخری حد کو چھونے لگی ہے۔

تقریریں اور سبز باغ، ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ سے لے کر ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ تک اور پھر ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ سے لے کر ’’آزادی مارچ‘‘ اور ’’انقلاب مارچ‘‘ تک تمام مہموں اور تحریکوں کا اگر خوردبین جائزہ لیا جائے تو ان میں صرف قائد یا سربراہ کے علاوہ زیادہ تر سیاسی یا مذہبی کارکن یا مہرے وہی ملیں گے جو پہلی مہموں، تحریکوں یا نعروں میں استعمال ہوئے تھے بلکہ کئی دہائیوں تک حکومت چلانیوالے اپنے دور اقتدار میں کچھ نہیں کر پائے جب حکومت سے باہر ہوئے تو انقلاب لانے کے شوشے چھوڑنے لگے۔

شاید یہی پرزے اور مہرے اعلیٰ ترین سیاسی پیداواری صلاحیت کے مالک ہیں، سیاستدانوں پر سرمایہ کاری کرنیوالے پرزے، جلسے جلوس کامیاب کرانیوالے پرزے، الیکشن جتوانے والے پرزے، حکومت کے حق میں بیان بازیاں کرنیوالے پرزے، اور حکومتیں ہلانے والے مہرے، حکومتیں گرانے والے مہرے، حکومت کو بیرونی دبائو قبول کرنے پر مجبور کرنیوالے مہرے۔

اس ملک اور قوم کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ اسے کوئی ایسا حکمراں ہی نہ مل سکا جو اس کی بنیادی ضرورتوں کا پتہ چلاتا اور انھیں پورا کرتا۔ اْونچی عمارتوں، اقتصادی ترقی، کارپوریٹ گورننس، میٹروبس، موٹروے، ریلوے کوریڈور منصوبے، منظور نظر نوجوانوں کے لیے سو ارب روپے کے قرضے، لیپ ٹاپ اور ان جیسے دوسرے یا بجلی پیدا کرنے والے تخیلاتی منصوبوں سے عوام کو وقتی دلاسا تو دیا جا سکتا ہے مگر نصف عوام کے پیٹ میں روٹی نہ ہو تو ان منصوبوں کا کیا کرنا؟۔

اگر موجودہ حکومت کے اخلاص کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہی خیال آتا ہے کہ ترقی کی رفتار کو اتنا تیز نہیں ہونا چاہیے کہ بھوک اور افلاس کے ستائے ہوئے لوگ بلند و بالا عمارتوں کو توڑ توڑ کر کھانا شروع کر دیں۔ قرضوں سے چلائے جانے والے شاندار منصوبوں سے پاکستان کو ملائشیا اور سنگاپور جیسی ریاست نہیں بنایا جا سکتا۔ ترقی کا عمل نیچے سے شروع کرنا ہو گا، تعلیم اور انصاف کی فراہمی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ عوام کو بنیادی سہولتیں چاہئیں، صرف نعرے، دعوے اور وعدے نہیں، ورنہ اس ملک کے عوام اسی طرح بے چین، کسی بھی حکومت کو گرانے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے۔

حکومت کو چاہیے کہ غریب عوام کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، جو کہ ایک مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں، اقتدار تو آنی جانی چیز ہے اگر نیت صاف ہے تو کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، مگر نیت کا صاف ہونا ضروری ہے جو اسی صورت پتہ چل سکے گا جب بیس کروڑ میں سے دس کروڑ عوام طویل لوڈشیڈنگ، انصاف کی عدم فراہمی، تھانہ کلچر، گیس کی بندش، مہنگائی، بدامنی پر حکمرانوں کو بددعائیں دینے کے بجائے دعائیں دیں۔؎

جا بھلا کر ترا بھلا ہو گا

اور درویش کی صدا کیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔