ہم آہنگی اور یکجہتی کا منظر

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 20 اگست 2014

جس طرح ہوشیار پور میں بسنے والے سب ہوشیار نہیں ہو سکتے اسی طرح حکمرانی کرنا بھی سب کے بس کی بات نہیں ہے اور ہمارے موجودہ حکمرانوں کے تو بالکل ہی بس کی بات نہیں۔ وہ ہمیشہ ملک اور قوم کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے وعدے پر آتے ہیں لیکن جاتے جاتے ملک اور قوم کو مزید اور بحرانوں میں دھکیل جاتے ہیں ایک ہوتی ہے سمجھداری اور ایک ہوتی ہے حد سے زیادہ سمجھداری۔

حد سے زیادہ سمجھدار ی کا مظاہر ہ کرتے وقت انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو بے وقوف بنا رہا ہے لیکن دراصل وہ خود بے وقوف بن رہا ہوتا ہے آج تمام تجزیہ نگار اور دانشور اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ موجود ہ حالات کی ساری کی ساری ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے انھوں نے اپنی حد سے زیادہ سمجھداری سے حالات اس نہج پر پہنچا دیے ہیں کہ سب حیران و پریشان ہو گئے ہیں۔

اس حقیقت سے اب کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اس دور اقتدار میں بھی نہ تو اچھی حکمرانی دے سکی ہے اور نہ ہی ملکی معیشت کو بحران سے نکالا جا سکا ہے اور عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ اور بڑھ گئے ہیں اور ساتھ ساتھ گزشتہ انتخابات کی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے اور اس کی شفافیت پر یقین دلانا بہت مشکل ہے۔ ماڈل ٹائون لاہور کے سانحے نے تو موجودہ حکومت کی ساکھ تقریباً ختم کر کے رکھ دی ہے جس کے رد عمل میں جو کچھ آج ہو رہا ہے اس کو جلا ملی ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران کی ایک وجہ خود وزیر اعظم نواز شریف کا غیر مفاہمانہ رویہ بھی ہے میاں نواز شریف اگر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے کارکنوں کے خلاف طاقت استعمال کرینگے تو بھی وہ مزید نقصان کا ہی سامنا کرینگے۔ موجودہ حالات میں میاں نواز شریف کے پاس بہترین راستہ یہ ہو گا کہ وہ مفاہمت کی طرف بڑھیں۔

اینی برانٹ نے کہا تھا کہ ’’اس غیر معیاری دنیا میں ہر چیز کے ساتھ ایک اگر مگر موجود رہتا ہے اس دنیا میں ہر طرف ایک اگر مگر کی رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے اور آدمی کو ہمیشہ ایک اگر مگر سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے۔‘‘ آزادی و انقلاب مارچ اور ا ن کے مطالبات پر حکمران جماعت کے وزراء کی چیخ و پکار، غم و غصہ، تلملاہٹ، ان کے سیخ پا ہونے کو آئیں تھوڑی دیر کے لیے جائز اور درست مان لیتے ہیں لیکن اگر کیا وہ وزراء نہ ہوتے اور 18 کروڑ عام آدمیوں میں سے ایک عام آدمی ہوتے بے بس، لاچار، مظلوم، بے اختیار، اور اگر عمران خان وزیر اعظم اور ڈاکٹر طاہر القادری صدر پاکستان ہوتے تو کیا وہ پھر بھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف آزادی یا انقلاب مارچ میں شریک ہونے اور اپنے حالات زندگی کی تبدیلی کے لیے کوشش کرنے کے عمل کو درست اور جائز سمجھتے یا پھر بھی اسے غلط عمل سمجھتے۔

جناب اعلیٰ گستاخی معاف آپ بہت اونچی جگہ پر بیٹھے ہیں اس لیے آپ زمین پر رہنے اور بسنے والوں کی مصیبتوں، تکالیف، پریشانیوں سے واقف نہیں ہیں۔ آج زمین پر چاروں طرف بربادی ہی بربادی ہے ہر عام آدمی کے گھر میں ماتم برپا ہے وہاں سے صرف آہ و بکا کی پکاریں چیخ رہی ہیں، چاروں طرف گریہ ہی گریہ ہے انسان کی اس سے زیادہ تذلیل ممکن ہی نہیں ہے لوگ بلک رہے ہیں، سسک رہے ہیں پورے ملک پر فاقوں اور خو د کشیوں کا راج قائم ہے، موت دنداناتی پھر رہی ہے۔ لوگ صرف ایک روٹی کے لیے اپنے جسم کے اعضا فروخت کر رہے ہیں، آئو جو چاہو خرید لو لیکن آپ کو ان کی تکلیفوں، مصیبتو ں اور کرب و الم کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ احساس تو اسے ہو سکتا ہے جس نے فا قوں کا سامنا کیا ہو بھوک سے ہونے والی اموات خود دیکھی ہوں جسم کے اعضاء بکتے دیکھے ہوں۔

کسی نے کنفیوشس سے پو چھا کہ کسی ملک کی سلامتی و فلاح اور اصلا ح کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے اس نے جواب میں کہا کہ کسی ملک کی بقا و فلاح کے لیے تین چیزیں اہم ہیں (1) طاقتور فوج (2) خوراک کی افراط (3) عوام کی باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی۔ سوال کر نے والے نے پھر پو چھا کہ اگر یہ تینوں بہ یک وقت میسر نہ آ سکیں تو پھر؟ کنفیوشس نے جواب میں کہا اگر طاقتور فوج نہیں ہو گی تو کوئی بات نہیں کسی ملک کی سب سے بڑی فوج اس کے عوام ہوتے ہیں عوام خود اپنا دفا ع کر لیں گے۔

سوال کرنیوالے نے پھر پو چھا کہ ان باقی دو چیزوں میں سے وہ کون سی چیز ہے کہ جس کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے۔ کنفیو شس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہو گی تو کوئی بات نہیں کسی نہ کسی طرح گزارا ہو ہی جائے گا عوام باہم مل کر اسی کمی کا مقابلہ کر لیں گے لیکن اگر عوام میں ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہو گی تو ملک کی بر بادی اور تباہی یقینی ہے‘‘ ۔ پاکستان کے عوام میں اسی ہم آہنگی اور یکجہتی کی شدید کمی تھی۔ لیکن سالوں بعد آج پاکستان کے عوام میں نہ صرف ہم آہنگی ہے بلکہ یکجہتی بھی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے نصیب و مقدر کو بدلنے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں آج تک کوئی بھی حکمران اپنے عوام کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے۔

آپ سب کو شیکسپیئر کے یہ الفاظ تو یاد ہی ہونگے کہ ’’ وہ لوگ جو بلند مقام پر کھڑے ہوتے ہیں انھیں بہت سی گر انے والی تیز و تند ہوائوں کا سامنا ہوتا ہے اور اگر وہ گر جائیں تو وہ ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں‘‘ تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہم کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے جب سبق حاصل کرتے ہیں تو خود تاریخ بن چکے ہوتے ہیں اور بات پھر وہیں آ پہنچتی ہے جہاں سے شروع ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔