راندۂ درگاہ

قادر خان  بدھ 20 اگست 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

یوم آزادی کے دن جب میں کچھ احباب کو جشن آزادی مبارک کے پیغامات ارسال کر رہا تھا تو انھیں جشن آزادی مبارک کے ساتھ ایک جملہ اضافی لکھ  رہا تھا کہا ’’اگر آپ واقعی آزاد ہیں  تو آپکو جشن آزادی مبارک ہو۔‘‘ مجھے سمجھ میں میں نہیں آتا کہ غلام قومیں، پسے ہوئے طبقے کیوں اور کس بنیاد پر خود کو آزاد سمجھ کر خوشی منانے کی خود نمائی کرتے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں کے غلام، سود میں گھرے پاکستان کا ایک ایک بچہ سرمایہ دارانہ نظام کا غلام ہے۔ ہماری معاشی پالیسیاں عالمی استعماری قوتوں کی غلام ہیں ہماری دفاعی ضروریات دشمنان اسلام کی مرہنون منت ہیں۔ ہمارے جسم میں جانے والا رزق پاکستان کے دشمنوں کی امداد کا غلام ہے۔

ہماری بقا و سلامتی کی تمام پالیسیاں مملکت خداداد پاکستان کو کمزور کرنے والوں کے ہاتھوں غلام ہیں۔ فرقہ واریت کے غلام ہیں،  قوم پرستی کے غلام ہیں۔  لسانیت کے غلام ہیں۔ اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ کون کہتا ہے کہہ ہم آزاد ہیں، اگر آزاد ہیں تو ملک و قوم کو لوٹنے والے آزاد ہیں، اگر آزاد ہیں تو ملکی خزانوں کو لوٹنے والے آزاد ہیں، اگر عوام اپنی جان بچ جانے پر گھر آنے پر خوشی مناتے ہیں تو ان کی اصل کی خوشی یہ ہے کہ ان کی روح جسم سے کسی دہشت گرد کے ہاتھوں سے آزاد نہیں ہوئی، سرکاری ملازم ہوں تو عوام کو غلام بنا کر رشوت لینے میں آزاد ہیں۔

عوام ہیں تو قومی ملی یکجہتی چھوڑ کر اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کی پالیسوں کے غلام ہیں۔ جھوٹ، سچ کا غلام ہے۔ کسی کا ایجنڈا ملکی مفاد کے نام پر نہیں ہے۔ ہر طرف  بے حسی ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد منچلوں کے لیے، موٹر سائیکلوں سے سائیلنسر نکال کر اسپتالوں، گھروں، محلوں میں گھومتے طوفان بد تمیزی مچا دیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں اسلام کے قوانین و اصولوں پر مبنی ایک اصلاحی مقاصد پر مبنی مملکت تھا لیکن پاکستان بنتے کے ساتھ ہی اس پر وڈیروں، جاگیر داروں، خوانین، سرمایہ داروں اور سرداروں نے قبضہ کرلیا۔

اس آزاد پاکستان میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے تو جن کے گھر کہیں اور تھے انھیں گھر ملے  کاروبار ملا، سرکاری مراعات ملیں، کلیم کے نام پر نقصانات کا ازالہ ملا، لیکن پاکستان بننے کے بعد یہاں کے باسی مراعات سے محروم ہوئے، اقربا پروری اور سیاسی رشوت ستانی نے ڈیرے ڈال دیے۔ کہاں کی قوم کی آزادی، کہاں ہے آزاد قوم، مجھے تو بحیثیت پاکستانی خود کو آزاد کہتے ہوئے فخر نہیں بلکہ ندامت محسوس ہوتی ہے کہ میں ایک ایسے ملک کا باسی و شہری ہوں جہاں حریت  رائے کے نام پر خوشامد فروخت ہوتی ہے، جذبوں کے نام پر ایمان فروخت ہوتے ہیں، سچ کے نام پر جھوٹ فروخت ہوتے ہیں۔

خدمت کے نام پر سیاست فروخت ہوتی ہے۔ ایک مجبور عورت کا جسم اس لیے فروخت ہوتا ہے کیونکہ اس کو ایسا معاشرہ دیا گیا ہے جس میں ایسے با وقار و شریفانہ زندگی گزارنے کی آزادی نہیں،  حکومت ٹیکس لے کر عوام کے لیے فلاحی ترقیاتی منصوبے بناتی ہے۔ نوجوانوں سے روزگار کے نام پر ان کا جوش و جذبہ خرید لیا جاتا ہے ان کے ہاتھ میں قلم کی جگہ ہتھیار دے دیے جاتے ہیں۔ ان کے قلم سے ترقی و کامرانی کے گیت کے بجائے، نفرت اور مخالفین کے قتل کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔

احتجاج کے نام پر لوٹ مار کی اجازت ملتی ہے تو قومی اثاثے اب اسلام کی روایات نہیں بلکہ خدا کی جانب سے عذاب کی صورت میں عبرت نشان بنا دینے والی روایات ہیں جن پر فخر کیے جاتے ہیں۔ تہذیب اسلام سے جڑی ہو تو کچھ سمجھ بھی آتا ہے لیکن جب تہذیب جاہلیت سے جڑی ہو تو اس پر فخر کرنے والے مسلم ہیں کہ بت پرستی کے وارث۔ بامیان کے بت توڑے جانے پر ماتم کرتے ہیں، انبیا کے اور اصحاب رسول  ﷺ کے مزاروں کے انہدام پر خاموش رہتے ہیں، کیونکہ ان میں حس مسلم ہی نہیں، تو ملی جذبہ کیا معنی رکھتا ہے۔ ملت تو وہ ہوتی ہے جو خود کو ایک سمجھے، لیکن یہاں تو پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ  کشمیری، گلگتی،  بلتی، مہاجر ہیں، پاکستانی کہاں ہے کہ وہ قیام پاکستان کا جشن منائیں۔

کہاں ہیں وہ پاکستانی جو جشن آزادی منانے کے لیے گھر گھر گلی گلی سجایا کرتے تھے، بچے چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں لے کر محلوں محلوں گھوما کرتے تھے، لیکن اب تو آپ ایک محلے سے دوسرے محلے جائیں تو وہاں کسی نہ کسی  گھر میں صف ماتم برپا ہوتی ہے، کسی نے ٹارگٹ کلنک کر کے مار دیا تو کسی نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا۔ کسی نے سیاسی مخالفت میں مار دیا تو کسی مسلک کو تسلیم نہ کرنے پر مار دیا،  کسی نے بھتہ نہ دینے پر مار دیا۔ کون سا ایسا محلہ ہے جہاں بے گناہ کا خوں اس پاک سر زمین کو سیراب نہ کر رہا ہوں۔

کئی عشروں تک حکومت میں رہنے والے ہر بار یہی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمیں ورثے میں  ملا ہے، ہماری ٹانگیں نہ کھینچو، ہمیں اختیار دو، اب کیا عوام سے ان کی سانسیں بھی گروی رکھوانا چاہتے ہو۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس گاؤں کے لوگوں کی طرح ہو جاؤں جہاں سب پاگل تھے لیکن ایک شخص پاگل نہیں تھا، لیکن تنگ آ کر جب اس نے بھی وہ امرت پی لیا تو وہ بھی پاگل ہو گیا اور پھر جب سب ایک جیسے ہو گئے تو کوئی بُرا نہیں رہا، کچھ غلط نہ رہا۔

سب کچھ ٹھیک لگنے لگا، لیکن کیا کروں یہاں تو سقراط کو بھی جو زہر پینے کے لیے دیا جاتا ہے وہ بھی جعلی ہوتا ہے، یہاں تو زہر پی کر عزت سے مرا بھی نہیں جا سکتا، یہاں تو سولی پر بھی خود کو قربان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بلندی پر جانے کے لیے بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج کا پاکستان، کیسا پاکستان ہے، کون سا پاکستان ہے، بانیٔ قوم  قائد اعظم نے کیسا پاکستان بنایا تھا اب ہم کون سا پاکستان دیکھ رہے ہیں۔

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے، مگر میرے پاکستان میں جنگل کا قانون بھی نہیں ہے، جنگل میں تو پھر بھی ہر جانور ایک قاعدے کے مطابق چلتا ہے، اس کو فطرت نے ایک دائرہ کار دیا ہوتا ہے، وہ فطرت سے روگردانی نہیں کرتا۔ لیکن اشرف المخلوقات تو روئے زمین پر خود کو خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ میں ان نعروں سے تنگ آ چکا ہوں کہ قوم کے بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں بلکہ قلم دو، بھلا قلم دیکر کیا کرو گے۔

انھیں روزگار کہاں سے دو گے، ان کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے کون بچایا جائے گا، قلم میں بڑی طاقت ہے لیکن یہ طاقت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے ایک ہاتھ میں فائل پر اجازت نامے کے دستخط تو دوسرا ہاتھ، میز کے نیچے رشوت کے لیے ہوتا ہے۔ میں نے سیاست دیکھی جہاں لاشوں کے گرے جانے پر لیڈروں کو پارٹی مناتے دیکھا، میں نے ان انقلابیوں کو دیکھا جہاں ان کا کارکن بھوکا مرتا جائے  لیکن ان کا انقلاب فائیو اسٹار ہوٹل میں بچ جانے والے کھانوں کے ساتھ کچروں میں پھنک دیا جائے۔

میں نے الیکشن دیکھے جہاں حجروں، ڈیروں پر جاکر ووٹوں کے لیے لوگوں کے پائوں پکڑتے ان سے معافیاں مانگتے دیکھا اور پھر انھیں کسی ادھار لیے شخص کی طرح غائب ہوتے دیکھا، میں نے وہ الیکشن بھی دیکھا کہ ’’بیٹھتے ہو کہ لیٹتے ہو۔‘‘ میں نے طاقت کا بے دریغ استعمال دیکھا، بے گناہ انسانوں کو سڑکوں، گلیوں میں خون میں نہاتے ہوئے دیکھا، میں نے لسانی بنیادوں پر قائم وہ اسپتال دیکھے جہاں ان کی پارٹی کا کارکن نہ ہو تو ایسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ میں  نے سفید، کالی پیلی  صحافت دیکھی، انھیں دہشت گردوں کے خوف سے کپکپاتے ہوئے بھی دیکھا، میں نے خود کو دیکھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔