ایک سطح پر پہنچ کر فن پارہ، فن کار کو پینٹ کرنے لگتا ہے، انعام راجا

اقبال خورشید  جمعرات 21 اگست 2014
لکھنے میں چور تھا، سارے الفاظ کینوس پر منتقل کر دیے، منفرد مصور انعام راجا کی کتھا۔   فوٹو: اشرف میمن

لکھنے میں چور تھا، سارے الفاظ کینوس پر منتقل کر دیے، منفرد مصور انعام راجا کی کتھا۔ فوٹو: اشرف میمن

کیا تخلیق کے لیے دیوانگی شرط ہے؟ ارسطو تو اِسی خیال کا حامی تھا۔ خلیل جبران کے نزدیک سچا کلاکار کبھی بھیڑ کے ساتھ نہیں چلتا۔

آج جو صاحب ہمارا موضوع ہیں، اُن میں دونوں ہی گُن۔ ڈگر سے ہٹ کر چلنا اُن کی عادت۔ دیوانگی سرشت میں۔ دیگر فن کاروں کے برعکس گوشہ نشیں۔ اوقات کار بھی انوکھے اپنا رکھے ہیں۔ جب ہم آرام کرتے ہیں، وہ کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور جب پنچھی جاگتے ہیں، وہ خاموشی سے بستر میں چلے جاتے ہیں۔ سہ پہر چار بجے جب ہم ناظم آباد میں واقع اُن کے فلیٹ پر پہنچے، تو اُنھیں بیدار ہوئے چند ہی ساعتیں گزری تھیں۔ فرش ہی پر کینوس، چند پرانے برش، چند رنگ کے ڈبوں کے درمیان آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ وہیں گفت گو ہوئی، وہیں تصویریں بنیں۔

انعام راجا کا مقبول حوالہ تو یہی ہے کہ وہ دو عشروں تک معروف پرچے ’’سب رنگ‘‘ کو اپنے اسکیچز سے سجاتے رہے۔ رنگوں کی دنیا میں اُن کا اپنا رنگ ہے۔ عورت اُن کی پینٹنگ کا مرکزی موضوع۔ فطری حسن کے دل دادہ۔ اپنے کردار کو بھی فطری حالت ہی میں پینٹ کرتے ہیں۔ فن پارہ ہشت پہلو ہوتا ہے۔ دیوار پر آویزاں ہونے کے بعد دیوار نہیں بنتا۔ پیاز کے چھلکوں کی طرح معنی کی ایک کے بعد ایک پرت کھلتی جاتی ہے۔ یوں تو عورت ان کے ہاں زندگی کی مرکزی علامت ہے، مگر ہمیں جیون کی اور صورتیں بھی ملتی ہیں خصوصاً کنول کا پھول بار بار ظاہر ہوتا ہے۔

فطری حسن کو ضرور تصویر کرتے ہیں، مگر اس حسن میں انتشار بھی دِکھائی دیتا ہے۔ ہر بدن شکستہ۔ منتشر لکیروں سے ڈھکا ہوا۔ یہ منتشر لکیریں ان کے ہاں معاشرتی بگاڑ کی، شکست و ریخت کی عکاس ہیں۔ فن پارے پر دست خط کرنے کے محتاج نہیں۔ فن پارہ خود مصور کا پتا دیتا ہے۔ طرز فن اُن کا Expressionism (اظہاریت) کے نزدیک ہے۔ تجریدی اور علامتی آہنگ ملتا ہے۔ استاد نہیں کیا۔ بہ قول اُن کے، فن اُن کی روح کا حصہ تھا، جس نے ازخود اظہار کی راہ پائی۔ ہاں، کتابوں سے سیکھا۔ مشق سے کام میں نکھار آتا گیا۔ انعام صاحب کے ہاں سنہری رنگ، جو مٹی کے رنگ کے قریب ہے، بے حد نمایاں نظر آتا ہے۔

جینے کی خواہش ہے، تاکہ مزید فن پارے بنا سکیں۔ آرٹ ان کے نزدیک زندگی کو بہتر اور خوب صورت بنانے کا نام ہے۔ جس معیار کے وہ فن کار، اس مناسبت سے اُن کا کام منظر عام پر نہیں آیا۔ گروہی نمایشیں تو ہوئیں، مگر فقط دو۔ اور دونوں بار فن ان کا کراچی کے شایقین تک محدود رہا۔ ہاں، اب انٹرنیٹ، خصوصاً سوشل میڈیا کے توسط سے کام کی رسائی بڑھ گئی ہے۔

اب توجہ ان کے حالات زندگی کی سمت موڑتے ہیں:

پورا نام؛ انعام الحق صدیقی۔ گھر والے پیار سے راجا کہا کرتے تھے۔ خاندان نے دہلی سے ہجرت کی، تو کراچی میں ڈیرا ڈالا۔ پانچ بہن بھائیوں میں بڑے ہیں۔ پی آئی بی اسکول کے وہ طالب علم تھے۔ کم عمری کے باوجود 71ء کے سانحے نے گہرا اثر چھوڑا کہ حالات سے باخبر تھے۔ سبب رشتے دار اور اساتذہ بنے، جو ان کے سامنے مشرقی پاکستان کی حقیقی اور کرب ناک تصور پیش کرتے۔ مطالعے نے بھی شعور عطا کیا۔ اوائل عمری میں کتابیں اٹھا لیں۔

آنہ لائبریریاں خوب کام آئیں۔ میٹرک تک کرشن چندر، منٹو اور رام لال کو پڑھ چکے تھے۔ افسانوں کے پورے پورے اقتباس ڈائری میں محفوظ کر لیا کرتے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ بھی میٹرک تک نمٹا لیا۔ گوتم اور چمپا کے کردار برسوں اعصاب پر سوار رہے۔ ابن صفی نے گرویدہ بنایا، تو عمران سیریز کو جم کر پڑھا۔ مطالعے نے یاروں کو کہانیاں سُنانے پر اُکسایا۔ داستان گو کا روپ دھار لیا۔ البتہ لکھنے کے معاملے میں چور تھے، مگر غم نہیں کہ سارے الفاظ کینوس پر منتقل کر دیے۔

73ء میں سٹی کالج ناظم آباد کا رخ کیا۔ انجینئر بننے کی خواہش تھی، مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ وہاں سے گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ اِسی عرصے میں والد کے انتقال کا سانحہ پیش آیا، جس نے اُن پر گہرے اثرات چھوڑے۔ والد کے بے حد قریب تھے۔ باپ بیٹے میں دوستانہ روابط تھے۔

جامعہ کراچی کے زمانے میں ڈاکٹر جمیل اختر خان، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی اور پروفیسر سحر انصاری کی سرپرستی میسر آئی، مگر بدلتے حالات ماسٹرز کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ شعور نے سیاست کی سمت دھکیلا۔ شروع میں بھٹو صاحب نے گرویدہ بنایا، مگر دھیرے دھیرے سوچ بدلنے لگی۔ ہاں، ترقی پسند نظریات سے وابستگی قائم رہی۔ تشکیک پسندی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ حلقۂ یاراں میں لیفٹ اور رائٹ کا یک ساں تناسب تھا۔ البتہ خود وہ طلبا سیاست سے دُور رہے۔

کیوں ناں اب توجہ وقت کے اس حصے پر مرکوز کی جائے، جب انعام راجا میں چھپے فن کار نے اظہار کے لیے زور مارا:

یوں ہوا کہ ایک روز اپنے ایک رشتہ دار کی بنائی ہوئی ڈرائنگ دیکھی۔ تیسری جماعت کے اس طالب علم کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ خواہش دہکنے لگی۔ کاغذ اور پینسل لے کر بیٹھ گئے۔ اگلے برس کمرۂ جماعت کی دیواریں ان کی ڈرائنگ اور اسکیچز سے سجی تھیں۔ آٹھویں میں تھے، جب اسکول میں ہونے والی ایک نمایش میں پہلا انعام اپنے نام کیا۔ اُس وقت تک راۂ زیست کا تعین ہوچکا تھا۔

رنگوں کے انتخاب سے قبل جائزہ لیا کہ یہ طرح طرح کے رنگ (واٹر کلر، آئل پینٹ، ایکریلیک پینٹ) آخر بنتے کس طرح ہیں۔ اجزائے ترکیبی جاننے کے بعد اُن کے خواص سمجھ میں آنے لگے۔ آئل پینٹ کو نتائج کے لحاظ سے بہتر پایا۔ پیسٹل رنگ بھی بہت بھائے۔

رنگ اور کینوس سے دوستی ہوگئی، مگر کچھ گھریلو ذمے داریاں بھی تو تھیں۔ کالج کے زمانے میں پیشہ ورانہ سفر کا آغاز ہوا۔ ’’نیرنگ ڈائجسٹ‘‘ میں ایک ماہ کام کرنے کے بعد وہ بہ طور آرٹسٹ ڈیڑھ سو روپے ماہ وار پر ’’عوامی ڈائجسٹ‘‘ کا حصہ بن گئے۔ ملازمت کا امکان خود پیدا کیا۔ بہ قول اُن کے وہ مختلف جراید کے مدیروں کو خط لکھا کرتے تھے۔ ایک معنی میں؛ درخواست برائے ملازمت۔ ساتھ اپنے بنائے ہوئے اسکیچز نتھی کردیتے۔ بہت سوں نے جواب دیا۔ کچھ نے حوصلہ افزائی کی۔ کچھ نے راہ نمائی۔ ایچ اقبال نے جواب لکھا؛ ابھی مشق کی ضرورت ہے۔

تصویریں ’’عوامی ڈائجسٹ‘‘ کے ایڈیٹر، شمیم نوید صاحب کے ہاتھ لگیں، تو آرٹسٹ ’’انعام الحق صدیقی‘‘ کو بلاوا آگیا۔ جب ایک نوجوان کو اپنے سامنے پایا، تو حیران رہ گئے۔ لگ بھگ ایک برس وہاں اسکیچز بناتے رہے۔ پھر سہام مرزا کے پرچے ’’سورج‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ ’’دوشیزہ‘‘ کے لیے بھی کام کیا۔ سرور سکھیرا کی پیش کش پر ’’دھنک‘‘ کا حصہ بنے، جو اپنے زمانے کا مقبول ترین پرچہ تھا۔ اگلی منزل ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ تھا۔ وہاں کھل کر کام کیا۔ ’’سب رنگ‘‘ ہی میں پہلی بار انعام راجا کے نام سے فن پاروں پر دست خط کیے۔

کچھ سرورق بھی بنائے۔ اپنے اسکیچز وہ محفوظ کرتے رہے کہ اندازہ تھا، بعد میں صحافتی اور ادبی پرچوں کا حصہ بننے والے فن پارے دیمک کی غذا بن جاتے ہیں۔ 95ء تک وہاں رہے۔ آخر کے برسوں میں چند مسائل بھی درپیش رہے، جن کا تذکرہ وہ پسند نہیں کرتے۔

’’سب رنگ‘‘ کے زمانے میں ’’نیا افق‘‘ اور ’’حریت‘‘ کے لیے بھی “Ghost artist” کے طور پر کام کیا۔ اُن پرچوں کو انعام راجا کے موضوعاتی اسکیچز نے نیا آہنگ دیا۔ خواہش تو تھی کہ وہاں نام چھپے، مگر جس ادارے میں ملازم تھے، وہاں سے اجازت نہیں ملی۔91ء سے وہ، کراچی سے نکلنے والے، ایک موقر ہفت روزہ کے لیے اسکیچز بنا رہے ہیں۔ البتہ اس میں بھی نام شایع نہیں ہوتا۔ اِس بات کا زیادہ قلق نہیں۔ سمجھ چکے ہیں کہ نان کمرشل سوچ رکھنے والے کمرشل آرٹسٹ کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

دال روٹی کے لیے جہاں اسکیچز بنائے، وہیں اپنی ذات، اپنی خوشی کے لیے بھی کام کیا۔ اور یہی کام اُن کی حقیقی پہچان بنا۔ بہ قول اُن کے، اوائل سے احساس تھا کہ یہ صحافتی اسکیچز، کتنے ہی دل کش اور بامعنی کیوں نہ ہوں، اُنھیں زندہ نہیں رکھیں گے۔ 91ء میں کلفٹن آرٹ گیلری میں فن پاروں کی پہلی نمایش ہوئی۔ ’’نیوڈ آرٹ‘‘ کو اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ کینوس پر اتارنے والے اس فن کار کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ نمایشیں بعد میں بھی ہوئیں، مگر ان میں تسلسل نہیں رہا۔

اُن کی کہانی بازیافت کرنے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا:

فن کار، اُن کے بہ قول، وہی کام یاب ہے، جو کاروباری مزاج رکھتا ہو۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اُن کا یہ معاملہ نہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج اُن کے شاگردوں کے فن پارے لاکھوں میں فروخت ہورہے ہیں، مگر اُن کی بابت لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ گوشہ نشینی کو بھی اس کا سبب ٹھہراتے ہیں۔

آرٹ کے ناقدین سے، آرٹ گیلریز کے مالکان سے ڈھیروں شکایات ہیں۔ البتہ اصل ذمے دار وہ عہد ضیاء کو ٹھہراتے ہیں، جس نے ان کے مطابق فنون لطیفہ کو نگل لیا۔ زہرہ حسین کو سراہتے ہیں، جنھوں نے اُن مشکل حالات میں ایک آرٹ گیلری کھولی۔ کراچی میں، اُن کے مطابق گذشتہ چند برس میں حالت خاصے بہتر ہوئے ہیں۔ ’’اب تو لاہور والے بھی یہاں آکر نمایشیں کر رہے ہیں۔ یہ خوش آیند تبدیلی ہے۔‘‘

ناقدین کی وہ زیادہ پروا نہیں کرتے۔ اُن کے مطابق وہ بیوروکریٹس، جن کی انگریزی اچھی ہے، ہمارے ہاں آرٹ کریٹک بن گئے۔ شاید ایک دو آرٹ کی سمجھ رکھتے ہیں، مگر وہ بھی اپنے پسند کے لوگوں ہی کو سراہتے ہیں۔ ’’اگر ہمارے ہاں حقیقی آرٹ کریٹک ہوتے، تو پاکستانی فن کاروں کو بین الاقوامی سطح پر پہچانا جاتا۔‘‘

فن مصوری زیر بحث آیا، تو کہنے لگے؛ یہ فن کار نہیں ہے، جو کینوس پر تصویر پینٹ کرتا ہے، بلکہ یہ خود تصویر ہوتی ہے۔ وہ آپ خود کو پینٹ کرتی ہے۔ ’’آرٹسٹ فن پارے کا آغاز تو کرتا ہے، پینٹنگ بناتا ہے، مگر ایک سطح پر پہنچ کر فن پارہ، فن کار کو پینٹ کرنے لگتا ہے۔‘‘

پہلے ’’رئیل ازم‘‘ ان کی توجہ کا مرکز رہا۔ پھر آرٹسٹ کی سوچ کی اہمیت اجاگر ہونے لگی۔ تجریدیت کی سمت آئے۔ بہ قول اُن کے،’’پہلے آپ آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ پھر دل میں محسوس کرتے ہیں۔ اس کے بعد آپ اس احساس کو اپنے ہاتھوں سے کینوس پر منتقل کرتے ہیں۔ یہ پینٹنگ اس منظر سے مختلف ہوتی ہے، جو آپ نے دیکھا ہوتا ہے۔

اس میں آپ کا نفسیاتی ردعمل شامل ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک فوٹو گراف کو بھی کینوس پر منتقل کر رہے ہیں، تب بھی وہ آپ میں سے گزر کر آتا ہے۔ فکشن نگار جو کچھ لکھتا ہے، وہ بھی زندگی کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے، مکمل زندگی نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ آرٹسٹ کا ہے۔ ‘‘

مصوری کے ساتھ اُنھیں فوٹو گرافی کا بھی بہت شوق ہے۔ اسکول کے زمانے میں عیدی سے پہلا کیمرا خریدا۔ فوٹو گرافی سے متعلق خاصا مطالعہ کیا۔ شوق اب بھی ساتھ ہے۔ مشق بھی جاری ہے۔ معیاری کیمرا خریدنے کا ارادہ باندھ رکھا ہے۔ فوٹو گرافر کو وہ فن کار کے مساوی خیال کرتے ہیں۔ ’’وہ کسی طرح آرٹسٹ سے کم تر نہیں ہوتا۔ جس لمحے وہ ’کلک‘ کرتا ہے، وہ ایک تخلیقی لمحہ ہوتا ہے۔‘‘

اُن کے مطابق فن علم کی ترویج کے ساتھ تقویت پاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیم عام نہیں ہوسکی۔ ’’تعلیم کے فقدان کی وجہ سے نہ تو ادیب اور شاعر مستحکم ہوئے، نہ ہی آرٹسٹ۔‘‘

زندگی کی خوش گوار یادیں ’’سب رنگ‘‘ میں گزرے بیس برس سے جڑی ہیں۔ والد کے انتقال کے سمے گہرے کرب سے گزرے۔ غالب کے مداح ہیں۔ فیض، احمد فراز، مصطفیٰ زیدی اور پروین شاکر بھی پسند ہیں۔ افسانہ نگاروں میں منٹو سر فہرست۔ کرشن چندر کے بھی دل دادہ۔ ان کے بہ قول، کرشن افسانے میں شاعری کرتا ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ کا تو تذکرہ ہوگیا، اس کے علاوہ ’’اداس نسلیں‘‘ اور ’’شکست‘‘ بھی پسند ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پکاسو اور پاکستانی فن کاروں میں چغتائی کے مداح ہیں۔

مدھو بالا اور دلیپ کمار کی صلاحیتوں کے معترف۔ موسیقی سے گہرا شغف ہے۔ ہارمونیم کی تربیت بھی حاصل کی۔ پینٹ شرٹ میں خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ برسات کا موسم دل کو بھاتا ہے۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ 2005 میں شادی ہوئی۔ تاخیر کا سبب گھریلو ذمے داریاں رہیں۔ اُن کے چھوٹے بھائی، عمران زیب بھی بہت اچھے آرٹسٹ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔