تنگ آمد‘ بجنگ آمد

رئیس فاطمہ  جمعرات 21 اگست 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ایک اہم اور سنجیدہ مسئلے نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔ساجد ایک ایئرکرافٹ انجینئر ہے اور ایک بڑی فضائی کمپنی سے وابستہ ہے۔ سولہ سال قبل اس کی شادی خاندان والوں کی مرضی سے خالہ کی پڑوسن کی لڑکی نازیہ سے ہوئی۔ جو دو بھائیوں کی چھوٹی بہن تھی، والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس لیے ساجد کی ماں نے اس رشتے کو ترجیح دی اور سمدھن کو ہر قسم کے اخراجات سے نجات دلا کر بیٹے کی شادی کردی۔

نازیہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی، تاکہ گھر والوں کی مالی مدد ہوسکے۔ لیکن شادی سے پہلے ہی اس نے ملازمت چھوڑ دی، جب کہ سسرال والوں اور شوہر کی جانب سے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی تھی۔ ساجد کی تنخواہ اور مراعات بہت پرکشش تھیں۔ شادی کے فوراً بعد وہ پاکستان سے باہر چلا گیا۔ بیوی بھی ساتھ تھی۔ نازیہ نے شادی کے چند دن بعد ہی علیحدہ گھر کی فرمائش شروع کردی، والدہ نے بہو کے تیور پہچان کر بیٹے کو الگ فلیٹ لے دیا، جہاں دو ماہ کے اندر بہو کی اماں جان بھی بیٹی اور داماد کے ساتھ فروکش ہوگئیں۔ایک سال بعد ایک بیٹی پیدا ہوئی۔

خوشدامن صاحبہ کی دخل اندازی بیٹی کے گھر میں بڑھنے سے میاں بیوی میں جھگڑے شروع ہوگئے۔ نازیہ کی بھابھیاں ساس کو اپنے ساتھ رکھنے پہ تیار نہ تھیں۔ لیکن اس خودغرض خاتون نے یہ نہ سوچا کہ وہ بھی بہوؤں اور بیٹوں کے خراب رویوں کی زخم خوردہ ہیں، انھیں اپنی سمدھن کے ساتھ ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ہماری سوسائٹی میں یہ بات اب بہت عام ہے کہ شادی کے بعد ہر لڑکی یہ چاہتی ہے کہ اس کا خاوند صرف اس کا ہے۔ اب وہ کسی کا بیٹا یا بھائی نہیں ہے۔ اور اس منفی سوچ کو بڑھاوا دیتے ہیں میکے والے۔ سو یہاں بھی یہ سب کچھ شروع ہوگیا۔

ساجد کی ماں نے بیٹے کے گھر آنا ترک کردیا کہ تاکہ بہو بیٹا چین سے رہ سکیں۔ لیکن ان کے بیٹے کو چین نہ ملا۔ وہ پوری تنخواہ لاکر بیوی کے ہاتھ پہ رکھ دیتا۔ جس کا زیادہ تر حصہ نازیہ اپنے بھائیوں اور ماں پر خرچ کرتی۔ لیکن ساجد کو اجازت نہیں تھی کہ کبھی ماں سے ملنے جائے یا بچی کو دادی سے ملوائے۔ پانچ سال بعد نازیہ نے دوسری بیٹی کو جنم دیا۔ اب لڑائی جھگڑے بڑھنے لگے۔ اسی کے ساتھ بھائی اور بھابھیوں کی دخل اندازی بھی بڑھنے لگی۔

نازیہ شوہر سے زیادہ بھائیوں کی بات مانتی تھی۔ بلکہ ان ہی کے طے کیے ہوئے پلان پہ عمل کرتی تھی۔ ساجد صبح کا گیا شام کو آتا تو عموماً بیوی اور ساس گھر پر نہ ہوتیں۔ کھانا بھی زیادہ تر باہر سے منگوایا جاتا۔ نازیہ دل کھول کر کریڈٹ کارڈ سے شاپنگ کرتی بلکہ بھائیوں اور ان کے بچوں کو بھی ٹھیک ٹھاک تحائف دلواتی۔ لیکن ساس کا نام سننا گوارا نہ کرتی شوہر پر پابندی لگا دی کہ اگر اس نے اپنی ماں کا فون سنا یا ان کے پاس گیا تو نازیہ اسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ دو بیٹیوں کے بعد اس کی بلیک میلنگ زیادہ بڑھ گئی تھی۔ ساجد اپنی بچیوں کی خاطر سب کچھ برداشت کر رہا تھا۔

ایک فنکشن میں نازیہ اور اس کی ماں ساجد کی ماں کے متعلق بڑے رکیک اور گھٹیا الزامات لگا رہی تھیں کہ ساجد کی ماں تعویذ گنڈوں کی ماہر ہے، وہ عملیات بھی کرواتی ہے تاکہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا رہے۔ یہ سب سن کر ایک سنجیدہ اور بردبار خاتون نے کہا کہ اگر یہ سچ ہوتا تو تمہارا شوہر اپنی ماں کے پاس ہوتا۔ جو سامنے نظر آرہا ہے وہ تو اس کے برعکس ہے۔ یعنی لگتا یوں ہے کہ عملیات تم نے اور تمہاری اماں نے کروائے ہیں۔ اسی لیے چار سال سے ساجد نے اپنی بیوہ ماں کی پلٹ کر خبر نہ لی۔

یہ سن کر دونوں ماں بیٹیاں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔ کئی اور خواتین نے بھی برملا کہا کہ قصوروار نازیہ، اس کی ماں اور بھائی ہیں۔ جو عورت ہر جگہ ہر کسی سے اپنی ساس کی برائی کر رہی ہو، اور ساس چپ چاپ گھر میں اکیلی پڑی موت کی آہٹیں سن رہی ہو، بیٹے اور بہو کی ہر زیادتی کو خاموشی سے سہہ رہی ہو۔ بڑی بیٹی کو بھی بھائی بھاوج کے معاملات سے الگ رکھا ہوا ہو۔ تو اصل قصور وار کون ہے؟ ساجد کی چھوٹی بیٹی چھ سال کی ہوئی تو نازیہ نے شوہر سے بڑا اپارٹمنٹ خریدنے کی خواہش کی۔ کچھ عرصے کے لیے اپنا رویہ بھی درست کرلیا۔

شریفوں کی اولاد نے سمجھا کہ بیوی ٹھیک ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس نے چار سال قبل تین بیڈ روم کا بہت اچھا لگژری اپارٹمنٹ خرید لیا اب نازیہ کی ضد تھی کہ ساجد وہ اپارٹمنٹ اس کے نام کردے۔ دوست احباب نے بہت سمجھایا بھی کہ وہ یہ غلطی نہ کرے۔ لیکن وہ نہ مانا کہ اسے بیٹیاں بہت عزیز تھیں۔ بصورت دیگر بیوی نے طلاق کا مطالبہ بھی سامنے رکھ دیا تھا۔ لہٰذا قانونی طریقے سے ساجد نے وہ فلیٹ بیوی کے نام کردیا۔

اسے پتہ نہ تھا کہ چابی کہاں سے اور کن مقاصد کے تحت بھری جا رہی ہے۔ ماں نے اسی دن ساجد سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ جب اس نے بیوی اور ساس کے بہکاوے میں آکر سگی ماں کو فون کرکے کہا تھا کہ ’’ایک مولوی نے بتایا ہے کہ آپ مجھ پر اور میری بیوی پر جادو کر رہی ہیں، اسی لیے ہم دونوں میں ہر وقت جھگڑا رہتا ہے۔ آپ نہیں چاہتیں کہ ہم خوش رہیں۔‘‘ ممتا سے مجبور ہوکر وہ کبھی بیٹے کی آواز فون پر سننا چاہتیں تو دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہ ملتا۔ یہ صدمہ وہ سہار نہ پائیں اور چند ماہ پہلے بیٹے اور پوتیوں کی یاد میں تڑپنے کے بعد مر گئیں۔

اب سنیے! فلیٹ اپنے نام کروانے کے بعد نازیہ نے ساجد کو زیادہ تنگ کرنا شروع کردیا۔ کیونکہ ساجد نے تمام کریڈٹ کارڈ منسوخ کروا دیے تھے۔ تنخواہ اپنے پاس رکھنی شروع کردی تھی گھر کے تمام اخراجات وہ خود اٹھاتا تھا۔ نازیہ کو ہر ماہ صرف اس کے ذاتی خرچ کے لیے نہایت معقول رقم دیتا تھا۔ بڑی بیٹی کا جیب خرچ معقول تھا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بیوی سیدھے منہ بات کیوں نہیں کرتی۔ لیکن معاملہ اچانک سامنے آگیا جب اسے پتا چلا کہ ایک بھائی کے گھر کا کرایہ ساجد کی تنخواہ سے ادا ہوتا تھا۔

یہ انکشاف دوسرے بھائی کی بیوی نے کیا، کیونکہ نازیہ کا جھکاؤ بڑے بھائی کی طرف زیادہ تھا۔ پھر اور بھی بہت کچھ سامنے آیا اور اس حد تک سامنے آیا کہ ساجد ماں کی قبر پہ جاکے گھنٹوں روتا رہا۔ پھر ایک ہوٹل میں رہنے لگا۔ تین چار دن بعد بیوی آئی اور خلع کا مطالبہ کر ڈالا۔ ساجد ایسی صورتحال سے دوچار تھا کہ یا تو خود کو ختم کرلے یا بیوی کو جان سے ماردے۔ لیکن اس نے ضبط کیا اور کہا کہ اگر اسے واقعی خلع درکار ہے تو عدالت کے ذریعے حاصل کرلے۔ چند دن بعد نازیہ خلع لینے کے لیے کورٹ میں موجود تھی۔ نازیہ نے جج کے سامنے اپنا مطالبہ دہرایا کہ وہ شوہر سے خلع لینا چاہتی ہے۔

ساجد نے بیک جنبش قلم خلع کے کاغذات پر سائن کردیے۔ یہاں نازیہ کا پانسہ الٹا پڑ گیا، اس نے بھائی کے کہنے میں آکر خلع کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ دونوں بچیاں ساجد کی کمزوری تھیں۔ اپارٹمنٹ وہ پہلے ہی اپنے نام کروا چکی تھی۔ اس لیے اسے اور اس کے نکھٹو بھائی کو پوری امید تھی کہ ساجد کسی قیمت پر اسے طلاق نہیں دے گا۔ لیکن یہاں اس کا اندازہ غلط ہوگیا ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق ساجد نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بہت بڑا فیصلہ کرلیا۔

مقدمہ چونکہ ابھی عدالت میں ہے۔ اس لیے مزید تفصیل بتانا ممکن نہیں۔ لیکن نازیہ کے جو الٹی آنتیں گلے میں پڑگئی ہیں۔ اس پر وہ بہت پچھتا رہی ہے۔ بچیاں باپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ لیکن ان کے بالغ ہونے تک فیصلہ شاید ممکن نہ ہو۔ نازیہ نے ایک اور حماقت کی کہ شوہر پر مارپیٹ اور تشدد کا کیس بھی ڈال دیا ہے۔ ساتھ ہی فلیٹ کی ملکیت کے بارے میں عدالت کو بتایا ہے کہ مذکورہ فلیٹ اسے اس کی والدہ نے جہیز میں دیا تھا۔ اب کئی سوال اٹھیں گے کہ شادی تو بہت پہلے ہوئی تھی۔ فلیٹ پانچ سال قبل خریدا گیا؟ اور والدہ جو بیوہ تھیں ان کا ذریعہ آمدنی کیا تھا؟

طلاقوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے 90 فیصد لڑکی اور اس کے میکے والے قصور وار نکلتے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہوکر خلع کا مطالبہ کرنے والیاں جب زندگی کا اصلی اور بھیانک روپ دیکھتی ہیں تو پچھتاتی ہیں کہ انھوں نے میکے والوں کی باتوں میں آکر صرف اپنا گھر ہی تباہ نہیں کیا، بلکہ اپنی بچیوں کا مستقبل بھی غیر محفوظ بنادیا۔ کاش ماں باپ، دیگر میکے والے اور بھائی لڑکی کے کان بھرتے وقت یہ بھی سوچ لیا کریں کہ وار اوچھا پڑ گیا تو کیا ہوگا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔