سندھ ترقی کے میدان میں پیچھے کیوں؟

شہریار مہر  جمعرات 21 اگست 2014

سندھ تعلیم سمیت تمام محکموں و شعبوں میں دو صوبوں سے پہلے ہی پیچھے رہ گیا تھا، اب بلوچستان بھی اس سے آگے نکل گیا ہے۔ کل تک نواب اکبر بگٹی اور ان جیسے بڑے بڑے بلوچ رہنما شکار پور میں تعلیم حاصل کرنے آّتے تھے لیکن آج کوئی بلوچ سندھ میں تعلیم حاصل کرنے نہیں آتا جو ہم سندھیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کچھ حکومتی حامی ا س سلسلے میں کراچی کی مثال دیتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کراچی میں دوسرے صوبوں سے لوگ پرائیوٹ اسکو لوں میں تعلیم کے لیے آتے ہیں نہ کہ سرکاری اسکولوں میں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی ابتر ہے صاف ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سندھ میں گڈگورنس کا نہ ہونا ہے۔

اندرون سندھ کے بیشتر اسکول اوطاق بنا دیے گئے ہیں یا اصطبل۔ کبھی وزیر اعلیٰ کبھی وزیر تعلیم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ 6 سالوں میں ساڑھے 7 ہزار بند اسکولوں میں 14 سو اسکول کھلوا دیے ہیں ترقی کی اس تیز رفتار دنیا میں یہ رفتار تو دیکھیے۔ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے سندھ جنرل سیکریٹری نے ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں14 ہزار اسکول بند ہیں اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال ہے۔

کراچی کی صورتحال اس سے بھی بدترین ہے یہاں غریب آدمی بھی اپنے بچے کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے پر تیار نہیں ہے۔ جس ملک میں اسکولوں کو بیچ دیا جائے اور وہاں ہائی رائز بلڈنگیں بن جائیں اس ملک کی تہذیب و تمدن اور ترقی تباہی کا شکار ہو جاتی ہے یہی حال اب کراچی سمیت پورے سندھ کا ہے۔ آج کراچی میں حالات انتہائی خراب ہیں جس شہر میں لوگ راتوں کو گھومتے تھے اب وہاں لوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہے کہ لوگ سرشام ہی گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔

یہاں پولیس جس میں مکمل طور پر سیاسی یا پیسے دے کر بھرتی ہوتی ہے اس کا کردار ختم ہو کر رہ گیا ہے جب کہ کراچی کو عملی طور پر رینجرز (پیرا ملٹری فورس) کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد غیر تعلیم یافتہ ہے کیونکہ غریبوں کے پاس پرائیوٹ اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ سرکاری اسکول بک رہے ہیں پارکوں اور پلے گراونڈ ز پر قبضہ کر کے ان کی جگہ کہیں ہائی رائز بلڈنگیں اور کہیں نہاری ہائوس و ریسٹورنٹ بن رہے ہیں۔

کراچی کا ایک مشہور نہاری ہائوس بھی کبھی اسکول تھا افسوس کہ اسے بیچ کر نہاری ہائوس بنا دیا گیا اور اس شہر میں ایک آنسو بھی نہیں بہا! پھر ہم کہتے ہیں کہ کراچی کے حالات خراب ہیں۔ منیبہ اسکول کو بیچنے کی کئی دفعہ کوشش کی گئی اور اس میں مبینہ طور پر اس و قت کے وزیر تعلیم کے بیٹے کا نام آتا رہا لیکن کوئی ایکشن نہی ہوا۔ اسکول کے طلبہ اور محلے والوں کی شدید مزاحمت کی وجہ سے یہ اسکول فی الوقت بچا ہوا ہے لیکن نہاری ہائوس والے کے دانت اب تک اسکول پر لگے ہوئے ہیں کہ کہیں محافظوں کی نظریں چوکیں اور یہاں نہاری ہائوس بن جائے۔

آج سے 4 سال قبل ایس ایم بی فاطمہ گرلز سیکنڈری اسکول گارڈن کراچی کو پہلے بڑی خاموشی سے زندگی ٹرسٹ جس کے کرتا دھرتا ایک سنگر ہیں ان کو دے دیا گیا جب طلبہ ان کے والدین اور سول سوسائٹی نے مداخلت کی تو ان کے خلاف مقدمات بنا دیے گئے۔ یہ اسکول 4 ایکڑ پر محیط ا ور اربوں روپے مالیت کا ہے، اس وقت اسکول میں 3 ہزار طالبات زیر تعلیم تھیں جو گرد و نواح کے غریب علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں لیکن محکمہ تعلیم اور سنگر کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اب صرف 8 سو طالبات زیر تعلیم ہیں۔

اب اسکول کے ساتھ منسلک کا لج کو خالی کرانے کے لیے انتہائی بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا اور سیکریٹری تعلیم نے اسے مخدوش قرار دے کر خالی کرانے کا نوٹس دے دیا، جس پر طالبات ان کے والدین اور سول سوسائٹی کے شدید احتجاج پر فی الوقت اسے روک دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکول کی عمارت جو سنگر کو دی گئی ہے وہ بالکل صحیح ہے جب کہ اس سے منسلک کالج کی عمارت کو مخدوش قرار دے کر خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سکریٹری تعلیم جو ا نتہائی طاقتور بیوروکریٹ ہیں انھیں بادشاہ بننے کے بجائے سیکریٹری تعلیم ہی رہنا چاہیے۔

اسی طرح مادر وطن کے نام پر قائم خاتون پاکستان اسکول کو بھی اندرون خانہ اسی سنگر کو دے دیا گیا ہے اور مزاحمت کرنے والے کا ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ یہ عمارت بھی 6 ایکڑ پر مشتمل اور اربوں روپے مالیت کی ہے۔

جنرل ضیاء کے زمانے یہ پالیسی بنائی گئی تھی کہ ان اسکولوں کو جو نیشلائزڈ ہونے سے پہلے چرچ مشنری، میمن برادری اور دھلی سوداگران کی ملکیت تھے وہ انھیں واپس کر دیے جائیں بعد میں اس پالیسی میں تبدیلی کی گئی اور دوسرے لوگوں کو بھی اسکول اس شرط پر واپس کیے جانے لگے کہ عمارت میں اسکول ہی چلے گا اور اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن اس پالیسی کی شدید خلاف ورزی کی گئی اور کراچی میں ڈھائی سو سے زیادہ سرکاری اسکولوں کو مختلف با اثر افراد کو دے دیا گیا جنھوں نے اسکولوں کی عمارتوں کو توڑ کر کہیں ہائی رائز بلڈنگیں، نہاری سینٹر، ریسٹورینٹ بنا لیے اور کہیں کسی دوسرے کمرشل مقاصد میں استعمال کرنا شروع کر دیں۔

محکمہ تعلیم کا ذیلی ادارہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ جس کے ذمے اسکولوں کے بچوں کے لیے مفت کتابیں چھاپنے کا کام دیا گیا تھا وہاں بھی کرپشن اپنی انتہا پر ہے۔ سابق چیرمین عبدالسلام خواجہ نے 2011ء میں اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ ہمیں اسکولوں کے بچوں کو مفت کتابیں چھا پنے کے لیے80 کروڑ روپے کا بجٹ ملا تھا۔ تمام کتابیں چھاپ کر ساڑھے 3 تین کروڑ روپے بچ گئے ہیں اس لیے فیصلہ ہوا ہے کہ کالجوں کے طلبا کے لیے بھی مفت کتابیں چھاپی جائیں۔

اس سال کے بعد پھر کبھی کالجوں کے طلبہ کے لیے مفت کتابیں نہیں چھاپی گئیں لیکن حیرت انگیز طور پر بجٹ بڑھتا رہا اور 2014ء میں یہ بجٹ بڑھ کر ڈیڑھ ارب روپے ہوگیا جب کہ ڈالر 7 روپے کم ہو گیا پھر کیا سندھ کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کی رجسڑیشن بڑھ گئی ہے؟

اسی طرح فش ہاربر کو دیکھ لیجے وہاں کی 50 کروڑ سے زائد آمدنی کو صر ف 21 کروڑ روپے دکھایا جا رہا ہے جب کہ میرین فشریز کے سابق ڈائریکڑ جنرل کی رپورٹ اس سلسلے میں بہت بڑا ثبوت ہے۔ اتنی بڑی رقم یقینا صرف محکمہ کے افسران اور وزیر کی جیب میں نہیں جاتے ہوں گے بلکہ ہماری اور ماہی گیروں کی دی ہوئی معلومات کے مطابق یہ رقم بہت اوپر تک جاتی ہے اس سلسلے میں بھی ہم چاہیں گے کہ ایک غیر جانبدارانہ اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کر کے مکمل تحقیقات کر ائی جائیں۔

حال ہی میں میڈیا میں کرپشن کی ایک رپورٹ زیر بحث ہے کہ 2011ء میں ا ے جی سندھ نے شہدا کی مد میں ملنے والی 2 4 ارب کی رقم ہڑپ کر لی۔ یہ رقم شہداء کی بیوائوں کو دی جانی تھی لیکن اسے اے جی سندھ کے افسران نے اپنے ذاتی اکائونٹ میں ڈال لیا۔

اس سلسلے میں نیب نے انکوائری کی تو انکوائری کرنے والے افسر کو 40 لاکھ روپے دے کر معاملے کو دبا دیا گیا میڈیا میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ اب کیونکہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہے اس لیے موجودہ وفاقی حکومت کیا اس کیس کو دوبارہ کھولے گی یا مصلحتوں کا شکار ہو جائے گی، لیکن میں لیڈر آف اپوزیشن کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ میں صوبے کی ایک ایک پائی وہ بھی بیوائوں کی رقم کسی کو ہڑپ کرنے نہیں دوں گا۔

کس بے دردی سے سندھ کو لوٹا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ صرف سندھ میں ایسا کیوں ہوا کیونکہ یہاں سب کو معلوم ہے کہ احتساب ہے نہ گڈ گورنس۔18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سمیت تینوں صوبوں میں پبلک اکائونٹ کمیٹی کا چیئرمین قائد حزب اختلاف ( لیڈر آف اپوزیشن) یا اس کا نمایندہ بنتا ہے لیکن یہاں ایسی صورتحال نہیں ہے سب سے زیادہ کرپشن کی شکایت کے باوجود PAC کی چیئرمین شپ اپنے پاس رکھنا کیا پیغام دے رہی ہے؟

(نوٹ: مضمون نگار قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔