اسلامی ریاست اور نظام

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 21 اگست 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ کالم ’’اقبال کا تصور پاکستان‘‘ کے بارے میں بہت سے قارئین کا ردعمل سامنے آیا جن میں نذیر حسین اور سید محمد علی نقوی کے ای میل پر مبنی خطوط بھی تھے۔ یہاں سید محمد علی نقوی کا خط قارئین کی معلومات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے جس کے شروع میں انھوں نے سورہ آل عمران کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔

کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کچھ اور تلاش کر رہے ہیں جب کہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق بہ رضا و رغبت یا بہ جبر و کراہت اسی کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے اور سب کو اسی کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔ پیغمبر ان سے کہہ دیجیے کہ ہمارا ایمان اللہ پر ہے اور جو ہم پر نازل ہوا ہے اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب پر نازل ہوا ہے۔ اور جو موسیٰ، عیسیٰ اور انبیا کو اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے ان سب پر ہے ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے اطاعت گزار بندے ہیں اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہو گا۔

(آل عمران 83 تا 85)

بعد سلام عرض ہے کہ آپ کا کالم ’’اقبال کا تصور پاکستان‘‘ پڑھا ایسے مکالمے جاری رہنے چاہئیں تا کہ حقائق روشن ہو کر سامنے آتے رہیں۔ آج اس ملک کو بنے ہوئے 67 سال گزر چکے ہیں ہمیں آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ تحریک پاکستان کے بزرگ قائدین اس ملک کے بارے میں کیسا نظام حکومت پسند کرتے تھے؟ میرا پاکستانی مسلمانوں سے یہ سوال ہے کہ یہ ملک بن چکا ہے اور ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ کیا ہم پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ ہم یہ سوچیں کہ بطور مسلمان اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اس نے ہماری دنیا و آخرت کی ہدایت کے لیے کون سا نظام پسند کیا ہے؟

کیا ہمارے مرنے کے بعد ہم سے محمد علی جناح اور ڈاکٹر محمد اقبال کے تصور پاکستان کے بارے میں سوال ہو گا کہ وہ کون سا نظام حکومت پسند کرتے تھے؟ یا پھر ہم سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تمہارے دستور حیات کے لیے کتاب ہدایت قرآن بھیجا اور حضرت محمدؐ کو تمہارے لیے نمونہ بنایا تھا تم نے ان پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی کیا پھر اپنے اس دعوے کے ثبوت کے لیے اپنا لائحہ عمل ان کے عمل کے مطابق کیوں نہیں لے کر آئے؟ ہم اس سوال کا جواب کیا دیں گے؟ سید محمد علی نقوی۔

بات یہ ہے کہ دو قومی نظریہ، قیام پاکستان کے مقاصد اور اس ملک کے لیے نظام کے بارے میں اظہار خیال کرنا عوام کا حق ہے اور اہل بصیرت کو یقینا اس سلسلے میں قلم کا استعمال بھی کرنا چاہیے لیکن اس عمل میں اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جس کی جانب میرے محترم قاری سید محمد علی نقوی نے اشارہ کیا ہے یعنی یہ کہ اب جب کہ یہ ملک بن چکا ہے اور ہمارا دعویٰ بھی ہے کہ ہم مسلمان ہیں تو پھر بحیثیت مسلمان ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم غور کریں کہ بطور مسلمان اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟

بات بالکل سیدھی سی ہے، ہم جب تاریخ اسلام یا خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو ابراہیم علیہ السلام نے نہ ہی موسیٰ علیہ السلام نے اور نہ ہی ہمارے آخری نبیؐ نے کبھی حکمرانوں سے ان کے نظام کے بارے میں یا تخت حاصل کرنے کے بارے میں سوال کیا بلکہ تمام ہی نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پیغام کو عام کرنے اور تسلیم کرنے کے لیے بات کی البتہ جب اقتدار ملا تو پھر عملاً خدا کے پیغام کو شکل بھی دی خواہ اس وقت طرز حکمرانی بادشاہت قسم کا ہو یا شوریٰ قسم کا ہو۔

اب قابل غور بات یہ ہے کہ اگر اس وقت پاکستان میں فوری طور پر خلافت راشدہ والا طرز حکمرانی یا نظام سیاست نہیں لایا جا سکتا کہ جس دور کو ہم تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ اقوام عالم کا بھی سنہری دور سمجھتے ہیں تو کم از کم موجودہ نظام کو ہی جہاں تک ممکن ہو سکے اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق کر لیں کیونکہ بہرحال اپنے عقیدہ آخرت کے مطابق ہم سب سے یہ سوال تو ضرور ہو گا کہ جس خطہ زمین پر ہماری اکثریت تھی اور ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے تھے تو پھر اپنے دعوے کو عملی شکل دینے کے لیے کیا کیا کوششیں کیں؟

یہاں میں سیکولر نظریات کے افراد کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کر رہا ہوں کیونکہ زندگی گزارنے کے سیکولر نظریات الگ ہیں اور اسلامی نظریات ان سے قطعی مختلف ہیں جب کہ پاکستان میں بھاری اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا زندگی گزارنے کا نظریہ اسلامی ہے اور انھوں نے قیام پاکستان کے لیے بھی کوشش کرتے وقت الگ خطہ زمین کے حصول کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا تھا اور ان کا اسلامی نقطہ نظر اس قدر شدت پر مبنی تھا کہ وہ محض قائد اعظم کے پیچھے چل نہیں رہے تھے بلکہ مولانا محمد علی جوہر جیسے رہنماؤں کی اپیل پر تحریک خلافت کے لیے جان و مال کی قربانیاں پیش کر رہے تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس قوم کے اسلاف کسی دوسری خطہ زمین پر نظام خلافت کو بچانے کے لیے تحریک چلائیں جیلوں میں جائیں، مظالم سہیں اس قوم کی نسل اپنے ہی حاصل کردہ خطہ سرزمین پر اسلام کے نظام کو عملی شکل دینے کے لیے کوشش کیوں نہ کرے؟

بات سیدھی سی ہے کہ یا تو ہم سرے سے اپنے اسلاف کے کردار سے اختلاف کریں اور تسلیم کر لیں کہ سرسید سے لے کر قائد اعظم تک تمام سرکردہ اسلاف رہنما غلط تھے اور ان کا نظریہ غلط تھا اور ہم ہی درست ہیں یا اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ٹیپو، سرسید، جوہر، لیاقت اور قائد اعظم سب ہمارے اسلاف اور عظیم رہنما تھے تو پھر ہمیں اس مملکت پاکستان میں ان ہی کے نظریات کے مطابق نظام کی بات کرنی چاہیے۔

مومن صرف اور صرف احکام الٰہی کا پابند ہوتا ہے اس سلسلے میں اقبال کا پیغام کیا خوب ہے:

پابندی تقدیر کہ پابندی احکام

یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند

اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر

ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ابھی خورسند

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

یہ اور بات ہے کہ آج ترقی و کامیابی کے لیے ہمیں ایک سے بڑھ کر ایک دانشور مل جاتے ہیں جو اس ملک کے لیے عوام کو نہ جانے کیا کیا نسخے فراہم کرتے ہیں حالیہ پنجاب/اسلام آباد میں شاہراہوں پر دھرنے اور مظاہرے و مارچ بھی نہ جانے کیا کیا خواب عوام کو دکھا رہے ہیں علامہ اقبال نے بہت خوب کہا تھا:

تھا جو ناخوب بتدریج وہی‘ خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

آئیے! ایک لمحے کے لیے غور کریں، اگر میری زندگی گزارنے کا عقیدہ اسلامی ہے تو پھر ریاست کے نظام کے لیے غیر اسلامی کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔