انقلاب کا موجودہ نعرہ مصنوعی ہے، عنایت حسین

اقبال خورشید  جمعرات 21 اگست 2014
معروف سیاسی کارکن اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے ترجمان، عنایت حسین کے حالات و خیالات۔  فوٹو : فائل

معروف سیاسی کارکن اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے ترجمان، عنایت حسین کے حالات و خیالات۔ فوٹو : فائل

نظریاتی آدمی ہیں۔ مقبول رائے کے خلاف جانا تو قبول، مگر نظریات پر سمجھوتا گوارا نہیں۔

صحافت بھی اپنے اصولوں پر کی، اور سیاست بھی۔ لیفٹ کا پرچم اٹھائے طلبا سیاست میں قدم رکھا، تو جلد ہی شمار فعال کارکنوں میں ہونے لگا۔ پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں شامل۔ پارٹی کی تشکیل سے چار برس قبل ہی بھٹو صاحب کو سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دے ڈالا۔ 70ء کے انتخابات سے پہلے اپنی کتاب میں پیپلزپارٹی کی کام یابی کی پیش گوئی کردی۔

صحافتی تحاریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قید و بند کی صعوبتیں سہیں۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پالیسیوں سے خود کو متفق نہیں پایا، تو واضح الفاظ میں اختلاف کیا۔ مرتضیٰ بھٹو کی سیاسی منظر میں آمد کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے اُنھیں 70 کلفٹن کا ترجمان مقرر کیا، جو اِس وقت پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کا مرکز ہے۔ گذشتہ دو عشروں سے وہیں ہیں۔

جس صبح عنایت حسین سے ہماری ملاقات ہوئی، آسمان بادلوں سے ڈھکا تھا۔ 70 کلفٹن کی دیواروں پر آویزاں تصاویر سے ماضی جھانک رہا تھا۔ جب یہی ماضی، جس میں امید کی روشنی بھی تھی، اور جبر کی تاریکی بھی، عنایت حسین کی کہانی میں ظاہر ہوا، تو حال اور مستقبل کے نپے تلے تجزیے نے اُسے مزید پُراثر بنا دیا۔ عنایت حسین کا سفر زندگی فقط ایک طلبا لیڈر یا سیاسی کارکن کی داستان نہیں۔ یہ فقط ایک صحافی کا قصّہ نہیں۔ یہ پیپلزپارٹی کے سیاسی سفر کا بھی تذکرہ ہے، جس میں کئی نشیب و فراز آئے۔ اور وہ، ایک مخلص کارکن کی حیثیت سے، تمام مراحل سے گزرے۔

پیپلزپارٹی (شہید بھٹو)، جس کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو ہیں، ایک عرصے سے سیاست میں ہے، مگر انتخابی میدان میں یہ جماعت اپنی چھاپ نہیں چھوڑ سکی۔ پہلے یہی موضوع زیر بحث آیا۔ کہنے لگے،’’جب تک انتخابات میں دھاندلی کا سلسلہ جاری ہے، عوام کی جنگ لڑنے والے اقتدار میں نہیں آسکتے۔ جب ریٹرنگ افسر ایک سرکاری ملازم ہو، تو انتخابات غیرجانب دار کیسے ہوسکتے ہیں۔ اب مشرف دور میں محترمہ غنویٰ بھٹو کو گریجویشن کی بنیاد پر ڈی کوالیفائی کردیا گیا۔ یہ سراسر غیرآئینی اقدام تھا۔ اور یہ فقط ایک مثال ہے۔‘‘

پارٹی کا دعویٰ ہے کہ چاروں صوبوں میں اِس کی شاخیں ہیں۔ پنجاب میں ڈاکٹر مبشر حسن جیسی شخصیت صوبائی صدر۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں عملی میدان میں پارٹی کی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں؟ اِس کے جواب میں کہتے ہیں،’’میں تمام صحافیوں اور چینلز سے درخواست کرنا چاہوں گا کہ آپ ہمارے ساتھ محترمہ غنویٰ بھٹو کے جلسوں میں شرکت کریں۔ آپ کو لگے گا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا، شہید مرتضیٰ بھٹو کا جلسہ ہے۔ میں غنویٰ بھٹو کو خاتون انقلاب کہتا ہوں۔ کسی سے موازنہ نہیں، مگر میں نے اپنی زندگی میں ایسی انقلابی خاتون نہیں دیکھیں۔ انھیں سیاست میں آئے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ اور ابھی اُنھیں سامنے آنا ہے۔‘‘

یہاں سے گفت گو کا رخ انقلاب کی سمت مڑ گیا کہ آج کل اِسی نعرے کی بازگشت ہے۔ عنایت حسین کہتے ہیں،’’جب اسٹیبلشمنٹ اور سام راجی قوتوں کو احساس ہوتا ہے کہ زیر زمین حقیقی انقلاب کی لہر ہے، تو انقلاب کی مصنوعی صورت حال پیدا کر دی جاتی ہے۔ انقلاب کے موجودہ نعرے مصنوعی ہیں۔ انقلاب آخر ہے کیا؟ یہ عوام کی جانب سے حکم رانوں کے مظالم کے خلاف جدوجہد کا نام ہے۔ اب یہ کیسا انقلاب ہے، جس کی قیادت وہ طبقات کر رہے ہیں، جو کسی نہ کسی صورت خود برسر اقتدار ہیں۔‘‘

دھیمے لہجے میں گفت گو کرنے والے اِس سیاسی کارکن نے 1940 میں حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ نانا، ڈاکٹر نواب سر محمد حبیب اللہ وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کے رکن تھے۔ جس زمانے میں سرشاہ نواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے دیوان تھے، ڈاکٹر صاحب جنوبی بھارت کی ریاست ٹراؤن کور کے دیوان کا منصب سنبھالے ہوئے تھے۔ دونوں میں دیرینہ مراسم رہے۔ بہ قول عنایت حسین، سر شاہ نواز بھٹو ممبئی میں اُن کے نانا کی رہایش گاہ، قاسم منزل آیا کرتے تھے۔ کم سن ذوالفقار علی بھٹو بھی ساتھ ہوتے۔

دادا مدراس کے کمشنر، اور والد، غلام دستگیر مہکری ریاست حیدرآباد دکن کے محکمۂ اطلاعات میں افسر رہے۔ سقوط حیدرآباد کی یادیں ذہن میں محفوظ۔ ریل سے خاندان ممبئی پہنچا۔ کراچی کے لیے بحری راستہ اختیار کیا۔ ریاست خیرپور کے دیوان، ممتاز علی قزلباش کی پیش کش پر والد محکمۂ اطلاعات، خیرپور کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ ون یونٹ کے بعد بددل ہو کر استعفیٰ دے دیا۔ بعد میں خاندان کراچی اٹھ آیا۔

پانچ بھائی، تین بہنوں میں اُن کا نمبر چھٹا۔ والد شفیق آدمی تھے۔ البتہ تعلیمی معاملے میں سخت واقع ہوئے تھے۔ عنایت صاحب نے خیرپور کے ناز ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ٹیبل ٹینس کے بہترین کھلاڑی۔ آفیسرز کلب میں ریاست کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ خوب ٹینس کھیلی۔ وہاں کی حسین یادیں ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ فیض محل، اسٹیٹ لائبریری، صاف ستھری سڑکیں۔ کئی عشروں بعد مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ خیرپور کا رخ کیا، تو سامنا ایک کھنڈر سے ہوا۔ کہتے ہیں،’’افسوس کی بات ہے کہ خیرپور سے منتخب ہونے والے قائم علی شاہ کئی بار وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، مگر انھوں نے اپنے ضلعے کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔‘‘

ڈی جے سائنس کالج سے انٹر اور جناح کالج سے گریجویشن کیا۔ والد کی خواہش پر جامعہ کراچی کے جیولوجی ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بن گئے، مگر رجحان صحافت کی جانب تھا، سو شعبہ تبدیل کر لیا، اور جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔ زمانۂ طالب علمی میں عملی میدان میں قدم رکھا۔ تدریس کا پیشہ چنا۔ انگریزی ان کا مضمون۔ برسوں مختلف اسکولز میں پڑھاتے رہے۔ صحافت کی طرف آئے، تو بہ طور سب ایڈیٹر ’’برنس پوسٹ‘‘ کا حصہ بن گئے۔ تدریس اور صحافت ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ البتہ جامعہ کراچی میں داخلے کے بعد تدریس چھوڑ دی۔ نو برس ’’برنس پوسٹ‘‘ میں رہے۔ اس دوران ’’ایوننگ اسٹار‘‘ اور ’’حریت‘‘ میں بھی لکھتے رہے۔ بعد کے برس ’’مساوات‘‘ میں گزرے۔ پھر عملی صحافت کو خیرباد کہہ دیا۔

لیفٹ کے نظریات والد سے وراثت میں ملے۔ اسکول میں ڈی ایس ایف (ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن) کی ذیلی تنظیم ایچ ایس ایف کا حصہ تھے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی سرپرستی میں تربیتی مراحل طے کیے۔ معراج محمد خان اور جوہر حسین سے ملاقاتیں رہیں۔ بوری بازار میں طلبا کے جس جلوس پر فائرنگ ہوئی، عنایت حسین اُس کی قیادت کررہے تھے۔ اُس افسوس ناک واقعے میں دو نوجوان ہلاک ہوئے۔ اُن پر بھی شدید تشدد ہوا۔ واضح رہے کہ یہ 8 جون 53ء سے پہلے کا واقعہ ہے، جس میں آٹھ طلبا سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کالج میں وہ ڈراما سیکریٹری رہے۔ این ایس ایف (نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن) کی سینٹرل کمیٹی کے رکن رہے۔ سوشل سیکریٹری کا عہدہ بھی ان ہی کے پاس۔ این ایس ایف کے کراچی یونیورسٹی یونٹ چیف رہے۔

پیپلزپارٹی سے وابستگی کا قصّہ چھڑا، تو یادوں کا البم کھل گیا۔ بہ قول اُن کے، 66ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اِس فیصلے کا بہت چرچا ہوا۔ ’’لیفٹ کے میرے ساتھی اُنھیں جاگیردار تصور کرتے تھے، مگر مجھے محسوس ہوا؛ بھٹو صاحب ترقی پسند نظریات کی ترویج اور عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے میںکردار ادا کرسکتے ہیں۔‘‘ سینئرز سے اجازت لیے بغیر 70 کلفٹن پہنچ گئے۔ ملاقات کی جزئیات آج بھی یاد ہیں۔ ’’بھٹو صاحب بہت گرم جوشی سے ملے۔ گفت گو انگریزی میں ہوئی۔

بات چل نکلی، تو میں نے کہا؛ بھٹو صاحب اب آپ فرد واحد نہیں، بلکہ قوم کی امانت ہیں۔ آپ اقتصادی بنیادوں پر ایک منشور بنائیں۔ پارٹی قائم کریں۔ وہ کہنے لگے؛ عنایت پارٹی بنانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے جواب دیا؛ آپ کو پیسوں کی ضرورت نہیں، نوجوان آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کو اپنا خون دینے کے لیے تیار ہیں۔ جواب میں انھوں نے میرا کاندھا تھپتھپایا۔‘‘ اگلی ملاقات ایک ہفتے بعد ہوئی۔ پھر درخواست دہرائی۔ عنایت حسین کے مطابق بھٹو صاحب پارٹی بنانے کا ارادہ کر چکے تھے، مگر لوگوں سے مشورے کرتے رہے۔

آنے والے برس بھٹو صاحب کے زیر سایہ گزرے۔ نومبر 69ء میں پارٹی تشکیل دی گئی۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والے کنونشن میں یوں نہیں پہنچ سکے کہ کرایے کے پیسے نہیں تھے۔ عہدوں میں دل چسپی نہیں لی، میدان صحافت میں مصروف رہے۔ ان ہی دنوں ’’بھٹو: ایک سیاسی جائزہ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ بھٹو صاحب نے پڑھی، تو پسند کیا۔ اُسی میں پیش گوئی کی کہ پیپلزپارٹی مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرے گی۔

پیپلزپارٹی کی تحریک، انتخابات اور حکومت کی تشکیل؛ ہر مرحلے پر کارکن کی حیثیت سے شامل رہے۔ 73ء میں مساوات، کراچی سے بہ طور چیف رپورٹر وابستہ ہوگئے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس، مساوات یونٹ کے چیف رہے۔ 77ء میں جب ضیاء حکومت نے مساوات، کراچی بند کر دیا، تو پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی صحافتی تحریک کا آغاز ہوا۔ تنظیم کی ہدایت پر لاہور چلے گئے۔ ریگل چوک سے گرفتاری پیش کی۔ فوجی عدالت نے چھے ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی۔ مختلف جیلوں میں یہ عرصہ گزرا۔ رہائی کے بعد تحریک کے تیسرے مرحلے میں، جو 18 جولائی 78ء کو شروع ہوا، فعال کردار ادا کیا۔ ممتاز صحافی، منہاج برنا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ آج میڈیا کو جو آزادی میسر ہے، وہ 77-78 کی تحریک آزادی صحافت کے مرہون منت ہے۔

عنایت حسین کے مطابق تحریک نے ضیاء حکومت کو تو جُھکا دیا، مگر مساوات اپنے پیروں پر نہیں کھڑا ہوسکا کہ وہ نظریاتی پرچہ تھا، پیپلزپارٹی اُسے جاری رکھنے میں مزید دل چسپی نہیں رکھتی تھی۔ ’’میں نے اپنے ساتھی اچھی میمن مرحوم کے ساتھ 80 کی دہائی میں مساوات نکالنے کی کوشش کی تھی۔

میٹروپول ہوٹل کے پاس دفتر کر لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بات بھی کی۔ اُنھیں یاد دلایا کہ بھٹو صاحب نے مرتضیٰ اور شاہ نواز کے بعد مساوات کو اپنا تیسرا بیٹا قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا؛ پارٹی میں بڑے بڑے جاگیردار ہیں، ان سے سرمایہ کاری کے لیے کہیں۔ مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘‘

اِس کا سبب عنایت حسین محترمہ کے بدلتے سیاسی نظریات کو ٹھہراتے ہیں۔ ’’محترمہ کی پہلی حکومت صرف ڈیڑھ برس اقتدار میں رہی۔ اِسی کے پیش نظر 93ء انتخابات سے قبل اُنھوں نے پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کہا؛ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نظریاتی سوچ کے بجائے عملیت پسندانہ سوچ اپنائیں۔ جب نظریات ہی بدل گئے، تو لیفٹ کا پرچہ کیوں نکلے گا۔‘‘

مساوات کے معاملے نے اُنھیں رنجیدہ کر دیا، البتہ آنے والے برسوں میں پارٹی کے میڈیا کو آرڈی نیٹر کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ بیگم بھٹو کی تقاریر لکھا کرتے، پریس ریلیز تیار کرتے۔ نہ تو اُس وقت معاوضہ لیا کرتے تھے، نہ ہی آج لیتے ہیں۔ پھر ایک کار حادثے نے کمر بستر سے لگا دی۔ دوران علاج یہ خیال ذہن میں راسخ ہوگیا کہ پارٹی بھٹو کے نظریات تج چکی ہے، اب ان کا پارٹی کے ساتھ گزارہ مشکل ہے۔ بیساکھیوں کے سہارے بلاول ہاؤس پہنچے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، اور گھر لوٹ آئے۔

93ء میں مرتضیٰ بھٹو کی پاکستان واپسی کے بعد زندگی میں نیا موڑ آیا۔ کہتے ہیں،’’الیکشن میں بیگم بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو منتخب ہوئے۔ میں مبارک باد دینے 70 کلفٹن آیا، تو بیگم صاحبہ بہت شفقت سے پیش آئیں۔ اُسی روز مجھے 70 کلفٹن کا ترجمان مقرر کر دیا۔‘‘ 15 مارچ 95ء کو پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے بہ قول،’’یہ پیپلزپارٹی کی تجدید کا عمل تھا۔ بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی پارٹی تو اپنے راستے سے ہٹ چکی تھی۔ تو 70 کلفٹن میں وہ کنونشن ہوا۔ بیگم بھٹو نے، جو پارٹی کی تاحیات چیئرپرسن تھیں، اپنی چیئرپرسن شپ شہید مرتضیٰ کے حوالے کردی۔ محترمہ کی پارٹی نے تو، جسے میں زرداری لیگ کہتا ہوں، بیگم صاحبہ کو چیئرپرسن شپ سے ہٹا دیا تھا۔‘‘

اس مرحلے پر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اختلافات بھی زیر بحث آئے۔ کہنے لگے،’’لوگ سوال کرتے ہیں، کیا یہ جائیداد یا سیاسی گدی کا مسئلہ تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ بھٹو صاحب اپنی زندگی میں جائیداد بچوں میں تقسیم کر چکے تھے۔ یہ نظریاتی اختلاف تھا۔ جب مجھ جیسے کارکن نے اعتراضات کیے، تو کیا مرتضیٰ بھٹو جیسے قائد کو اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ اپنے جلسوں میں محترمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے؛ ادّی، میرے چار مطالبات مان لو، میں ایک کارکن کی حیثیت سے تمھارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ پہلا مطالبہ؛ بیگم بھٹو کی تاحیات چیئرپرسن شپ بحال کریں۔ دوسرا؛ پارٹی سے بھٹو کے قاتلوں کو باہر کریں۔ تیسرا؛ آڈٹ کروائیں۔ چوتھا؛ پارٹی انتخابات کروائیں۔ بس یہ چار سادہ سے مطالبات تھے، جنھیں نہیں مانا گیا۔‘‘

عنایت حسین کے مطابق 20 ستمبر 96ء کو جب پولیس نے 70 کلفٹن کے سامنے، مرتضیٰ بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا، وہ لاہور میں اپنے قائد کے منتظر تھے کہ وہاں پارٹی کا جلسہ ہونے والا تھا۔ کہتے ہیں؛ مرتضیٰ بھٹو کو اُن ہی قوتوں نے قتل کیا، جنھوں نے بھٹو صاحب کو پھانسی لگائی کہ سام راج کو گوارا نہیں تھا کہ بھٹو کے حقیقی جانشین زندہ رہیں۔

اپنے قائدین کی موت سے کرب ناک یادیں جڑی ہیں۔ ’’بھٹو صاحب کی موت کے وقت یوں لگا، جیسے انقلاب کی خواہش کو پھانسی لگا دی گئی ہو۔ مرتضیٰ بھٹو کی موت کا لمحہ بھی انتہائی کرب ناک تھا۔ تسلی یوں ہوئی کہ نظریہ زندہ رہتا ہے۔‘‘

’’بھٹو کا وارث بھٹو‘‘ کیا یہ نعرہ موروثی سیاست کی توسیع نہیں؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،’’فاطمہ بھٹو صاحبہ سے ہر بار یہی سوال کیا جاتا تھا۔ اِسی وجہ سے انھوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی علیحدہ شناخت بنا کر سیاست میں آئیں گی۔ اور انھیں نے بہ طور قلم کار اپنی حیثیت بنائی۔ کیسی کیسی نظمیں لکھیں۔ Songs of Blood and Sword  جیسی شاہ کار کتاب لکھی۔ ابھی ان کا ناول آیا ہے۔‘‘ ذوالفقار جونیر کا موضوع آیا، تو کہنے لگے،’’وہ ابھی زیر تعلیم ہیں۔ تین برس باقی ہیں۔ وہ تعلیم مکمل کرکے میدان سیاست میں قدم رکھیں گے۔ جہاں تک موروثی سیاست کا تعلق ہے، آپ معاشرتی اور سیاسی تقاضوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ یہ تو عوام کا مطالبہ ہے۔ وہ چاہیں تو رد کردیں۔‘‘

پاکستان کے مستقبل سے وہ مایوس نہیں۔ کتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔ عنوان بھی سوچ رکھا ہے۔ شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ محسوس کرنے والے عنایت حسین چاول سے پرہیز کرتے ہیں۔ سردی سے ہم آہنگ ہونے میں دقت ہوتی ہے۔ مہدی حسن اور مکیش کی گائیکی کے معترف۔ دلیپ کمار کے مداح۔ ’’دیدار‘‘ کو بہترین فلم قرار دیتے ہیں۔ شعرا میں غالب، اقبال، فیض، خالد علیگ اور جالب کا نام لیتے ہیں۔ فکشن میں کرشن چندر اور شوکت صدیقی بھائے۔ ’’جب کھیت جاگے‘‘ من پسند ناول۔ مطالعے کا شوق بچپن سے ساتھ، مگر 77-78ء کی تحریک کے دوران جیل میں شدید مشقت کی، جس سے بینائی متاثر ہوئی۔ مطالعہ گھٹ گیا۔ تین عشروں قبل شادی ہوئی۔ ان کی زوجہ، سیما رفیق اپنے زمانے کی معروف مزدور لیڈر تھیں۔ پاکستان لیبر فیڈریشن کی عہدے دار رہیں۔ ضیاء دور میں مقدمات جھیلے۔ اس وقت پیپلزپارٹی (شہید بھٹو) کی سینٹرل کمیٹی کی رکن ہیں۔ خدا نے اُنھیں ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔