’’میری امی کہاں ہیں...؟‘‘

رضوان طاہر مبین  پير 18 اگست 2014
ماں کی شفقت سے محروم ہونی والی ننھی کلیوں کو کیسے مطمئن کیا جائے، ماہرین عمرانیات اور نفسیات کی آرا   فوٹو؛فائل

ماں کی شفقت سے محروم ہونی والی ننھی کلیوں کو کیسے مطمئن کیا جائے، ماہرین عمرانیات اور نفسیات کی آرا فوٹو؛فائل

انسان کتنا مضبوط اور طاقت وَر ہے کہ بڑے بڑے کارنامے کر گزرتا ہے، اس کی یہ پختگی اور مضبوطی دراصل اس کی اچھی جسمانی اور ذہنی پرورش کا نتیجہ ہے، جس کی بنا پر وہ آسمان پر اڑنے اور چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے… اور ماں ہی وہ شجر سایہ دار ہے، جس نے اس کے نازک سے وجود کو زمانے کے سخت تھپیڑوں سے بچا کر رکھا اور ہر سرد وگرم کو خود پر سہہ کر اس پر کوئی آنچ تک نہ آنے دی۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ انسان عمر کے کسی بھی حصے میں اسے کھونے کا تصور تک نہیں کر سکتا۔زندگی کے کسی موڑ پر جب یہ جدائی مقدر بن جائے، تو چاہے، اس کی اولاد تک ہی صاحب اولاد کیوں نہ ہو، وہ بچوں کی سی طرح بلک بلک کر رو دیتا ہے۔

دنیا کے اس قریب ترین ناتے میں فطرت نے ایسی قوت اور محبت رکھی ہے کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا محال ہے، لیکن بعض اوقات تقدیر میں ایسی چیزیں رقم ہوتی ہیں کہ ابھی ننھی کلیاں نازک اندام ہی ہوتی ہیں کہ ان سے یہ آغوش اور پناہ چھن جاتی ہے… حقیقتاً ان معصوم بچوں کے لیے یہ گھڑی قیامت کی سی ہوتی ہے۔ اپنے اب تک کے جیون میں انہوں نے فقط اُسی سے توسب کچھ سیکھا ہوتا ہے، ہر درد میں، ہر مرض میں اسی کی طرف دیکھا ہوتا ہے… اسے ہی پکارا ہوتا ہے… وہی تھی جس نے ان کی نگاہوں سے ہی اَن کہی بات جاننے کا فن سیکھ رکھا تھا…

کتنی ہی بار اندھیروں میں روشنی، مشکلات میں سہارا، درد میں دوا اور زخم پہ مرہم بنی… پھر وہ نہ رہی…! دور… بہت دور چلی گئی، کبھی نہ لوٹنے کے لیے…! وہ تو ماں کے ساتھ جان کی طرح لگے رہتے تھے۔ اب کیا ہوگا…؟ ان کے سُتے ہوئے چہرے ان کے مَن کی ویرانی کے بیان کو کافی ہوتے ہیں… بہت سوں کو پوچھنا نہیں آتا… مگر نگاہیں سوالی ہیں… ایسے میں ان کے عزیز واقارب بھی ایک اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ جب وہ معصوم سی کلیاں یہ پوچھتی ہیں کہ ان کی امی کہاں ہیں…؟

یہ سن کر ان کے زخمی کلیجوں پر آرے سے چل جاتے ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ ان فرشتوں سے بچوں کو کیا بتائیں اور کس طرح سمجھائیں…! اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ماہرین نفسیات وعمرانیات کی رائے جانی گئی کہ آیا اس موقع پر ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جائے، جو ان کے لیے بہتر ثابت ہو۔

ڈاکٹر ثوبیہ ناز: صدرشعبۂ عمرانیات، جامعہ کراچی

بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے کسی حادثے کے بعد بہت زیادہ چرچا کیا جاتا ہے کہ ماں چلی گئی، اب بچوں کا کیا ہوگا وغیرہ۔ 80 فی صد گھرانوں میں بچوں کی موجودگی سے بے نیاز اس طرح تبادلہ خیال کیا جاتا ہے، جو مناسب نہیں… ساتھ ہی دوسری شادی اور سوتیلی ماں کے منفی تاثر کا بھی خوب تذکرہ ہوتا ہے۔ اس سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ بچے اس طرح کی باتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ دوسری ماں کے منفی تاثر کو بھی ختم کیا جانا ضروری ہے۔ بچے پر سختی تو سگی ماں بھی کرتی ہے، لیکن اس بنیاد پر سوتیلی ماں کو ظالم بنانے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔

ماں کا سایہ اٹھ جانے کے بعد اس کی کمی پوری کرنے کے لیے خالہ یا پھوپھی وغیرہ کو توجہ دینی چاہیے اور ماں کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بچے سے چھپانا نہیں چاہیے، بلکہ سچ بولنا چاہیے، جیسے ایک نانی نے اپنی نواسی کو بیٹی بنا کر رکھا اور اس کی ماں یعنی اپنی بیٹی کی دوسری شادی کرا دی، پھر جب اس لڑکی کی شادی ہوئی اور ایک دن یہ حقیقت کھلی، تو اس کی نئی زندگی میں پھر کافی مسائل کھڑے ہوئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شروع سے ہی سچ بولیں۔ اسے محبت سے حقیقت بتا دی جائے کہ آپ کی امی اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہیں۔ آج کل کے بچے سمجھ دار ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہا جا سکتا ہے کہ دعا کرو کہ وہ آجائیں۔ ساتھ ہی اس کا دھیان بانٹنے کے لیے اسے اس کے پسندیدہ مشاغل میں مصروف رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹرفرح اقبال: استاد، شعبۂ نفسیات، جامعہ کراچی

دنیا میں چاہے کوئی اور رشتہ کتنا ہی قریب تر کیوں نہ ہو، وہ ماں کا متبادل ہو ہی نہیں سکتا۔ جس طرح فطری طور پر اس کا رشتہ بچے سے جڑا ہوتا ہے کہ اسے بچے کی ضرورت اور تکلیف فوراً پتا چل جاتی ہے۔ اسی لیے یہ خلا تو رہے گا۔ تاہم ایسے مرحلے پر ضروری ہے کہ اس کا قریب ترین کوئی ایسا بڑا اس کی مادرانہ کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اس ضمن میں ثقافتی ہم آہنگی لازمی ہے۔ بہ صورت دیگر بچے کی شخصیت متاثر ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفات کے بعد بھی اسی لیے بہت سے بچوں کو گود لینے سے روکا گیا کہ اگر پہاڑوں کے ماحول میں رچے بسے بچوں کو سمندر ی علاقے کا ماحول ملے گا، تو ان کے لیے نفسیاتی طور پر بہتر نہیں۔ گود لینے والے والدین چاہے کتنی ہی محبت اور خلوص سے کوشش کر لیں، لیکن ثقافتی خلیج کو پاٹنا ان کے بس میں نہیں ہوتا۔

ماں کے چلے جانے کے بعد بچے کو دھوکے میں نہ رکھیں، بلاواسطہ نہ بتائیں، لیکن بلواسطہ اسے یہ باور کرائیں کہ دنیا میں چیزیں ہوتی ہیں، پھر ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے قصے کہانیوں یا کارٹون وغیرہ کی مثالوں کے ذریعے اسے بتائیں، تاکہ اس میں اس وقت سے قبولیت پیدا ہو۔ اسے کھلونوں کے ٹوٹنے اور ختم ہونے کی مثال دی جا سکتی ہے، پھول اور پودوں کے حوالے دے کر سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس سے جھوٹ نہ کہیں ورنہ پھر کچی عمر میں ہی آپ پر سے اس کا اعتبار اور اعتماد اٹھ سکتا ہے۔ اسے بتائیں کہ وہ دور گئی ہوئی ہیں۔ تم انہیں یاد کرو گے، تو وہ تمہارے پاس ہوں گی۔ تم ان کے لیے دعا کرو گے، تو وہ بہت خوش ہوں گی۔ اس طرح اسے باتوں باتوں میں حقیقت سے قریب کریں، تاکہ وہ اس حقیقت کو قبول کرنے کے قابل ہو۔ ساتھ ہی اسے بھر پور توجہ دیں۔ اگر اس کی دوسری ماں ہیں تو اسے یہ بھی بتا دیں کہ تمہاری دو ماں ہیں، ایک حقیقی امی تھیں اور یہ دوسری امی ہیں۔ یہ بھی آپ سے بہت محبت کرتی ہیں اور آپ کا خیال رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر صابر خان: ماہر نفسیات

چھے سال کی عمر تک کا بچہ اس سانحے کو نہیں سمجھ پاتا۔ یہ حادثہ اس میں شدید ڈپریشن کا باعث ہوتا ہے۔ فوی ضرورت اس کے لیے مادرانہ شفقت اور ماں کی نفسیاتی کمی کو پورا کرنا چاہیے، یہ ذمہ داری اس کے کسی قریبی شخص کو انجام دینا چاہیے۔ ماں کے دنیا سے جانے کے بعد جب یہ پوچھے تو اسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کہیں گئی ہوئی ہیں، آجائیں گی۔ اس طرح کہہ کر اسے ذہنی طور پر آہستہ آہستہ تیار کریں اور توجہ بانٹ کر اس کی ڈپریشن کم کرنے کی کوشش کریں، پھر سات سال کی عمر تک آہستہ آہستہ اس پر یہ حقیقت واضح کر دیں۔ اگر اس موقع پر بچے کی عمر سات آٹھ سال ہے، تو وہ ان چیزوں کو مکمل طور پر سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے یقیناً حقیقت کے بارے میں مکمل طور پر معلوم چل ہی جاتا ہے۔

پروفیسر مہدی حسن زیدی: صدر شعبۂ عمرانیات، اسلامیہ آرٹس وکامرس کالج

ماں کا وجود ہر بچے کا ایک فطری تقاضا ہے۔ طبقاتی لحاظ سے دیکھیں تو کہیں کم اور کہیں زیادہ، لیکن ماں، ماں ہے۔ اس کے دنیا سے چلے جانے کے حادثے کے بعد امیر طبقوں میں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا رکھ لی جاتی ہے، جب کہ متوسط اور دیگر طبقوں میں قریبی رشتے یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماں کے بعد سب سے زیادہ ضروری عمل یہ ہے کہ اس کی ضروریات اور خواہشات بالکل اسی طرح پوری ہوتی رہیں، جیسا ماں کی زندگی میں پوری ہو رہی تھیں۔ بہتر عمل یہ ہے کہ اس کی کوئی قریبی رشتے دار خاتون ماں کی یہ کمی پوری کرے۔ ہمارے معاشرے میں نانی، دادی، خالہ، چچی یا پھوپھی تائی وغیرہ یہ کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہی اس کا قریب ترین حل ہے۔

بچہ جب ماں کے بارے میں پوچھے تو اسے منطقی انداز میں جواب دیا جائے کہ دیکھو بیٹا، یہ ایک نظام ہے، یہاں ہر ایک اپنا اپنا وقت پورا کر کے چلا جاتا ہے۔ جیسے آپ اسکول جاتے اور آتے ہیں۔ وہاں آپ کا ایک متعین وقت ہے، آپ پہلے آجاتے ہیں، آپ کے ٹیچر تھوڑی دیر سے آتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں بھی لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں۔ اسے دنیا سے چلے جانے والے رشتہ داروں کے حوالے سے بتایا جائے کہ دیکھو پہلے وہ بھی ہوا کرتے تھے، پھر ان کا وقت ختم ہوا تو وہ چلے گئے…

اسی طرح آپ کی امی کا بھی وقت ختم ہو گیا تھا، اس لیے وہ چلی گئیں۔ بچے کو غیر حقیقت پسندانہ جواب دینے سے گریز کریں، کیوں کہ یہ سائنسی دور ہے اس لیے پورے استدلال کے ساتھ مطمئن کریں۔ ٹال مٹول والے جواب دیں گے، تو پھر وہ دوبارہ بھی پوچھے گا اور آپ کو پھر اسی طرح اسے غیر حقیقی جواب دینا پڑے گا، جب کہ حقیقی بات اسے مطمئن کرے گی اور وہ آہستہ آہستہ حقیقت کو تسلیم کر لے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسے سچائی اور ٹھوس بات بتا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔