انقلاب

جاوید چوہدری  جمعـء 22 اگست 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

آپ اگر انقلاب کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہنری اور ٹام کی کہانی سننا ہو گی‘ ہنری اور ٹام دونوں امریکی ریاست ٹیکساس میں رہتے تھے‘ یہ دونوں سیاہ فام تھے‘ یہ دونوں نیم پڑھے لکھے‘ غریب اور نادار تھے‘ یہ دونوں دوست اور ہمسائے تھے‘ یہ دونوں اپنی معاشی‘ سماجی اور سیاسی زندگی بدلنا چاہتے تھے‘ ٹام کا خیال تھا‘ ہمیں ایک آئیڈیل‘ شفاف‘ ہمدرد اور انقلابی حکومت چاہیے‘ انقلابی لیڈر آئے گا اور وہ امریکا کے پسے ہوئے طبقوں کو عزت‘ برابری‘ انصاف اور روزگار دے گا‘ ہم جیسے لوگوں کو بھی گھر ملیں گے‘ مہنگی گاڑیاں ملیں گی‘ ہم بھی جہازوں پر سفر کریں گے‘ ہم بھی فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہیں گے، ہم بھی ٹی وی پر آئیں گے اور ہم بھی مشہور ہو جائیں گے۔

ہنری کا ویو مختلف تھا‘ وہ سمجھتا تھا دنیا کی کوئی حکومت‘ کوئی سیاسی جماعت اور کوئی لیڈر کسی شخص کا مقدر نہیں بدل سکتا‘ حکومتیں اور لیڈر آپ کے بنگلے کے چوکیدار ہوتے ہیں‘ یہ آپ کے بنگلے کی حفاظت کرسکتے ہیں لیکن بنگلہ بہرحال آپ نے خود بنانا ہوتا ہے‘ ہنری اور ٹام میں اختلاف ہوگیا‘ ہنری کا اپنے کزن ڈک کے ساتھ پراپرٹی پر جھگڑا چل رہا تھا‘ معاملہ عدالت میں تھا‘ ہنری اٹھا‘ اپنے کزن کے گھر گیا‘ اس سے معذرت کی اور سچا ہونے کے باوجود اپنے حق سے دستبردار ہوگیا، اس نے اس کے بعد اپنی واحد گاڑی پانچ ہزار ڈالر میں بیچی‘ ڈھائی ہزار ڈالر بیوی کو دیے اور ڈھائی ہزار ڈالر ایک کوکنگ اسکول میں جمع کرا کے شیف کے کورس میں داخلہ لے لیا‘ وہ ایک سال اسکول میں پڑھتا رہا‘ فارغ ہوا تو ریستوران میں شیف کی نوکری کر لی‘ وہ آدھی تنخواہ گھر دیتا تھا اور آدھی جمع کر لیتا تھا‘ وہ ریستوران کے بزنس کا بھی گہرائی سے جائزہ لیتا رہا‘ وہ اس کاروبار کی خامیاں اور گاہکوں کی ضروریات نوٹ کرتا رہا۔

اس نے ریستوران میں ایک سال کام کیا‘ اس دوران اس کے پاس بارہ ہزار ڈالر جمع ہوگئے‘ ہنری نے شہر میں دس بائی دس کی چھوٹی سی دکان لی اور لنچ باکس بنانا شروع کر دیے،وہ روزانہ دو سو لنچ باکس بناتا تھا اور قرب و جوار کے دفتروں اور اسکولوں میں سپلائی کر دیتا تھا‘ کھانا صاف ستھرا اور مزے دار بھی تھا اور سستا بھی۔ ہنری کا کاروبار چل پڑا‘ وہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ آج وہ امریکا کے 14 بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لنچ باکس سپلائی کرتا ہے‘ اس کے پاس ڈھائی ہزار ملازمین ہیں‘ اس کی کمپنی 24 گھنٹے کام کرتی ہے‘ اس نے امریکا کی دو بڑی ائیر لائینز کو لنچ باکس سپلائی کرنے کا ٹھیکہ بھی لے لیا‘ آج تیس سال بعد وہ امریکا کے خوش حال ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے‘ اس کے پاس بنگلے بھی ہیں‘ مہنگی گاڑیوں کا بیڑہ بھی اور بیس نشستوں کا ذاتی طیارہ بھی۔

ہنری کے سارے بچوں نے برکلے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی‘ اس نے اپنے کزن سے وہ پراپرٹی بھی خرید لی جسے وہ اس کے گھر جا کر اس کے حوالے کر آیا تھا‘ دنیا کے ہر انسان کی پانچ بڑی ضرورتیں ہوتی ہیں‘ پیسہ‘ یہ ہنری کے پاس موجود ہے‘ گھر‘ یہ بھی ہنری کے پاس موجود ہے‘ صحت‘ ہنری دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں مہنگا ترین علاج کرا سکتا ہے‘انصاف‘ ہنری امریکا کے مہنگے ترین وکیل اور لاء فرموں کی خدمات حاصل کر سکتا ہے اور سیکیورٹی‘ ہنری نے اپنی اور اپنے بچوں کے لیے پرائیویٹ سیکیورٹی کا بندوبست کر رکھا ہے‘ یہ ہنری کی اسٹوری تھی‘ آپ اب ٹام کی کہانی سنیے۔

ٹام نے ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے جدوجہد شروع کر دی‘ وہ بل کلنٹن کا سپورٹر بن گیا‘ بل کلنٹن ٹام جیسے سپورٹروں کی مدد سے ایوان صدر تک پہنچ گیا‘ وہ ٹام کو نام اور شکل سے جانتا تھا‘ وہ اسے ہزاروں کے مجمعے میں پہچان جاتا تھا اور دور سے ہاتھ ہلا کر اسے ’’ہائے ٹام‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا تھا‘ ٹام تین بار بل کلنٹن سے ملا‘ کلنٹن نے اس سے یہ بھی کہا ’’ ٹام واٹ کین آئی ڈو فار یو‘‘ ٹام نے اسے مکان کے لیے درخواست لکھ کر دے دی لیکن امریکی صدر کسی شہری کو مفت گھر نہیں دے سکتا، یہ صدر کے اختیارات سے باہر تھا چنانچہ ٹام کو کلنٹن کے آٹھ برسوں کے اقتدار میں گھر نہ مل سکا‘ وہ کلنٹن کے بعد جارج بش کا حامی ہوگیا‘ وہ اس کے جلسوں میں نعرے لگاتا رہا‘ پارٹی کا جھنڈا جسم پر لپیٹ کر اس کی ریلیوں میں ڈانس کرتا رہا‘ وہ میڈیا پر جا کر جارج بش کھپے کے نعرے لگاتا رہا‘ وہ دیوانہ وار جارج بش کی گاڑی کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوتا تھا‘ ٹام کی یہ دیوانگی زیادہ دیر تک جارج بش سے مخفی نہ رہ سکی یوں ٹام جارج بش کے دربار تک پہنچ گیا‘ بش نے بھی اس سے پوچھا ’’ ٹام واٹ کین آئی ڈو فار یو‘‘ ٹام نے پرانی درخواست کا نیا پرنٹ نکال کر جارج بش کے حوالے کر دیا۔

بش کے پاس پارٹی فنڈ میں رقم موجود تھی‘ اس نے پارٹی فنڈ سے ٹام کو تین مرلے کا گھر دے دیا‘ ٹام خوش ہو گیا‘ وہ نئے گھر میں پہنچا تو اسے معلوم ہوا زندگی گزارنے کے لیے صرف گھر کافی نہیں ہوتا‘ انسان کو روزگار بھی چاہیے‘ بچوں کی تعلیم‘ صحت اور یوٹیلٹی بلز کے لیے رقم بھی چاہیے اور ٹام کے پاس یہ نہیں تھا‘ وہ دوبارہ جارج بش کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا‘ وہ چاہتا تھا بش سرکاری یا پارٹی فنڈ سے اسے وظیفہ دے دے‘ یہ وظیفہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ اور بچوں کو دے دیا جائے لیکن بش نے معذرت کر لی‘ صدر کا کہنا تھا‘ ملک میں اس وقت ٹام جیسے چار کروڑ لوگ ہیں، صدر کس کس کو وظیفہ دے گا۔

بش کے انکار نے ٹام کا دل توڑ دیا‘ وہ بش سے مایوس ہو گیا‘ بارک اوباما نام کا ایک سیاہ فام سیاستدان اس وقت سر اٹھا رہا تھا‘ بارک اوباما اور ٹام دونوں سیاہ فام تھے‘ یہ دونوں پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتے تھے‘ ٹام بارک اوباما کے ساتھ شامل ہو گیا‘ یہ اس کے جلسے میں کرسیاں بھی رکھتا‘ اس کے پلے کارڈ بھی اٹھاتا اور اس کے ہینڈ بلز بھی تقسیم کرتا‘ یہ اوباما کی سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ بھی بن گیا‘ یہ جعلی اکاؤنٹس سے اوباما کے دشمنوں کو ماں بہن کی گالیاں بھی دیتا اورانھیں نسل پرستی‘ منافقت اور ملک دشمنی کے طعنے بھی، اوباما اس کی خدمات کا اعتراف کرنے لگا‘ یہ الیکشن مہم کے دوران اکثر میڈیا پر اوباما کے پیچھے کھڑا نظر آتا‘ 20 جنوری 2009ء کو اوباما الیکشن جیت گیا‘ وہ کامیابی کے بعد شکاگو گیا تو اس نے ٹام کو ناشتے کی دعوت دی‘ ٹام اپنا بہترین سوٹ پہن کر اوباما کے ساتھ ناشتہ کرنے پہنچ گیا‘ اوباما نے اس کا استقبال کیا‘ اس کی تعریف کی‘ اسے شاباش دی اور آخر میں اس سے پوچھا ’’ ٹام واٹ کین آئی ڈو فار یو‘‘ ٹام نے درخواست نکال کر اس کے سامنے رکھ دی‘ یہ نوکری کی درخواست تھی‘ ٹام اس وقت تک سمجھ گیا تھا‘ حکومت اسے امداد یا وظیفہ نہیں دے سکے گی چنانچہ اسے صدر اوباما سے نوکری مانگنی چاہیے۔

اوباما نے درخواست لی‘ مسکرا کر ٹام کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ’’ٹام آپ کیا کر سکتے ہو‘‘ ٹام نے بے چارگی سے جواب دیا ’’ مجھے صرف ڈرائیونگ آتی ہے‘‘ اوباما نے مسکرا کر سر ہلایا‘ ٹیلی فون اٹھایا اور اپنے ایک دوست کا فون ملا کر اس سے درخواست کی ’’ میں اپنا ایک قریبی دوست تمہارے پاس بھجوا رہا ہوں‘ آپ مہربانی فرما کر اسے اپنی کمپنی میں ڈرائیور کی جاب دے دو‘‘ دوست نے دوسری طرف سے ’’اوکے‘‘ کہہ دیا‘ اوباما نے درخواست پر کمپنی کا نام اور مالک کا نمبر لکھا اور کاغذ ٹام کے ہاتھ میں پکڑا دیا‘ ٹام اگلے دن کمپنی کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا‘ یہ بیس منزلہ جدید خوبصورت عمارت تھی، سیکریٹری نے ٹام کا استقبال کیا‘ لفٹ میں سوار کیا‘ اسے عمارت کے ٹاپ فلور پر لے کر آئی‘ کمپنی کے صدر کا دروازہ کھولا اور ٹام اندر داخل ہو گیا‘ اندر بیس فٹ کی وسیع آبنوسی میز کے پیچھے ہنری بیٹھا تھا‘ وہ ہنری جس نے تیس برس قبل فیصلہ کیا تھا‘ انسان اپنی ذات کا لیڈر‘ اپنی ذات کی حکومت خود ہوتا ہے‘ دنیا کا کوئی لیڈر‘ کوئی حکومت اس کا مقدر نہیں بدل سکتی‘ وہ اپنا مقدر صرف اور صرف خود بدل سکتا ہے‘ وہ اگر کوشش نہیں کرے گا تو حکومتیں بدلتی رہیں گی‘ لیڈر آتے اور جاتے رہیں گے لیکن ہنری ہنری ہی رہے گا۔

یہ سوچ اصل حقیقت‘ اصل انقلاب ہے‘ کاش عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے کارکن اور اس ملک کے کروڑوں بے روزگار نوجوان اس حقیقت کو سمجھ جائیں‘ لوگ یہ جان جائیں پاگلوں کی طرح خواہشوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنے سے زندگیوں میں انقلاب نہیں آیا کرتے۔

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔