حکمرانوں کے نیک ارادے

نصرت جاوید  جمعـء 22 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ نیک ارادے اکثر جہنم کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں رچائے دھرنوں کے جو نتائج بتدریج ہمارے سامنے آرہے ہیں وہ بنیادی طور پر نواز حکومت نے اپنے ’’نیک ارادوں‘‘کے ذریعے ہی حاصل کیے ہیں۔

افتخار چوہدری کے ’’انکار‘‘ کے بعد ان کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک نے بے نقاب کیا تو ہماری ریاست کی اس بے بسی کو جو وہ جدید زمانے میں رونما ہونے والے احتجاجی رویوں کو قابو میں لانے کے سلسلے میں محسوس کرتی ہے۔ جنرل مشرف کے کئی وفادار ابھی تک بڑی شدت کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر پاکستان میں 24/7چینل نہ آئے ہوتے اور انھیں عدلیہ بحالی کی تحریک کی Live Coverage کی اجازت نہ دی جاتی تو شاید وہ ابھی تک ایوان صدر میں براجمان ہوتے۔

جنرل مشرف کا جانا درحقیقت اس وجہ سے ٹھہر گیا تھا کہ وہ 12اکتوبر 1999ء کے بعد سے کئی برسوں تک اس ملک کے مختار کل رہے تھے۔ ان کے اقتدار کی بنیاد مگر اس حقیقت میں پنہاں تھی کہ نائن الیون ہوگیا تھا جس کی وجہ سے امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے Geo-Strategic  اہمیت یاد آگئی۔ ہمارے ملک میں جہاں لوگوں کو ٹیکس دینے کی عادت نہیں اور حکومتیں 1950ء کی دہائی سے غیر ملکی امداد اور قرضوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں واشنگٹن کی Good Will سیاسی استحکام کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

جنرل مشرف کو اس وقت کے امریکی صدر اپنا Tight Buddyکہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس کی Establishmentکو مگر شبہ ہونا شروع ہوگیا کہ افغانستان میں اس کے مسائل کی اصل وجہ پاکستانی حکمرانوں کی Good اور Badطالبان کے حوالے سے رواں Double Gameتھی۔ اسی گیم کے تدارک کے لیے انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے رجوع کیا اور بڑی محنت سے ان کا جنرل مشرف کے ساتھ سمجھوتا کروایا۔ افتخار چوہدری اس سمجھوتے کے بعد X-Factorکی صورت رونما ہوئے۔

عدلیہ بحالی کی تمام ترشدت کے باوجود مشرف حکومت نے البتہ اسے کسی نہ کسی صورت ہینڈل کرلیا تھا۔ شاید وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی اگر قوم کو نئے انتخابات کی گہماگہمی فراہم نہ کی جاتی۔ ان انتخابات کی وجہ سے نواز شریف کا وطن لوٹنا بھی ممکن ہوا۔ مگر ساری گیم اس وقت بگڑ کر رہ گئی جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ اس قتل کے بعد اور انتخابی نتائج کے حقائق کی روشنی میں آصف علی زرداری کے لیے ممکن ہی نہ رہا کہ وہ جنرل مشرف کو ایوانِ صدر میں بٹھائے رکھتے۔

مشرف کے زوال کی اصل وجوہات کو ذرا ٹھنڈے دل سے دریافت کرنے کے بجائے مگر میرے جیسے رومینٹک لکھاریوں نے یہ طے کرلیا کہ پاکستان اب ’’بدل‘‘ گیا ہے۔ یہاں کی ریاست کو جمہوری نظام کے علاوہ کسی اور ذریعے سے چلانا ممکن نہیں رہا۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی نے آئین اور قانون کی بالادستی کو اس ملک میں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ اپنی ان سادہ لوح خوش فہمیوں کی وجہ سے ہم نے کبھی یہ سوچنے کا تردد ہی نہ کیا کہ پاکستان جیسے بے تحاشہ آبادی مگر کم وسائل والے ممالک میں سیاست کی اصل Dynamicsکیا ہوتی ہیں۔

نواز شریف 1985ء سے اقتدار کے کھیل کے ایک بڑے اہم کھلاڑی رہے ہیں۔ انھیں ہمارے جیسا سادہ لوح نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی وہ اس حقیقت کو پوری طرح نہیں سمجھ پائے کہ ان کے اقتدار کی اصل قوت قومی اسمبلی ہے۔ اس فورم کو مگر ان کی جماعت نے بڑی محنت سے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کمزور کیا تھا۔

زرداری۔ گیلانی حکومت کی مبینہ کرپشن کہانیوں کے خلاف وہ قومی اسمبلی میں شور شرابہ کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں درخواستیں لے کر جاتے رہے۔ ان کے اس رویے کی بدولت افتخار چوہدری کا سپریم کورٹ اتنا طاقت ور ہوگیا کہ صرف ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں منتخب وزیر اعظم کو گھر جانا پڑا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ان کے خلاف فیصلے کے بعد کئی دنوں تک چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلسل ’’گو گیلانی گو‘‘ والا نعرہ لگاکر اس کے منتخب قائد کو مزید کمزور کردیا۔

پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد نواز شریف صاحب مجھے ایک لمحہ کو بھی اس امر کا احساس کرتے دکھائی نہ دیے کہ 2008ء سے 2013ء تک آصف علی زرداری اور گیلانی کو عدلیہ اور میڈیا کی معاونت سے لاچار بنا دینے کے بعد وزیر اعظم کا عہدہ کتنا بے توقیر بنادیا گیا ہے۔ اس عہدے کی ساکھ اور قوت کو بحال کرنا ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے تھا اور یہ صرف اسی صورت ممکن تھا اگر وہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے اس ادارے کو پاکستانی عوام کے مسائل کے بارے میں بے چین اور متحرک دکھاتے۔

نواز شریف صاحب کا مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ وہ ابھی تک اپنی اس بے بسی اور تذلیل کو بھول نہیں پائے جو انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘والے نعرے کے باوجود 12اکتوبر 1999ء کے بعد سے بھگتی۔ قومی اسمبلی میں اپنے ساتھیوں کے بارے میں اپنے دل میں جبلی طورپر موجود شکوہ شکایتوں کے ہوتے ہوئے نوازشریف کے لیے دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ مسلسل عوام سے رابطے میں رہتے۔

ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم کے طورپر بہت متحرک تھے۔ ان کے خلاف اپوزیشن بھی بہت جاندار رہی۔ مگر بھٹو نے مکمل اختیار کے ساتھ حکومت کی تو صرف اس وجہ سے کہ وہ عوام کے ساتھ کھلی کچہریوں اور جلسوں کے انعقاد کے ذریعے بھرپور رابطے میں رہا کرتے تھے۔ نواز شریف نے اس طرف بھی توجہ نہ دی۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ آخری بار پاکستان مسلم لیگ نون نامی جماعت کی مرکزی، صوبائی یا ضلعی کمیٹیوں کا اجلاس کب اور کہاں ہوا تھا اور وہاں کیا فیصلے ہوئے۔

میاں صاحب کا عوام سے کوئی رابطہ نظر آتا ہے تو صرف اس وقت جب وہ کسی میگا پراجیکٹ کا افتتاح کرنے کے بعد ہمیں بجلی کے بحران پر قابو پانے اور سنکیانگ سے گوادر تک ایک معاشی کوریڈور بنانے والے اپنے وعدوں کو دہراتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے غلط یا صحیح میڈیا کی وجہ سے یہ تاثر بھی پھیلا کہ ان کے عسکری اشرافیہ کے ساتھ معاملات کوئی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

وزیر اعظم نے اس تاثر کو جھٹلانے کی سنجیدہ کوشش کبھی کی ہی نہیں۔ سلامتی امور کے نام پر ہونے والی ملاقاتیں کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹی وی اور میڈیا پر سرکاری طورپر جاری شدہ بے جان پریس ریلیز دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کے معاملات بہت گنجلک ہوچکے ہیں۔ ہماری معاشی بہتری اور خوش حالی کے آسان راستے ہرگز موجود نہیں۔ اس کے لیے بڑے صبر کے ساتھ بہت سارے طویل المدتی منصوبوں پر کام کرنا ہوگا۔

سیاسی قیادت پوری نیک دلی کے ساتھ یہ کام کررہی ہو تو بھی عوام کے ساتھ مختلف ذرایع سے مسلسل رابطوں کے ذریعے ہی انھیں تھوڑا بہت مطمئن رکھنا پڑتا ہے۔ امریکی صدر اوباما بھی بہت خاموش طبع ہوگیا ہے۔ وہ امریکی سیاست میں تیزی سے ابھرتے ہوئے Chaosکے بارے میں بہت پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود موصوف سیاسی طورپر مکمل تنہاء  نہیں ہوئے۔ نواز شریف نے اپنی تنہائی مگر ’’نیک ارادوں‘‘ سے حاصل کی ہے اور ہمیں ان ارادوں کے بارے میں زیادہ خبر بھی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔