مغرب کی بالادستی سے نجات

جبار قریشی  جمعـء 22 اگست 2014

میں نہ کوئی سماجی کارکن ہوں اور نہ ہی کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے وابستہ البتہ مطالعہ کا شوقین ہوں، اپنے علم میں اضافے کا خواہش مند ہونے کی وجہ سے شہر میں ہونے والے مختلف تنظیموں کی جانب سے جو علمی پروگرام منعقد ہوتے ہیں میری خاص دلچسپی کا محور رہے ہیں۔ اپنی نجی ملازمت کی مصروفیات کے باعث ان میں شرکت ممکن نہیں ہوتی جب کبھی موقع مل جاتا ہے شرکت ضرور کرتا ہوں۔

چند ماہ پہلے ایک دینی سیاسی تنظیم کی جانب سے ملک گیر سالانہ اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ میں نے دلی جذبے کے ساتھ اس تین روزہ اجتماع میں شرکت کی۔دوسرے دن ایک مذاکرہ تھا جس میں مختلف مقررین نے تقاریر کیں۔ ان میں ایک معروف کالم نگار بھی تھے، انھوں نے اپنی تقریر میں فرمایا۔

’’مغرب صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے جس کے لیے اس نے مختلف حربے استعمال کیے ہیں۔ مسلمانوں پر سیاسی بالادستی کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ قیام عمل میں لایا گیا۔ مسلمانوں کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لیے I.M.F اور WORLD BANK جیسے ادارے قیام عمل میں لائے گئے۔مسلمانوں کی سوچ اور فکر کو کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا تخلیق کیا گیا اور ہمارے سماجی نظام پر ضرب لگانے کے لیے این جی اوز بنائی گئی ہیں اس طرح مسلمان صدیوں سے مغرب کی سازش کا شکار ہو رہے ہیں۔میں سطحی سی ذہانت رکھنے والا شخص ہوں پھر بھی نہ جانے کیوں محترم کالم نگار کی یہ باتیں سن کر میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا جب مغرب صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں پر عمل پیرا تھا اور ہے اس دوران ہم مسلمان کیا کر رہے تھے؟

مختلف عنوانات پر تقاریر کا یہ پروگرام ختم ہوا۔ میرے ذہن کے ایک گوشے میں یہ سوال بدستور گردش کرتا رہا۔ چائے کا وقفہ تھا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ اس تنظیم سے وابستہ چند کارکنان اسلامی تاریخ کے کچھ قدیم واقعات اور معاملات کی گتھیاں سلجھا رہے تھے۔ اور اپنے اپنے موقف کے حق میں ماضی میں لکھی گئی کتب سے حوالے پیش کر رہے تھے۔

ان کے اس طرز عمل کو دیکھ کر مجھے میرے اس سوال کا جواب مل گیا تھا کہ جب مغرب ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف تھا اس وقت ہم مسلمان کیا کر رہے تھے۔ (اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیں)

سوچیے صدیوں پہلے وجود رکھنے والے فرقے مثلاً معتزلہ اور مرجیہ وغیرہ جن کا اب وجود ہی نہیں ہے اس پر سیر حاصل گفتگو سے کیا امت مسلمہ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ پھر بتایا جائے کہ اس لا حاصل بحثوں میں الجھ کر اپنی توانیاں کیوں ضایع کر رہے ہیں؟ یہ ایک سوال ہے۔

آیئے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

ایک مغربی مفکر کے مطابق کسی بھی معاشرے میں فکر و عمل کا سرچشمہ ایک اقلیتی گروہ ہوتا ہے جسے تخلیقی گروہ کہا جاتا ہے۔ اکثریتی معاشرے کی حیثیت ہمیشہ مقلد کی رہی ہے جب کسی معاشرے کو نئے مسائل پیش آتے ہیں تو یہ تخلیقی گروپ نئے مسائل کی روشنی میں غور و فکر کے ذریعے ان مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ سیاسی قوتیں اس لائحہ عمل کی روشنی میں اپنی جد وجہد کے ذریعے اسے عملی شکل عطا کرتی ہے اس طرح معاشرہ عروج کی منازل طے کرتا ہے یا کم از کم توازن برقرار رکھتا ہے۔

اگر یہ عمل رک جائے تو معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ در اصل اس صورت حال کا شکار ہے، ہمارے دینی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی غالب اکثریت گلوبل دنیا کی ضروریات اور تقاضوں کے ادراک اور احساس سے محروم ہے۔ لائحہ عمل کی وجہ سے ان جماعتوں کی قیادتیں اپنے کارکنان کی فکری بنیادوں پر تربیت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ان قیادتوں کی مشترکہ غلطی یہ ہے کہ انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ امت مسلمہ حقیقتاً اپنا وجود رکھتی ہے۔ کرنے کا کام بس یہ ہے کہ اسے کسی طرح جوش دلا کر کھڑا کر دیا جائے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان زوال پذیر قوم ہے۔

کرنے کا کام یہ ہے کہ اس قوم کی از سر نو تعمیر کی جائے اس لیے ہمیں فکری بنیادوں پر کام کرنا ہو گا اور اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اس طرز عمل کو ترک کرنا ہو گا جس کے تحت ہم اپنی ہر کمزوری اور خرابی کو یورپ اور امریکا کی سازش قرار دے کر اسے مغرب کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی سازش کی کامیابی کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک سازش کرنیوالے کی عمدہ منصوبہ بندی اور دوسرا سازش کا شکار ہونیوالوں کی اس کے توڑ میں ناکامی۔ ہمیں غیر جذباتی انداز فکر اختیار کرتے ہوئے اس پر غور کرنا چاہیے۔

اس وقت دنیا میں مسلمان بہت سے مسائل بالخصوص سیاسی جبر کا شکار ہیں۔ امریکی پشت پناہی کے سبب اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس عمل نے دنیا کے ہر مسلمان کو رنج و غم میں مبتلا کر دیا ہے۔ہماری دینی اور مذہبی قیادتوں کی جانب سے احتجاجی تحریک کا سلسلہ جاری ہے۔ راقم التحریر ان تحریکوں کا مخالف نہیں ہے ان کے جذبات کی قدر کرتا ہے میرے نزدیک مسلمانوں میں جذبہ جہاد جاری رہنا چاہیے لیکن میری ناقص رائے میں سڑکوں پر احتجاجی بینرز لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ہمیں اس کے لیے بدلتے ہوئے حالات کے تحت سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ دنیا کے اس سیاسی اور معاشی جنگل میں کوشش کے باوجود انسان دوستی اور اصول پرستی کا رواج ابھی تک مستحکم نہ ہو گا جو کچھ رائج ہے وہ طاقت کو حق تسلیم کرنے اور کروانے کی روایت ہے اس کا مقابلہ جذبات سے نہیں برابر کی طاقت یا عمل سے کیا جا سکتا ہے۔مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے افکار اور اعمال کا محور و مرکز کوئی اصول یا نظریہ نہیں ہے نہ یہ کسی کے دوست ہیں اور نہ دشمن بلکہ ان کے پیش نظر ان کے خالصتاً اپنے قومی مفادات ہیں جس پر یہ پوری طرح عمل پیرا ہیں۔

اس کی روشنی میں ہی کبھی دوستی، کبھی بیگانگی، کبھی رقابت اور کبھی دشمنی دکھاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان سے بے جا خیر کی توقع رکھنا یا خوامخواہ کسی کو اپنا دشمن بنا لینا غیر دانش مندانہ عمل ہو گا۔سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میری ذاتی رائے میں ہمیں سیاسی حکمت عملی سے کام لینا ہو گا۔ آپ ہمارے پیارے آخری نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کر لیں آپ دیکھیں گے کہ آپؐ کے ساتھ جو بھی سیاسی معاملات پیش آئے آپؐ نے زبردست سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کر کے کامیابی حاصل کی۔

ہمیں بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر حکمت عملی واضح کرنی ہو گی۔ جنوبی افریقہ کو آزادی دلانے والے نیلسن منڈیلا سے پوچھا گیا کہ آپ نے 27 سال کی جد وجہد کے بعد گورے سامراج سے آزادی حاصل کر لی جب کہ مسلمانوں کے کئی ممالک جبر کا شکار ہیں۔ صدیوں گزر جانے کے باوجود آزادی حاصل نہ کر سکے۔نیلسن منڈیلا نے جواب دیا کہ ہم نے اپنا مقدمہ دنیا کے عوام الناس کے درمیان پیش کیا تھا جب کہ مسلمان اپنا مقدمہ حکمرانوں کے درمیان پیش کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمان ناکامی سے دو چار ہیں۔

راقم التحریر کی رائے میں ہمیں نیلسن منڈیلا کی اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں دنیا بھر کے عوام الناس سے مکالمہ کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں دنیا کے عوام الناس کے ذہن میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو غلط تصورات مفاد پرست عناصر نے ان کے ذہنوں میں بٹھادیے ہیں انھیں دور کرنا ہو گا۔ یہ ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے اور اب یہ کام جدید سائنسی دور میں بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔یہ بات یاد رکھیں کہ آرزو اور حقائق کے درمیان طویل فاصلہ رہتا ہے۔ یہ طویل فاصلہ تمنائوں سے طے نہیں کیا جا سکتا بلکہ مسلسل جد و جہد کا تقاضا کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔