ذکر ایک تاریخی کشتی کا…

منظور ملاح  جمعـء 22 اگست 2014

دریائے سندھ سے نکلنے والی نارا کینال، شاید پاکستان کی وہ واحد کینال ہے جو بل دیتے ہوئے سانپ کی طرح عربی سمندر (بحر عرب) تک جاتی تھی، لیکن اب وہ سندھ کے حب الوطنی کی علامتی کردار ماروی کی قید والے شہر عمر کوٹ کے علاقے ڈھورو نارو کے مقام تک قید ہے۔ جوگیوں کے ہاں ایک قدیم روایت کے مطابق ایک بہت بڑا اژدھا اسی راستے سے جوگیوں سے بھاگا تھا، یوں یہ راستہ بل دار بنتا گیا، بعد میں ہاکڑو دریا یہیں سے بہتا تھا، یوں روہڑی سے لے کر بحیرہ عرب تک ہاکڑو کے کنارے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا، جس کے نشانات آج بھی کھنڈرات کی شکل میں جگہ جگہ پر موجود ہیں۔

کہتے ہیں کہ یہ دریائے سندھ میں سمہ کے دور حکومت تک بہتا رہا۔ سندھی لوک شاعری میں ماموئی فقیروں نے بھی اسی دریا کا ذکر کیا ہے: ھاک وہندو ھاکڑو بھجندو بند اروڑ، بہھ، مچھی، لوڑھ سمے ویندا سوکھڑی، (ہاکڑو دریا ایک بار پھر اپنے جوبن میں بہے گا تو اروڑ کا بند بھی ٹوٹ جائے گا، تب بہھ (کنول کی جڑ)، مچھلی، لوڑہ (آلو کی شکل جیسی کنول کی سبزی) سمے بادشاہ کو تحفے میں بھیجی جائے گی)۔

اسی نارا کینال سے 1896ء میں سانگھڑ، خیرپور اور شہید بینظیر آباد اضلاع کے سنگم پر واقع جمڑاؤ ہیڈ کے مقام سے جمڑاؤ نہر نکالی گئی، جو اب سابق صدر آصف علی زرداری کی زمینوں کو سیراب کرتی ہوئی میرپور خاص مڑ جاتی ہے۔ کسی زمانے میں ہیڈ جمڑاؤ کا یہ مقام بڑی تفریح گاہ تھا، جہاں آبپاشی کے ریسٹ ہاؤسز، انگریزوں کے دور کے لگے ہوئے لمبے اور گھنے سایہ دار درخت اور نارا کے پانی کی اٹھتی ہوئی لہریں، تیتر، بارہ سنگھے اور لہلہاتے کھیت موجود تھے۔

یہاں سخت گرمی میں پیپل اور بڑ کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر لوگ مچھلی، مگر مچھ، تیتر کا شکار کرتے، تیز بہتے ہوئے پانی اور کنول کے پھولوں کا نظارہ کرتے۔ یہاں مکھی ویئر پر خیرپور میرس ریاست کے سابق والی اور بعد میں لاہور کی بالی کے عشق میں گرفتار ہونے کے بعد شاعر بننے والے میر علی نواز ناز کے پیار و محبت کی نشانی ایک کشتی بھی رکھی ہوئی تھی۔ برطانیہ سے آئی ہوئی لکڑی اور پیتل کے امتزاج سے یہ کشتی سکھر کے ایک کشتیوں کے ورکشاپ میں جوڑی گئی، اس کے پچھلے حصے میں نصب بھاری انجن، اگلے حصے میں موجود اسٹیئرنگ، درمیان میں ایک کشادہ کمرہ، جس میں رکھے شاہی صوفے، کرسیاں اور ٹیبل، اس کے اوپر نظارہ کرنے کے لیے گیلری موجود تھی۔ اس کشتی کی گنجائش ایک سو  لوگوں تک تھی۔

اس کا اسٹاف تین افراد پر مشتمل تھا، یعنی کپتان، خلاصی اور سارنگ۔ کپتان کشتی اور انجن کی نگرانی کرتا، سارنگ چلاتا اور خلاصی اس کی صفائی کرتا۔ سابقہ خیرپور ریاست کے والی میر علی نواز ناز جب لاہور سے بالی یہاں لے آئے تو کہتے ہیں کہ بالی اسی کشتی میں صبح سویرے نارا کی سیر کرتیں، جب کہ میر صاحب کنارے پر کھڑے اسے پیار کی نظروں سے تکتے رہتے۔ روز صبح کے وقت کشتی میں سوار ہونے سے پہلے میر صاحب گلاب کے پھولوں کی پتیوں میں بالی کا وزن کراتے اور بعد میں اسے کشتی میں سوار ہونے دیتے۔

کیونکہ کشتی کا دروازہ چھوٹا اور میر صاحب کی جسامت بھاری بھرکم ہوتی تھی، اس لیے وہ شاذ و نادر ساتھ تفریح کرنے جاتے۔ بعد میں میر صاحب سے بالی روٹھ کر لاہور چلی گئیں تو وہ اسے منانے ریل گاڑی کے ذریعے منت سماجت کا قافلہ لے کر لاہور گئے، لیکن بالی کے انکار نے بادشاہ سے دیوانہ شاعر بنا دیا، اور وہ اسی حالت میں وفات پا گئے۔ جب انگریزوں نے سندھ میں حکمرانی کے ڈیرے ڈالے تو یہ شاہی کشتی محکمہ آبپاشی کے حوالے کر دی۔ یوں اس تاریخی کشتی کی کہانی نے ایک نیا موڑ لیا۔

1942ء میں جیلانی سیدوں کے شہر رانی پور کے رہنے والے پاندھی خان ملاح یہ کشتی لے کر ہیڈ جمڑاؤ کے تفریحی مقام پر پہنچے، جہاں یہ کشتی آبپاشی حکام کے حوالے کی گئی۔ اسی شاہی کشتی کے صدقے پاندھی خان بھی یہیں کے ہو کر رہ گئے، اس کا پورا خاندان باری باری آبپاشی میں ملازم بنتا گیا، جن کے افراد آج بھی اس میں ملازم ہیں۔ ہیڈ جمڑاؤ کے شمال مغرب میں آصف زرداری کی زمینوں سے کچھ فاصلے پر سفید ٹیلوں پر نیم اور آم کے درختوں کی جھرمٹ میں آج بھی ان کا گاؤں آباد ہے۔

ایوب خان کے دور میں شہنشاہ ایران بھی یہاں تشریف لائے، جن کی میزبانی سانگھڑ کے جونیجو خاندان کے افراد نے کی۔ اس شہنشاہ نے بھی اسی کشتی میں سوار ہو کر بندوق سے مگرمچھوں کا شکار کیا۔ کہتے ہیں کہ جمڑاؤ کے پل سے لے کر آبپاشی ریسٹ ہاؤس تک لال قالین بچھائے گئے اور پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی بھی اپنی بلوچستان کی گورنری کے دور میں یہاں آئے اور کشتی میں سوار ہو کر جمڑاؤ کے اس پار تیتروں کا شکار کیا۔

شبنم کی کبھی نہ ریلیز ہونے والی فلم ’’گھروندا‘‘ کا گانا بھی اسی کشتی میں فلمایا گیا، کئی لوگ دور دور سے شبنم کو دیکھنے یہاں آئے۔ پی ٹی وی پر نشر ہونے والی بلاک بسٹر ڈرامہ سیریل ’’دیواریں‘‘ کے کچھ مناظر بھی اسی مقام پر فلمائے گئے۔ اور تو اور یہاں کے ایک مقامی وڈیرے کی بارات بھی اسی کشتی میں سوار ہو کر بیس پچیس کلو میٹر فاصلہ طے کر کے لڑکی بیاہنے گئی، کشتی کو یہ فاصلہ طے کرنے میں کوئی تین گھنٹے لگے۔

یہ کشتی جب نارا میں شمال کی طرف پانی مخالف رخ میں جاتی تو کچھوے کی رفتار چلتی لیکن جب واپس جنوب کی طرف آتی تو پانی کی لہریں اور ہوا اسے نچاتیں اور آٹھ دس فٹ اوپر تک جاتیں، جہاں کناروں پر موجود کوندر کے پودے انھیں سلام کرتے، یہ نظارہ دیکھنے جیسا ہوتا تھا۔ یہاں سندھ کے سابق گورنر جنرل ایس ایم عباسی کی اہلیہ بھی سیر کرنے آئی تھیں، جو یہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوئیں۔ اس کے علاوہ کئی پردیسی لوگ اور دیسی سیاست دان، بیوروکریٹ اور امرا آتے اور سیر و شکار کر کے واپس جاتے۔ یہاں کی کرڑو مچھلی لذت میں اپنی مثال آپ ہے، اسی سے حکمت سے دوائیں بنانے کے لیے بھی قریب موجود سفید ٹیلوں پر ڈیرے ڈالتے۔

کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں جب کشتی کا تلہ بالکل ناکارہ ہو گیا تو آبپاشی والوں نے سکھر کے کسی ٹھیکیدار کو اسے بنانے کا ٹھیکہ دیا لیکن اس کی سب چالیں چت ہو گئیں۔ یوں یہ کشتی جمڑاؤ کے کنارے درختوں کے سائے میں بے حال ہو کر روتی رہی۔ رہی سہی کسر تب پوری ہوئی جب اسے ریس میں حصہ لینے کے لیے سکھر لے جایا گیا، اور بعد میں جب اسے ٹرک میں لاد کر واپس لایا گیا تو کرین سے اتارنے پر جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئیں اور لکڑی کے تختے اپنی جگہ چھوڑنے لگے، اسی طرح سندھ کے مقامی عشقیہ داستان میر علی نواز اور بالی کے عشق کی یہ علامت بھی آخری سانسیں لینے لگی۔

نارا کا پانی، جانور، درخت، پرندے اور مقامی لوگ کشتی کی یہ حالت دیکھ کر اداس ہونے لگے۔ یہاں تک کہ گزشتہ دور حکومت میں ایک بااثر سیاسی شخصیت کے کہنے پر کشتی کو اسی افسوسناک حالت میں اٹھا کر قریبی شہر لایا گیا۔ سنا ہے کہ آج کل بچے اس میں سے لکڑی کے تختے نکال کر ان سے کرکٹ کھیلتے ہیں اور ہم جیسے حساس دل اس تاریخی کشتی کی یہ حالت سن کر خون کے آنسو روتے ہیں۔ کاش ہم لوگ اپنی تاریخ، ثقافت اور لوک ورثے کا خیال رکھیں جو کسی بھی قوم کے اجتماعی شعور کو جانچنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مہذب قومیں اس پر ہمیشہ فخر کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔