(خیالی پلاو) - قتل کی ایک خوفناک داستان

خزیمہ سلیمان  اتوار 24 اگست 2014
نعش کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے بس یہی ایک سوال تھا جو اُسے مسلسل پریشان کررہا تھا کیونکہ اُس کے ہاتھوں ایک قتل ہوچکا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

نعش کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے بس یہی ایک سوال تھا جو اُسے مسلسل پریشان کررہا تھا کیونکہ اُس کے ہاتھوں ایک قتل ہوچکا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

قدموں کی چاپ نے اسے بیدار کر دیا، خوف کی ایک شدید لہر اُس کے سارے جسم میں دوڑھ گئی۔ بجلی نہ ہونے کے سبب پورے کمرے میں ااندھیرا تھا۔وہ پسینے میں شرابُور یکدم اُٹھ بیٹھا۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ کمرے میں اُس کے علاوہ بھی کوئی ہے۔ اچانک وہ آواز پھر آئی، اُس کے جسم میں سنسنی دوڑھ گئی،ایک زوردار چیخ کے ساتھ وہ کھڑا ہو گیا۔شکوک،شبہات،خطرات اور وسوسوں کا ایک ریلا اُس کے ذہن میں بہہ رہا تھا، ’’یا الہٰی یہ کون ہے؟‘‘ اندھیرے نے اُس کی بچی کچی ہمت بھی دبا دی تھی،اُس نے سر چادر میں چھپایا اور دبک کر بیٹھ گیا، چند ساعتیں گزر گئیں۔

قدموں کی آواز دوبارہ آنے لگی۔ وہ ہر لمحہ اُنہیں اپنے قریب ہوتے محسوس کر رہا تھا۔ کوئی اُس کی طرف بڑی تیزی سے آرہا تھا۔ ایک لمحے میں اُس کے ذہن میں کئی خیال آئے، میں ابھی مر جاوں گا، مجھے شور مچا دینا چاہیے۔۔۔۔ نہیں پھر تو ذرا بھی مہلت نہیں ملے گی۔ ۔۔۔ مجھے باہر کی طرف بھاگنا چاہیے۔ ۔۔پر ا اس نے مجھ پر پیچھے سے حملہ کر دیا تو؟؟؟ نہیں میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔۔۔ بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔۔۔ اُس نے چادر کو چابک دستی کے ساتھ دور پھینکا،ایک جھٹکے کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا اور ہوا میں ہاتھ گھوماتا دروازے کی جانب تیزی سے قدم اُٹھانے لگا۔تین قدم بعد اُس کے ہاتھوں نے دروازے کو محسوس کیا ،اُسے دروازہ کھولنے میں ذرا دیر نہ لگی تھی۔ وہ کمرے سے باہر آیا اور اُس نے کمرہ بند کر دیا۔اُس کا دل اب بھی تیزی سے دھڑک رہا تھا،اتنا تیز کہ اُس کی آواز وہ خود بھی سن سکتا تھا۔ اُسے لگا وہ موت کے منہ سے نکلا ہے، اُس نے اپنے پیچھے آئے قاتل کو چکما دے کر کمرے میں بند کر دیا ہے۔ اُس کے ذہن میں خیالات کی بہتات تھی۔ مجھے پولیس کو فون کرنا چاہیے۔۔۔۔،نہیں اس طرح تو بہت دیر ہو جائے گی۔ ۔۔۔۔ پڑوسی کو بلواتا ہوں۔۔۔پر یوں تو وہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ مجھے خود کچھ کرنا چاہیے۔۔۔۔ وہ مسلسل خود کلامی کر رہا تھا۔ بلاآخر اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ اُسے اس آفت کو خود نبٹنا ہوگا۔ وہ دبے قدموں سیڑھیوں کی جانب گیا، سیڑھیوں کے دروازے کے پیچھے لکڑی کا ایک بہت موٹا اور مضبوط ڈنڈا رکھا ہوا تھا، اُس نے جس ارادے سے وہ ڈنڈا اُٹھایا،اُس کے تصور سے ہی وہ کانپ گیا، اُس نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ ڈنڈا پکڑا اور اپنی کمرے کی جانب چل پڑا،وہ کمرے میں بند وجود کو مار دینا چاہتا تھا۔ اُس میں اتنی ہمت ناجانے کہاں سے آ گئی تھی۔

اُس کے قدم اپنے کمرے کی جانب مسلسل بڑھ رہے تھے کہ اچانک وہ رُک گیا۔ اُس کے ذہن میں خیال آیا کہ باہر تو پھر کچھ روشنی ہے،اندر تو مکمل تاریکی ہوگی، اندھیرے میں وہ کیسے نظر آئے گا۔ ۔۔۔اور اگر اُس نے مجھ پر پہلے وار کر دیا تو؟؟؟ خوف کی لہر اُس کے جسم میں دوڑھ گئی۔ اُس نے خود کو سنبھالا اور سٹور کی طرف جانے لگا،سٹور سے اُس نے ٹارچ لی،ایک ہاتھ میں ٹارچ اور دوسرے میں ڈنڈا تھامے وہ اپنے کمرے کی جانب آیا، نہایت خاموشی سے اُس نے دروازے کا لاک کھولا، وہ شدید ڈر رہا تھا، ایک لمحے کو اُسے خیال آیا کہ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ مگر اس کے علاوہ اُسکے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ اُس نے ڈنڈے پر اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط کی، اُسکی کلائیاں تنی ہوئی تھیں،بازو کے اعصاب مچھلیوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس قوت کے ساتھ وہ ڈنڈا کسی بھی جاندار کو مارے اور وہ زندہ بچ جائے۔ اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ محسوس کیا کہ خوف میں انسان کی طاقت کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔ وہ اس سے پہلے کی موجودہر رکاوٹ کو عبور کر لیتا ہے۔ دروازے کے ہُٹکے پر دھیرے سے ہاتھ دھرا۔ ٹارچ اُس نے کمال مہارت سے اپنی اُنگلیوں میں پھنسائی تھی۔ دروازہ کھلا،ایک درز میں سے اُسے اپنا کمرہ نظر آ رہا تھا۔اُس نے آہستہ آہستہ دروازہ کھولا اور ٹارچ کی روشنی پورے کمرے میں گھمائی۔۔کمرہ خالی تھا۔۔۔۔ اُس کی اوسان خطا ہوگئے۔وہ کہاں گیا؟؟؟ یہ سوال اُس کے ذہن کی دیواروں کے ساتھ زور سے ٹکرایا۔ کہیں اُسے میرے فرار ہونے کی خبر تو نہیں ہو گئی۔۔۔او خدا کیا وہ جانتا ہے کہ میں اُس سے بچ بھاگا تھا ۔۔۔ کیا معلوم وہ بھی باہرآگیا ہو۔۔۔۔۔ کیا اُس نے مجھے ڈنڈا اُٹھاتے بھی دیکھا۔۔۔۔اُسے لگا کہ اُس کہ ساری کوشش رائے گاں چلی گئی ہے، اُس کا قاتل اُس سے بھی ہوشیار نکلا۔۔۔خوف اب زندگی کے خاتمے کی مایوسی میں بدل رہا تھا۔ اُس نے لاشعوری طور پر ٹارچ ایک مرتبہ پھر پورے کمرے میں گھمائی۔۔۔اُس کی نظروں سے کچھ گزرا ۔۔۔ وہ اسی کمرے میں تھا۔۔۔۔وہ کہیں نہیں گیا۔۔۔۔ اُس نے ٹارچ ایک جگہ پر مرکوز کر دی۔ چند ہی قدموں کے فاصلے پر وہ غسل خانے میں چھپا بیٹھا تھا۔اُس کی ٹانگیں دروازے کی نیچے بنی درز سے نظر آ رہی تھیں۔ یہ یہاں مجھے مارنے کے لیے بیٹھا ہے۔۔۔ مگر میں اسے ایسا نہیں کرنے دوں گا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ یہ مجھ پر حملہ کرے،میں خود اسے مار دوں گا۔۔۔وہ خود کلامی کر رہاتھااور ساتھ یہ ارادہ بھی کہ اب غسل خانے میں چھپا وجود زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھانے لگا۔۔۔ چند ہی ساعتوں بعد وہ غسل خانے کے سامنے موجود تھا۔ اُس نے بند ٹارچ آن کی ،اُس کے بلب پر اپنا ہاتھ رکھا تاکہ اُس کا شکار واشنی دیکھ کر چوکنا نہ ہو جائے۔ ڈنڈے پر ہاتھوں کی گرفت مضبوط کی اور ایک زور دار جھٹکے سے اُس نے دروازہ کھولا۔۔۔ایک ہی لمحے میں اُس نے روشنی اپنے شکار پر ڈالی۔۔۔وہ چوکنا ہو کر اس کی طرف مڑا،مگر اس سے پہلے ہی ایک زور دار ضرب نے اُس کا سر کچل دیا۔۔۔ وہ تڑپا اور تڑپ کر گر گیا۔۔۔ وہ درد کی شدت سے اپنی ٹانگیں تیزی کے ساتھ ہلا رہا تھا۔۔ اور چند ہی لمحوں بعد وہ اُس کی جان نکل گئی۔۔۔ وہ مر گیا۔ ۔۔ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے،وحشت زدہ آنکھوں کے ساتھ وہ اُس کی نعش کو دیکھ رہا تھا۔خون اور مغز کی چکنائی، غسل خانے کی سفید ٹائلوں پر واضح نظر آرہی تھیں۔ اب کیا کروں؟؟؟

ایک سوال بجلی کی طرح اُس کے ذہن میں گھوم گیا۔۔۔اُس نے ایک قتل کیا تھا۔۔۔ وہ نعش کو گھورتے،اُسے ٹھکانے لگانے کی ترکیب سوچنے لگا۔ میں اسے ایک بوری میں ڈال کر باہر پھنیک آتا ہوں۔۔۔نہیں ۔۔نہیں۔۔۔ایسے تو مزید بری صوتحال ہوگی۔۔۔ پھر؟؟؟ وہ خود سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ مجھے اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔۔۔ ہاں ۔۔ہاں۔۔۔ یہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔ ،یوں کسی کو بھی مجھ پر شک نہیں ہوگا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔ وہ ڈنڈا وہیں چھوڑ کر باہر کی طرف بھاگا اور آن ہی آن میں ایک سفید کپڑا لے آیا۔ اُس نے ہاتھوں پر لفافے چڑھائے اور اُس نعش کوکپڑے میں لپیٹنے لگا۔۔۔اُس کے خون اور مغز کی چکنائی لفافے پر لگ رہی تھی۔۔اُس نے کپڑے میں لپٹی نعش اُٹھائی۔۔۔ اُسے کمرے سے باہر لایا۔۔۔۔ ٹارچ کی روشنی میں سیڑھیاں اُترنے لگا۔۔۔ نیچے کی منزل میں آ کر اُسے کپڑے میں حرکت محسوس ہوئی۔۔۔اُس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔ اُن نے نعش کو زمین پر پٹخا اور خود دور جا کھڑا ہوا۔۔۔ وہ اب خوف اور حیرت کے مارے کپڑے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کافی دیر تک کپڑے میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ میرا وہم ہوگا۔۔۔ اُس نے خود کو تسلی دی اور نعش کو اُٹھا کر ایک دفعہ پھر باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔ مرکزی دروازہ کھول کر اس نے گلی میں جھانکا۔۔۔وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔ اُس نے نعش کو اُٹھایا اور گلی میں پڑے کچرے کی ٹرالی کے پاس لے گیا۔۔ ایک دفعہ پھر اُس نے دائیں بائیں نظر دوڑائی اورایک جھٹکے کے ساتھ اُس نے نعش ڈبے میں ڈال دی۔۔۔ اُس نے ہاتھوں پر سے لفافے بھی اُتارے اور ہاتھ جھاڑ کر اپنے گھر کی طرف یہ کہتے چلا گیا۔۔۔ ’’ان لال بیگوں نے بھی جینا حرام کر رکھا ہے۔۔۔‘‘

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔