تحریک انصاف…چند حقیقتیں

نصرت جاوید  جمعـء 22 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

احتجاجی تحریک چلانے کے لیے کسی جماعت کے کارکنوں کا مرنے یا مارنے والا جوش ہی کافی نہیں ہوتا۔ وقت، جگہ اور ہدف کا تعین محض ’’جنون‘‘سے کہیں زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ تحریک انصاف اگر 2013ء کے انتخابی نتائج کے بارے میں مطمئن نہ تھی تو بہت ضروری تھا کہ اس کے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے باقاعدہ رکن قرار دیے جانے کے باوجود بھی حلف اٹھانے ان ایوانوں میں نہ جاتے۔ انھوں نے نہ صرف یہ حلف اٹھائے بلکہ خیبرپختون خوا میں چند دوسری جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک مخلوط حکومت بھی قائم کر دی۔

اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوئی ہوتیں تو عین ممکن تھا کہ قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اپنے لوگوں کو وہاں بھیج دینے کے باوجود کسی نہ کسی وقت پاکستان پیپلز پارٹی بھی 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف تحریک انصاف کے ساتھ کسی احتجاجی اتحاد میں شریک ہو جاتی۔ پیپلز پارٹی کے حوالے سے ایسے امکانات یقینا موجود تھے۔ اس کی بنیادی وجہ ہرگز یہ نہیں کہ اسے سابقہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کا یقین تھا۔

اصل وجہ یہ ہے کہ نسلوں سے ذات، برادری اور دھڑوں کی بنیادوں پر پنجاب سے انتخابات لڑنے والے پیپلز پارٹی کے لوگوں کو ابھی تک یقینِ کامل ہے کہ2013ء کے انتخابات میں انھیں دھاندلی سے ہرایا گیا تھا۔ یہ لوگ اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اپنے حلقوں میں کافی طاقت ور لوگ ہیں۔ پیپلز پارٹی خود کو کبھی بھی ایک ’’علاقائی‘‘ جماعت کی صورت دیکھنا نہیں چاہتی۔ تحریک انصاف پہلے دن سے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیتی تو اس کی قیادت کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان طاقت ور لوگوں کے اندر موجود غصے اور مایوسی کو دور کرنے کے لیے تحریک انصاف کا ساتھ دینا پڑتا۔

قیادت ایسا نہ کرتی تو شاید ندیم افضل چن جیسے کئی قدیمی جیالے بھی خود کو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہو جانے پر مجبور پاتے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ پیپلز پارٹی کے بارے میں اس تاثر کو تقویت پہنچاتے کہ کسی زمانے میں ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ کہلانے والی یہ جماعت اب ANP جیسی جماعتوں کی طرح فقط ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

قومی اسمبلی میں آ جانے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین کو اپنی پوری توجہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں پر احتجاج کرتے رہنے تک مرکوز رکھنا تھی۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد اس وقت کی اپوزیشن نے پورے ایک سال تک ظفر اللہ جمالی کی حکومت کو ’’گو مشرف گو۔ نو LFO‘‘ والا نعرہ لگاتے ہوئے مفلوج رکھا تھا۔ بالآخر جنرل مشرف نے جنرل احسان جیسے کاریگر معاونوں کی مدد سے اپوزیشن میں شامل دینی جماعتوں کو پیپلز پارٹی سے جدا کر دیا۔

جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام کی بدولت آئین میں 17 ویں ترمیم پاس ہو گئی۔ اسے پاس کروانے کی قیمت ان دونوں جماعتوں نے اس وقت کے صوبہ سرحد میں ایم۔ایم۔اے کی حکومت کو 5 سال تک برقرار رکھنے کی صورت وصول کی۔ بلوچستان حکومت میں جمعیت نے اپنے سیاسی جثے سے کہیں زیادہ حصہ وصول کیا اور مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کر لیا حالانکہ ایک واحد جماعت کے پارلیمانی رہنما ہوتے ہوئے یہ مخدوم امین فہیم کا حق تھا۔

پاکستان جیسے غریب اور بے تحاشہ آبادی والے ممالک میں عوام اپنی حکومتوں کی کارکردگی سے کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ عدم اطمینان کو غصے اور پھر اسے نفرت میں تبدیل کرتے ہوئے کچھ برس درکار ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی تیسری حکومت نے ابھی اپنے دو سال بھی پورے نہیں کیے۔ لوگ اس کی کارکردگی سے بالکل مایوس ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ جسے نواز لیگ والے کبھی 6 مہینوں میں ختم کر دینے کا دعویٰ کیا کرتے تھے اس حکومت کے بارے میں مایوسی پھیلانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ مایوسی مگر غصے اور نفرت کی ان حدوں تک ابھی نہیں پہنچی جہاں ملک بھر کے عوام کسی حکومت کا تختہ کرنے کے جنون میں سڑکوں پر آ نکلتے ہیں۔

Timing کے ساتھ ہی ساتھ تحریک انصاف ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں کر پائی کہ پاکستان پنجاب کے چند شہروں کا نام نہیں۔ یہ ایک وفاق ہے۔ جس کی 4 اکائیاں ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو بہت خود مختاری بھی مل چکی ہے۔ پنجاب کے ’’چار حلقوں‘‘ میں دھاندلی کے نام پر سید قائم علی شاہ اور ڈاکٹر مالک اپنی حکومتوں کو ختم ہوتا نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ ان کا تعلق تو دوسری جماعتوں سے ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی ابھی تک اپنی حکومت چھوڑنے کو تیار نہیں ہو رہے۔

انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ابھی تک پاکستان میں صرف ایک احتجاجی تحریک نے کسی حکومت کو فارغ کروایا اور وہ تھی 1977ء میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت۔ ذوالفقار علی بھٹو مگر دسمبر 1971ء سے اس ملک کے وزیراعظم چلے آ رہے تھے۔ انھوں نے صنعتوں کو قومیانے، اپوزیشن اور آزاد صحافت کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے اس ملک کے بہت سارے طبقات کو تقریباََ دیوار سے لگا رکھا تھا۔

1977ء کے انتخابی عمل کے ذریعے ان کے دلوں میں کئی برسوں سے اُبلتا ہوا لاوا پھٹ پڑا۔ اس کے باوجود مارچ 1977ء سے چلائی جانے والی تحریک پورے پانچ ماہ تک جاری رہ کر اپنے ہدف کو حاصل کر پائی۔ ان 5مہینوں میں اسلام آباد کا صرف ریڈ زون نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں معمول کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ ان شہروں میں روزمرہّ کا معمول بن گئے۔ اس کے بعد پہیہ جام کے ذریعے پورے ملک میں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت بھی پیدا کر دی گئی۔

بھٹو حکومت نے فوج کی مدد سے لاہور اور حیدر آباد جیسے شہروں میں صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کی تو عدلیہ نے ان کے اس اقدام کی توثیق نہ کی۔ عدلیہ اور مسلح افواج کی بیساکھیوں سے محروم ہو جانے کے باوجود بھٹو حکومت نے بالآخراس وقت کی اپوزیشن کو مذاکرات کے لیے راضی کر لیا۔ وہ ایک قابل عمل سمجھوتے تک پہنچ رہے تھے تو اپوزیشن میں موجود اصغر خان، بیگم نسیم ولی خان اور شاہ احمد نورانی جیسے Hawks نے مذاکراتی عمل کو اپنی ضد سے سبوتاژ کر دیا۔ اس سب کے باوجود ان تینوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔

بالآخر 5 جولائی 1977ء کو ضیاء الحق نے مارشل لگایا اور اگست 1988ء تک ایک فضائی حادثے میں اپنی ہلاکت تک اس ملک کے مختار کل رہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ عمران خان 2014ء کے اصغر خان نہیں بننا چاہتے۔ چاہیں بھی تو صرف اسلام آباد کو چند دنوں تک مفلوج بنا کر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی جماعت کو کم از کم لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ جیسے شہروں میں بھی اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لانا چاہیے تھا۔

میرے اس کالم کو ختم کرنے تک لیکن اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی سڑکوں پر کوئی ہلچل نظر نہیں آ رہی تھی۔ حالانکہ اس شہر سے عمران خان بھی منتخب ہوئے تھے اور 2014ء کی انقلابی تحریک کے اہم ترین منصوبہ ساز شیخ رشید احمد بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔